تحریر : علی عمران شاہین پھر وہی ہوا اور پھر وہی ہوا جس کی امید نہیں مکمل یقین تھا کہ امریکہ پاکستان کا کبھی دوست نہ تھا نہ ہے اور نہ ہو گا۔امریکی سٹیٹ دیپارٹمنٹ نے پاکستان کو اس فہرست میں برقرار رکھا ہے جس میں اس نے ہمیں 2015میں ڈالا اور قرار دیا تھا کہ یہ ملک” دہشت گردوں” کو پناہ فراہم کرتا ہے اور اس نے ان تنظیموں کے خلاف ویسی کارروائی نہیں کی جیسی امریکہ چاہتا تھا۔حقانی نیٹ ورک ،لشکر طیبہ اور جیش محمد وہ تنظیمیں ہیں جن کے خلاف امریکہ سخت کارروائی چاہتا تھا۔اس سے قبل ماہ جون کے آخری عشرے میں نریندر مودی کے دورئہ واشنگٹن سے پہلے امریکہ نے اپنے حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیری رہنما سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تو اس نریندر مودی کا خوب استقبال کیا جس پر اس کے وزیراعظم بننے سے پہلے امریکہ میں داخلہ بند تھا اور امریکہ ایک عرصہ تک مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے بدترین قتل عام کا ایک اہم سرغنہ سمجھتا تھا اور اس وجہ سے داخلے پر پابندی عائد تھی۔ پھر اچانک سارے اصول و ضوابط بدل گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوان صدر میں آمد سے پہلے اور آمد کے فوری بعد پاکستان کو اپنی خصوصی محبت کے نشانے پر رکھے رکھا۔
پہلے دھمکیاں دی جاتی رہیں اور اب امریکی ایوان نمائندگان نے بھارت سے عسکری و دفاعی میدان میں تعاون کا سلسلہ بڑھانے اور پاکستان کی امداد پر سخت شرائط عائد کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ امریکی ایوان زیریں میں قومی دفاعی پالیسی بل 2018ء پیش کیا گیا جس کے حق میں 344اور مخالفت میں 81ووٹ ڈالے گئے۔ بل یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہو گا۔ نئی شرائط کے تحت پاکستان کو امداد کے حصول کے لئے اپنے ملک میں موجود نیٹو سپلائی راستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہو گا، انسداد دہشت گردی آپریشنز میں مدد کے لئے واضح اقدامات کرنے ہوں گے۔ سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو روکنا ہو گا اور بارودی سرنگوں (آئی ای ڈیز) کے خطرے سے نمٹنے کے لئے مناسب کارروائی کرنا ہو گی۔ بل کو امریکی ایوان نمائندگان کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان کو یہ کہنا کہ وہ نیٹو سپلائی کے راستوں کو محفوظ بنائے، حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے ایک کھلی منافقت ہے تو باقی مندرجات کھلی دشمنی۔ کیا یہ وہی امریکہ ہے جسے ہم نے اپنے قیام کے وقت سے اپنا دوست سمجھا تھا؟ بھارت نے اس وقت ہی خود کو روس کے پلڑے میں ڈالا تھا اور یہ دونوں ملک اتحادی تھے۔ جب افغانستان پر روس نے حملہ کیا تھا تو اس وقت روس کے خلاف جنگ اور اسے افغانستان سے مار بھگانا جہاں پاکستان کے اپنے وجود کی بقا کے لئے از حد ضروری تھا وہیں امریکہ کو اپنے واحد دشمن کو دنیا سے ختم کرنا اور ویت نام جنگ میں شکست کا بدلہ لینا تھا۔
پاکستان میدان بنا اور کئی ملین افغان مہاجرین ہمارے ملک میں بطور مہمان آ گئے۔ ان افغانیوں نے روس کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور تین سال کے عرصہ میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ روسیوں سے جنگ جیت سکتے ہیں کہ انہوں نے بہادری و الوا العزمی کی نئی داستانیں مرتب کر دی تھیں۔ پھر امریکہ نے رخ اور ہوا کو بدلتا دیکھ کر چھلانگ لگائی اور اسلحہ اور امداد دینا شروع کر دی۔ چند سال میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہو گئے اور امریکہ کے واحد دشمن کا وجود مٹ گیا۔ اس زمانے میں آج کے مبینہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ مولانا جلال الدین حقانی امریکہ کی آنکھ کا تارا تھے اور ساری دنیا انہیں ہیرو سمجھتی تھی۔ اس زمانے میں بھی جب امریکہ ہمارے ذریعے سے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہا تھا، اس نے پریسلر ترمیم کی شکل میں ہم پر عسکری حوالے سے پابندیاں عائد کئے رکھی تھیں اور ہمارے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہم پر شدید دبائو برقرار رکھا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے ہمیں ایٹمی قوت بنا دیا اور یہ قوت ہمیں 1984ء میں حاصل ہوئی تھی۔ اس سے ذرا پہلے کے معاملات پر نظر ڈال لیں۔ بھارت سے ہمارا جھگڑا پانی کا ہو یا کشمیر کا، امریکہ نے بھارت کے روس کے اتحادی ہونے کے باوجود خود کو ہمارا اتحادی و دوست کہہ کر بھی ہمیں ہمیشہ دھوکہ دیا۔
