اسلام آباد (جیوڈیسک) امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان، امریکی حلقہء اثر سے نکلتا جا رہا ہے۔ عين ممکن ہے کہ اس تاثر نے امریکا کے کچھ حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہو تاہم پاکستان میں ماہرین اسے مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
سياسی تجزيہ کاروں کے مطابق پاکستان کے ليے یہی بہتر ہے کہ وہ امريکی حلقہء اثر سے نکلے۔ گزشتہ ہفتے جاری کردہ امریکی بجٹ تجاویز میں روس اور چین کو ایک بڑا خطر ہ قرار دیا گیا ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ چین پاکستان جيسے اپنے قريبی اتحادی ممالک میں فوجی اڈے بنا سکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں و سیاست دانوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو امریکا کی دوستی سے کچھ زیادہ نہیں ملا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور معروف دانشور تاج حیدر کی رائے میں اسلام آباد حکومت کو خطے کے ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہیے کیونکہ اس خطے کو امن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سرد جنگ کے دوران ہم امریکی کیمپ میں چلے گئے حالاں کہ پاکستان تصور مساوات و برابری کے تحت معرض وجود میں آیا تھا۔ اس لحاظ سے ہمیں سوشلسٹ ممالک کے قریب ہونا چاہیے تھا لیکن کیونکہ ہمارے حاکم طبقات کی غلامانہ سوچ تھی، اس ليے ہم مغربی کیمپ میں چلے گئے، جس کی وجہ سے ہمارا ان پر انحصار بڑھ گیا۔ میرے خیال میں اب ہمیں کسی بھی ملک کے حلقہء اثر میں نہیں رہنا چاہیے۔ تاہم ہمیں روس، چین اور خطے کے دوسرے ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان میں کچھ حلقے امریکا سے صرف اس ليے خائف ہیں کہ وہ اسلام آباد کے اسٹریجک مفادات کو اہمیت نہیں دیتا اور پاکستان کو اتحادی ہونے کے باوجود دھوکہ دیتا ہے۔ ایسے حلقے پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کرتے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار کرنل انعام الرحیم کے خیال میں افغانستان تو صرف بہانہ ہے۔ امریکا کو در اصل پریشانی سی پیک اور روس سے پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمیں روس اور چین کے ساتھ مل کر سی پیک کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ جس لمحے ہم نے سی پیک پر کام شروع کیا، امریکا سمجھ گیا تھا کہ ہم اس کے حلقہ اثر سے نکل رہے ہیں۔ نواز حکومت کو بھی اس کی سزا دی گئی۔ موجودہ حکومت نے اس کو رول بیک کرنے کی کوشش کی لیکن عوامی ردِ عمل کی وجہ سے انہیں اپنے ارادے ترک کرنے پڑے۔‘‘
کرنل انعام الرحیم کے خیال میں اسلام آباد کے ليے یہ اچھا ہے کہ وہ امریکی حلقہء اثر سے نکل رہا ہے اور چین کے قريب جا رہا ہے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’پاکستان اور چین کو مل کر ایران، ترکی اور روس کو سی پیک کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس کے بعد افغانستان بھی ہمارے ساتھ آ جائے گا۔ جب اتنے اہم ممالک سی پیک کا حصہ بنيں گے، تو کئی ديگر ممالک بھی سی پیک کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کریں گے۔ اس سے امریکا تنہا ہو جائے گا۔ تو پاکستان اگر امریکی حلقہء اثر سے مکمل طور پر نکلتا ہے، تو اس سے نہ صرف خطے کے معاملات تبدیل ہوں گے بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کو چین پر بھی حد سے زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں پاکستان کو سری لنکا اور ديگر ممالک کے مثالیں اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان امریکی حلقہء اثر سے نکل رہا ہے لیکن اسے چینی حلقے اثر میں جانے سے پہلے بھی دس بار سوچنا چاہیے۔ ’’چین ہماری دوستی کا بھرم بھرتا ہے لیکن جب اس کے قومی مفادات کی بات ہو گی، تو وہ بہت چالاکی سے اپنے پتے کھیلے گا، جیسا کہ اس نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے دوران کچھ مہینوں پہلے کھیلا۔ لہذا ہمیں احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔‘‘