تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ پاکستان امریکی کھیل کی بدولت آج تک دہشتگردی سے لڑ رہا ہے اور اگر پاکستان نے اپنی پالیسیوں کو نہ بدلا تو شاید آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے۔پاکستان امریکہ تعلقات کا آغاز پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔لمبے عرصے تک پاکستانی حکومتیں اور جرنیل امریکی تعلقات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ لطف میں ڈالرز اور پروٹوکول نمایاں ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آنے کے بعد متعدد چیلنجز در پیش تھے۔انتظامی و مالی سرفہرست تھے۔مگر اس دہائی میں بھی پاکستان سے دہشتگردی کوسوں دور تھی۔کچھ عرصہ تک پاکستان نے کافی حد تک اپنے انتظامی و مالی مسائل پر قابو پالیا تھا۔وقت گزرا پاکستانی آمروں نے اپنی ٹرنیلی کے چکر میں امریکی کھیل میں شمولیت اختیار کی۔یہ کھیل ظاہری طور پر تو بہت ہی سادہ اور فائدہ مند تھابہت کم لوگ اس کے اثرات سے واقف تھے۔پاکستان خطے میں امریکی اتحادی کے روپ میں نظر آیا۔امریکہ اپنا یکہ وتر کرنے کے لئے پاکستانی سر زمین کو استعمال کرنے لگا ہمارے ادارے بھی اس میں شامل رہے۔
سویت یونین کی واپسی کے بعد پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کئے جو کامیاب ٹھہرے۔ایٹمی نمائش کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے۔امریکہ کو ہر گز گوارا نہ تھا کہ اس کے اشاروں سے چلنے والا اتحادی مضبوط ہو۔امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کیں ڈالرز آنے بند ہوگئے۔یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنی پالیسیاں بدل دیں اور پاکستان کو بدلتی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا۔ ایک بار پھر پاکستانی جرنیل نے ٹرنیلی کے چکر میں امریکہ کو افغانستان پر چڑھائی کے لئے پاکستانی اڈے فراہم کئے نیٹو سپلائی شروع ہوئی۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پھر بہتر ہوئے مگر پہلے سی گرم جوشی نہ دکھائی دی۔امریکہ ڈالرز جاری کرتا اور ساتھ ہی پاکستان پر ڈرائون اٹیک کی صورت میں ڈالرز کے دام پورے کرتا۔افغانستان کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان پر بھی چڑھائی کی کوششیں کرتا رہا۔عرصہ گزرا یونہی چلتا رہا امریکی ڈرائونز کی زد میں معصوم پاکستانی آتے رہے۔
بہت سی پاکستان خلاف تنظیموں نے جنم لیا۔پاکستان ریاست کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی دشمن ملک نے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔پاکستان بیک وقت امریکی ڈرائون اور دہشتگرد ی سے دوچار رہا۔وقت گزرا جرنیل گھر چلتا بنا۔جمہوری حکومت آئی متعدد کوششوں کے باوجود بھی دہشتگردی پر قابو نہ پایا گیا۔امریکی تعلقات بنتے ٹوٹتے رہے۔امریکی آپریشن ایبٹ آباد جس میں شاید امریکی فورسز نے اسامہ بن لادن کو مارا تھا۔اس کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات کافی خراب رہے۔پاکستان امریکہ پر ڈرائون پر قابو پانے کے لئے دبائو ڈالتا رہا۔نئی حکومت آئی۔پاکستان چائنہ اور روس قریب ہوتے نظر آئے۔نئے آرمی چیف آئے بلوچستان سمیت بہت سے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔پاکستان کے دو ٹوک مئوقف اور بار بار اصرار پر ڈرائون اٹیک بند ہو گئے۔
Terrorism
