ڈومور نہیں نومور

Pakista - America

Pakista – America

تحریر : عقیل خان
قران کا فیصلہ ہے کہ یہودونصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران سدا امریکہ پر تکیہ کرتے رہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ امریکی پالیسیاں ہمیشہ مسلمانوں بالخصوص پاکستان کے خلاف ہوتی ہیں ۔ امریکہ اور بھارت ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ مفادات کی خاطر امریکہ پاکستان کے قریب آتا ہے اور اپنا مفاد پورا کرنے کے بعد طوطے کی طرح آنکھیں اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے اور ہم کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کردیتا ہے ۔لیکن دکھ امریکہ اور اس کے رویے کا نہیں بلکہ افسوس تو اس بات کا ہے ہمارے حکمران بخوشی دھوکا کھانے کے بعد پھر امریکہ کی جھولی میں بیٹھ جاتے ہیں۔

امریکہ میں ٹرمپ کے آنے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف ہر جگہ مسلم کش پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ کی وجہ سے بھارت کے کہنے پرامریکہ آئے روز پاکستان پر کسی نہ کسی بہانے دباؤ بڑھاتا رہتا ہے جبکہ دوسری طرف بھارت ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔ دونوں مل کر پاکستان کوکمزور کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ پاکستان سے دہشت گردی کے نام پر ”ڈو مور”کا مطالبہ کررہا ہے۔ کیا امریکہ کو ”کل بھوشن ” کا بیان نظر نہیں آرہا جس میں وہ پاکستان میں دہشت گردی کا اقرار کرچکا ہے؟ تو پھر امریکہ کو پاکستان نہیں بلکہ بھارت سے ”ڈومور” کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

ہفتہ وار بریفنگ میں پاک فوج کے ترجمان نے پاکستانی عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ کو باور کرادیا کہ اب ”ڈومور” نہیں ، ”نومور” چلے گا۔پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم نے بہت کرلیا اب کسی کے لیے کچھ نہیں کریں گے ۔امریکا اور افغان حکام ہمارے تعاون سے بخوبی آگاہ ہیں۔حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا امریکی موقف کارآمد نہیں۔کسی ملک کے کہنے پر ڈو مور نہیں کرسکتے ۔ملکی سلامتی پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ بھارت نے 2016 میں سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایااور تحقیقات سے پتا چلا کہ بھارتی دعویٰ جھوٹ تھا۔ انہوں نے کہاکہ 2017 کے دوران بھارتی اشتعال انگیزیوں میں تیزی آتی رہی اور بھارت ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ہماری توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز رہے۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دفتر خارجہ بھی اس حوالے سے اپنا موقف امریکا کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان میں یک طرفہ کارروائیوں کا اشارہ دیا گیا تاہم میں بتانا چاہتا کہ ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن ملک کی سلامتی پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اس کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ اب پاکستان کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ہم پیسے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہے۔ہم نے بہت کرلیا اب کسی کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔

ایشیا میں امن کے لیے اب پاکستان کو نہیں بلکہ افغانستان اور امریکا کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام گروپس کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جس سے امریکا اور افغان حکام بخوبی آگاہ ہیں مگر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا امریکی موقف کارآمد نہیں۔ امریکا کی جانب سے دی گئی دھمکی اب کسی طرح قابل قبول نہیں۔ایک طرف امریکہ ہمیں اپنا اتحادی کہتا ہے اوردوسری طرف ہمیں نوٹس دیے جارہے ہیں۔ ہم کس طرح کے اتحادی ہیں کہ ہمیں نوٹس دیئے جارہے ہیں؟پوری دنیا نے دیکھا کہ ہم نے دہشت گردی کا بھرپور مقابلہ کیا اور اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا بلا تفریق صفایا کیا۔ ہماری پاک فوج ہر وقت پاکستان کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہے۔ امریکہ یا بھارت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ گیڈر بھبھکیوں سے پاکستان کو ڈرا سکتا ہے۔

امریکہ کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی ورنہ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ ایشیاء کو پرامن نہیں رہنے دیگا۔ امریکی صدر کی پالیسیوں کے بعد اب مسلمانوں کو بیدار ہوجانا چاہیے۔ فلسطین ، برما سمیت کئی ایسے ممالک ہیں جہاںپر امریکی پالیسیاں واضح پیغام دے رہی ہیں کہ وہ مسلمان کے خلاف ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو تو دھمکی دے رہا ہے مگر شمالی کوریا کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ وہ مسلم ملک نہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے بعدآج وہاںبھی کافی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔

آرمی کی طرف سے جو بیان آیا ہے وہ ہر پاکستانی کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے ۔ لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ آرمی چیف سے پہلے یہ بیان ہمارے حکمران دیتے کہ اب پاکستان DO MORE پر نہیں بلکہ NO MORE پر عمل کرے گا۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com