یہ دھوکہ اس وقت کھل کر سامنے آیا تھا جب 1971ء میں امریکہ نے کہا تھا کہ آپ کے ملک کے مشرقی بازو کو بچانے کے لئے اس کا بحری بیڑہ حرکت میں آ چکا ہے اور جلد ہی چٹاگانگ پہنچ کر آپ کو بچائے گا۔ وہ بیڑہ 46 سال گزرنے کے بعد بھی نہیں پہنچ سکا اور ہم پھر بھی امریکہ کو دوست ہی سمجھتے رہے۔ افغان جہاد اختتام کو پہنچا، ہمارا مسئلہ کشمیر پوری طرح گرم ہو چکا تھا۔ 1987ء کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کے بعد سارے کشمیری میدان سجا چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشمیر کی تحریک اتنے زوروں پر تھی کہ کشمیر کا مقدمہ لڑنا انتہائی آسان تھا۔ بھارتی فورسز اپنے کیمپ اور بنکر تک چھوڑ کر فرار ہو چکی تھیں لیکن امریکہ نے کبھی ہماری حمایت میں ایک جملہ نہیں کہا۔ پھر اگلے کئی مہینوں میں بھارت نے لاکھوں فوجی بھاری اسلحہ اور سامان قتل و غارت گری دیگر کشمیر میں اتار دیئے اور ہر طرف خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ انسانی جسم خاکستر ہونے لگے لیکن امریکہ کو اس لیے کبھی کشمیر میں ظلم و ستم نظر نہ آیا کہ اس سے بھارت کو نقصان اور پاکستان کو فائدہ پہنچنے کا امکان تھا ۔ اس کے بعد نائن الیون ہوا تو امریکہ ایک بار پھر دھمکی، لالچ اور منت کے سارے طریقوں کے ساتھ ہمارے سامنے آن کھڑا تھا۔ پاکستان نے امریکہ کا مکمل ساتھ دیا۔
اس جنگ کا نتیجہ ہمیں سوا کھرب کی معاشی تباہی کے ساتھ 70ہزار جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑا بلکہ اس دہشت گردی کے باعث ملک کا سب کچھ دائو پر لگا۔ ہر شہری ہروقت موت کے خطرے میں گھر گیا۔ سارا ملک اونچی دیواروں اور خاردار تاروں اور بندوقوں کے سائے میں جینے لگا۔ ہمیں عالمی سطح پر ہر طرح سے تنہا کیا گیا لیکن پاکستان نے امریکہ کو دوست ہی سمجھا کہ شاید کبھی تو اس کے دل میں ہماری محبت گھر کر جائے لیکن ایسا نہ ہوا، نہ ہونا تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ آج ہم ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہم امریکہ کے چکر سے جب تک نہیں نکلیں گے بات بنے گی۔ وہ ہمارے وطن کے ایک باسی لیکن ہمارے غدار شکیل آفریدی کو اپنا ہیرو قرار دیتا ہے اور ہماری عزت و غیرت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو86سال کی قید سنا دیتا ہے۔ ہم سے دشمنی تو کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ کھیل تماشا اور گھٹیا مذاق کابھی کرتا ہے۔ ہم صرف اتنا سوچ لیں کہ کیا امریکہ کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے اور کیا ساری دنیا کے سارے ممالک اور سارے انسان صرف امریکہ کے مرہون منت ہیں؟ کیا اس کا کوئی ایک دشمن بھی دنیا میں زندہ نہیں؟اب تو یہ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ ہماری جان امریکہ سے چھوٹ جائے اور ہمیں آج تک اس سے جو زہریلے ڈنک لگے ہم اب ان سے بچنے کی منصوبہ بندی کر لیں اور یہ بھی اچھا ہے کہ امریکہ کی دوستی اب بھارت سے ہو رہی ہے اور جو ڈنک ہمیں پڑتے تھے وہ اب یقینا بھارت کو لگیں گے کہ امریکہ تو صرف اور صرف اپنی حد تک کے مفاد کا دوست ہے۔ امریکہ اگر معاہدئہ پیرس سے نکل سکتا ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
امریکہ کو بھارت سے صرف پاکستان کی دشمنی اور افغانستان میں اپنی جگہ کردار سنبھالنے کی حد تک دلچسپی ہے۔ اگر ہم نے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے قدم اٹھانے ہیں تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہم امریکہ اور اس کی پالیسیوں پر تین حرف بھیج دینے چاہئیں اور اس کے بغیر زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی کوشش و کاوش کرنی چاہئے۔ اسی میں ہماری بقا و سلامتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے کہ یہودونصاریٰ اس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کا دین مکمل طور پر اختیار نہ کر لو۔ اللہ کا یہ پیغام تو سوا چودہ سو سال سے ہمارے سامنے ہے اور ہم دہائیوں سے اس فرمان کی عملی شکل دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ مسلم دنیا کو متحد و منظم ہوناہو گا جس کے بارے میں اللہ نے ہی بتایا کہ ”بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔” ہم بھائیوں کو چھوڑ کر غیروں کی طرف جائیں گے تو یہی کچھ ہوتا رہے گا۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375(