آرمی پبلک سکول جیسا دردناک واقعہ نے پوری قوم کو جنجھوڑ دیا۔پاکستان حکومت اور فورسز نے آپریشن ضرب عضب کا یک طرفہ فیصلہ کیا۔جس پر عملدرآمد کے بعد پاکستان کے بہت سے علاقوں سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوا۔پاکستان کے دہشتگردی کے خلاف اقدامات کو امریکہ بھی سراہتا رہا اور ساتھ ہی ڈومور کا بھی مطالبہ کرتا رہا۔امریکہ نے بلا جواز پاکستان پر پابندیاں بھی لگائیں اور بھارت کے ساتھ قربت بھی امریکی پالیسی کا حصہ رہا۔پاکستان ایک لمبے عرصے کے بعد کسی مثبت مقام پر پہنچا تو چائنہ نے پاکستان کو محفوظ ملک گردانتے ہوئے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور پر کام شروع کیا۔اکنامک کوریڈور پر کام شروع ہوتے ہی دنیا کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہوگئیں۔بھارت اور امریکہ کو ہر گز گوارا نہ تھا کہ پاکستان اور چائنہ کی اشتراک سے یہ منصوبہ مکمل ہوامریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات محدود کر کے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ شروع کردی۔بھارت اکنامک کوریڈور کو ناکام کرنے کے لئے سازشیں کرتا رہا پاکستان نے نقصان کے باوجود ان سازشوں کو ناکام بنایا۔اسی دوران امریکی صدر بدلا اور ٹرمپ برسراقتدار آیا۔جس کی انتہا پسندانہ سوچ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کے لئے نقصان دہ اور بھارت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
اسی صورتحال کے دوران امریکی بیانات میں متضاد نظر آیا کبھی امریکہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو سراہتا اور کبھی پاکستان پر دہشتگردی کو پروان چڑھانے کے الزامات لگاتا۔امریکہ کی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تاریخ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ہماری سرزمین صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے مزید اپنے مفادات کی خاطر اپنا اثر رسوخ پاکستان پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان میں دہشتگردی اور پاک افغان تعلقات میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ خود امریکہ ہے۔امریکہ ہر گز پاکستان اور اس خطے کو مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔گزشتہ دنوں امریکی کمانڈر جوزف کی طرف سے ڈو مور کا مطالبہ اور پھر رکن ایوان ٹیڈپو جو کہ امریکی ایوان میں دہشتگردی سے متعلق کمیٹی کے صدر ہیں نے پاکستان کو دہشتگردی کی معاونت کرنے والا ملک قرار دینے کے لئے ایوان میں بل پیش کیا۔جو کہ حقائق سے منافی ہے۔دنیا پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کارکردگی کو متتعد بار تسلیم کرچکی ہے۔شاید بلکہ یقینی طور پر امریکہ پاکستان کو دوبارہ ٹف ٹائم دینے کی تیاریوں میں ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو پابندیوں والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔پاکستان کو سفارتی سطح پر چستی دکھانا ہوگی اور اس بل کی احمقانہ اور پراپیگنڈہ حقیقت کو سامنے لانا ہوگا۔امریکہ سے مطالبہ کرنا ہوگاکہ تعلقات دو طرفہ ہونے چاہئے ہم دو طرفہ تعلقات کے حامی ہیں۔دیکھا جائے تو پاکستان نے امریکی اتحادی بن کے اپنا ہی نقصان کیا ہے۔شاید امریکی امداد بھی اتنی نہ ملی ہو جتنی رقم ہم نے اپنے اندرونی معاملات اور دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے لئے خرچ کی۔جو قیمتی جانیں قربان ہوئیں ان کا اذالہ کبھی ممکن نہیں۔دنیا اور پاکستان بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں موجوہ دہشتگردی امریکی دوستی کا ثمر ہے۔پاکستان کو امریکی ڈو مور مطالبے کو مسترد کر کے امریکہ سے دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی ترک کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔پاکستان کو امریکی کھیل کو مسترد کر کے خود مختار بننے کی ضرورت ہے ماضی وحال کے نقصانات اسی کھیل کا حصہ تھے۔امریکہ جیسے مکار یار کے لئے اپنی پالیسیاں بدلنے کی فوری ضرورت ہے۔کیونکہ مکار یار دشمن سے بھی خطرناک ہوتا ہے۔پاکستان کو اپنی خاجہ پالیسی ازسر نو بدلتی صورتحال کو دیکھ کر تشکیل دیناہوگی۔یہی وقت کی پکار ہے۔