پاکستان کے فوجی گھرانے کے چشم و چراغ، میجر شبیر شریف شہید کے چھوٹے بھائی اور نشان حیدر میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے، دشمنان پاکستان کے دلوں میں خوف برپا کرنے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف امریکہ کے دورے پر ہیں۔ انہیں مریکی فوج کی جانب سے لیجن آف دی میرٹ کا اعزاز دیا گیا، آرمی چیف کو اعلیٰ امریکی اعزاز بہادری، خطے میں امن واستحکام کے اعتراف میں دیا گیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق پینٹاگون آمد پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اعزاز میں پریڈ کا انعقاد کیا گیا
آرمی چیف کو امریکی مسلح افواج کی جانب سے سلامی دی گئی آرمی چیف نے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔ بعدازاں جنرل راحیل شریف کو امریکہ کی جانب سے اعلیٰ امریکی اعزاز” لیجن آف میرٹ ” سے نوازا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے جنرل آسٹن سے ملاقات میں علاقائی سلامتی اور استحکام کے ساتھ کنٹرول لائن پر بھارت کی جارحیت اور مسئلہ کشمیر کو اٹھایا۔آرمی چیف نے علاقائی سلامتی اور پاکستان اور افغانستان میں فوجی تعلقات بڑھانے کے حوالے سے بتایا۔ مذاکرات فلوریڈا میں ہوئے۔ امریکی جنرل نے آپریشن ضرب عضب کے سلسلے میں پاک فوج کی کامیابیوں کو سراہا۔ آرمی چیف امریکی چیف آف آرمی سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی، بحریہ کے جونیئر کمانڈنٹ جوزف ایف ڈنفورڈ سے بھی ملے۔
ملاقات میں پاکستان، بھارت ورکنگ بائونڈری پر کشیدگی، افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد خطے کی سکیورٹی، پاکستان، افغانستان سرحدی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکی نائب وزیر دفاع سے ملاقات میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق آپریشن جاری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے الزامات درست نہیں۔ رابرٹ ورک نے آپریشن ضربِ عضب میں پاک فوج کی کامیابیوں کو سراہا اور کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن قبال تعریف ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کیلئے افغان سرحدی علاقے میں شدت پسندوں کیخلاف کارروائی میں مشکلات درپیش ہیں۔ بھارت کی طرف سے جس طرح کی سخت کارروائی ہو رہی ہے اور جس طرح کے بیانات آ رہے ہیں وہ ہماری مہم پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر ایک لاکھ 40 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں، انہیں یہ امید تھی کہ مشرق میں بھارت سے متصل سرحد پر امن رہے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کئی ہفتوں سے جاری ہے۔
اس دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان فائرنگ کے مختلف واقعات میں دونوں جانب اب تک کم از کم 19 افراد ہلاک اور 50 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ پاکستان اس معاملے پر بھارت سے سفارتی سطح پر احتجاج بھی کر چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے ورکنگ باؤ نڈری پر گزشتہ 5 سالوں کے دوران 157 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی۔ سال 2010 میں بھارت کی جانب سے 54 بار، سال 2011 میں 13 بار، سال 2012 میں 27 بار، سال 2013 میں 33 بار اور رواں سال اب تک 30 بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی
سال 2010 سے 2014 تک بھارت کی جانب سے 31 ہزار 872 مارٹر گولے برسائے گئے جس کے جواب میں پاکستان نے 6 ہزار 756 مارٹر گولے فائر کئے۔ بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزی کے دوران 3 لاکھ 54 ہزار 78 چھوٹا اسلحہ اور بارود استعمال کیا جبکہ پاکستان نے جوابی کارروائی میں 1 لاکھ 38 ہزار 414 چھوٹا اسلحہ استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی بلااشتعال فائرنگ کے باعث مقامی افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ بڑھ گیا جبکہ بھارتی جارحیت کے باعث 70 فیصد پنجاب رینجرز سیالکوٹ ورکنگ باؤ نڈری پر تعینات ہے۔ جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے تب سے بھارت کی جانب سے جارحیت بڑھ گئی، ہرپال سیکٹر میں 6 روز کے دوران بھارتی افواج نے 31 ہزار 872 گولے برسائے، اتنے گولے تو 1971 کی جنگ میں بھی نہیں برسائے گئے۔
Pakistan
پاکستان بھارتی جنگی جنون اور جارحیت کے خلاف جراتمندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیوں کا معاملہ اقوام متحدہ سمیت عالمی سطح پر بھرپور طور پر اٹھائے۔بھارت بھی ہوش کے ناخن لے۔جب سے ہندوستان میں مودی سرکار نے اقتدار سنبھالا ہے پاکستان کے خلاف بھارتی جنگی جنون بڑھتا جا رہا ہے۔بھارت کی طرف سے سیالکوٹ کے سرحدی دیہات پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری پاکستان کے خلاف ایک سوچی سمجھی بین الاقوامی سازش ہے۔وزیر اعظم نواز شریف فوری طور پر بھارت کے خلاف ایک جراتمندانہ موقف اختیار کریں۔اس اہم قومی مسئلہ پر پوری پاکستانی قوم کی حمائت نواز شریف کو حاصل ہے۔ سیالکوٹ کے سرحدی دیہات میں سویلین آبادی پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کی بلا اشتعال گولہ باری اقوام متحدہ کا معاملہ ہے۔یہ ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی ہے۔
حکومت بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے متاثرہ افراد کی مالی امداد کی رقوم میں اضافہ کرے اور دئیے گئے چیکوں پر ادائیگی کو بھی یقینی بنائے۔پاکستان مسئلہ کشمیر کو بھی اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق فوری حل کروانے کے لئے بھی عالمی برادری کا اثر و رسوخ ا ستعمال کرے۔بھارت کی جارحیت کسی بھی صورت میں پاکستان کو قبول نہیں۔مسئلہ کشمیر اس خطہ میں کشیدگی کی جڑ ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تھرڈ کمیٹی نے 81ممالک کی حمایت سے پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی ہے جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ لوگوں کے حق خودارادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کرنا ہی انسانی حقوق تسلیم کئے جانے اور ان کی موثر ضمانت کے حوالے سے بنیادی شرط ہے۔
سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے 1981ء سے جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس قسم کی قراردادوں کی توجہ کشمیر اور فلسطین کے لوگوں کے حق خودارادیت جیسے ناقابل تنسیخ حق کی طرف دلانا ہے۔ توقع ہے کہ قرارداد منظوری کیلئے آئندہ ماہ جنرل اسمبلی میں پیش کر دی جائے گی۔ قرارداد میں اس صورت حال کے ذمہ دار ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دیگر ملکوں یا علاقوں میں فوجی مداخلت یا قبضہ ہر قسم کا ظلم و جبر امتیازی سلوک استحصال اور بدسلوکی کا سلسلہ بند کر دیں۔
قرارداد میں اس قسم کے اقدامات کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بحفاظت اور رضاکارانہ واپسی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ مسودہ قرارداد پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب مسعود خان نے حق خودارادیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حق خودارادیت کو بین الاقوامی قانون کے علاوہ اقوام متحدہ کے منشور اور دو بین الاقوامی کنونشنز میں اسے سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس حق کے استعمال کے ذریعے کئی اقوام استعماری حکومتوں اور غیر ملکی تسلط سے نجات حاصل کر چکی ہیں۔