تحریر : عبدالوارث ساجد سوال کیا گیا کہ ہم” میجر کرنال، میجر اکشے، کرنل اُونی کرشن، میجر اُونی کرشن اور کرنل ایم ایم رائے جیسے بہادروں کا نام سنتے ہیں۔ جنہوں نے اپنا بلیدان دے دیا مگر مسٔلہ جوں کا توں ہے۔کیسے ہم پاکستانی سینا کو شکست دے سکتے ہیں؟” جواب دیا گیا کہ ”ہمیں پاکستان اور پاکستان کی سیناکو ایک خاص طریقہ کار سے شکست سے دو چا ر کرنا ہوگا اور وہ خاص طریقہ یہ ہے کہ ان پراُن کے ہی لوگوں سے حملے کروائے جائیں پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو پیسے کے لیے کام کرتے ہیں ہمیں ان سے کام لینا ہو گا۔”
یہ بھارتی ٹی وی پر چلنے والے ایک مذاکرے میں کیا جانے والاسوال تھا جو لال قلعہ کے سامنے سینکڑوں بھارتیوں کی موجودگی میں ہوا جس میں اینکر کے سوال کا جواب بھارتی فوج کے آفیسرنے دیا اس جواب میں برملا اعتراف موجود ہے کہ بھارتی فوج اب اپناطریقہ کار بدل چکی ہے محاذوں پر شکست کے بعد وہ جان چکی کہ اس میدان میں وہ پاک فوج کی شجاعت کا جواب نہیں دے سکتی اور اب پیسے کے زور پر پاکستان میں ہی ان کے خلاف جنگ شروع کر دی جائے اس کے لیے ہر محاذ سے لوگ خریدے گئے ہیں اسلحہ کے زور پر لڑنے اور دھماکے کرنے والے اورقلم اور زبان کے زور پر بھارتی مفاد کا تحفظ کرنیوالے ۔ پاکستان میں بیٹھے بہت سے لوگ اخبارات اور ٹی وی پر بے تکے تجزیے کر کے ہر اس اقدام کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں جن سے پاکستان کا مفاد اور مسقتبل وابستہ ہوتا ہے ۔ کالا باغ ڈیم اب تک ایسے ہی خریداروں نے بننے نہیں دیا اب پاکستان میں سی پیک بھارت کو ہضم نہیں ہورہا اور پاکستانی فوج کی ضربِ عضب اور رد الفساد کی کامیابیوں پر بھی ا ن کو مروڑ اٹھتے ہیں ایسے ہی ٣٩ ممالک کی مشترکہ فوج جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آنے پر بھی ایسے لوگوںکا برا حال ہے نت نئے فلسفے اور تجزئیے کر کے یہ ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں کہ جیسے جنرل راحیل کی قیادت سنبھالنے سے گویا زلزلہ آجائے گا اور سب کچھ تباہ ہو جائے گا سب سے بڑااعتراض ایران کے متعلق کیا جاتا ہے گویا جیسے یہ اتحاد ایران کے خلاف ہے۔
با وجود اس کے کہ اس اتحاد میں شمولیت کے لیے جنرل راحیل شریف اور ویزراعظم نواز شریف خودایران گیے مگر ایران کی طرف سے ” صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں” والی پا لیسی چل رہی ہے اصل بات یہ ہے کہ ایران کے بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات ہیں ایران بھارت کو ناراض نہیں کر سکتا وہ اپنا مفاد عزیز رکھتے ہیںمگر ہم کب تک ہمسایہ ممالک کی ناراضی کی بنا ء پرپاکستان کے مفاد اور فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے رہیں گے ۔ حالات یہ ہیں کہ پاکستان کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے اور زرخرید لوگوں کو پیسے دیے جارہے ہیںانہیں کرائے کے لوگوں کے ہاتھوں پاکستان کو اندرسے کھوکھلا کرنے کی تگ و دو بھی جاری ہے سی پیک کے بعد یہی دشمن ملک امریکہ کے ساتھ میری ٹائم معاہدہ کر چکا ہے جو صرف اور صرف پاکستان کے خلاف ہے بھارت اور امریکہ اس وقت سب سے بڑے دفاع شراکت دار ہیں اور ساڑھے تین لاکھ امریکی اور بھارتی فوج بحرِ ہند میں سرگرمِ عمل ہیں یہ دونوںممالک پاکستان اور چین کو روکنا چاہتے ہیں اسی صورتحال میں جب بھارت جیسا دشمن ملک واشگاف الفاظ میں پاکستان کے خلاف سر گرم عمل ہو تو پاکستان کو ایسے اتحاد کی اشد ضرورت ہے یوں دیکھا جائے تو یہ اسلامی اتحا د نعمت خدا وندی سے کم نہیں۔لہذا اسلامی اتحا دکے مخالفین کو اطمینان ہونا چاہیے اور اس اتحاد کی سر براہی کے معاملے پر ذاتی حملوں سے گریز کرتے ہوئے دور رس نتائج پر نظر رکھنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے لیے بیرونی دنیا تک رابطے کا گیٹ وے ہے، سی پیک بننے سے پاکستان بڑ اتجارتی و اقتصادی مرکز بن جائے گا ، ہمیں ہر صورت افغانستان سے تعلقات بہتر بنانا ہوگا اور مغربی محاذ بند کرنا ہوگا کیونکہ افغانستان میں پائیدا ر امن سے ہی روس اور وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کو سی پیک سے فائدہ ہوگا۔ بحرِ ہند کی کوئی حدود نہیں ، یہ دنیا کے دریائوں اور سمندروں سے منسلک ہے، ہم ایک بڑی تجارتی ، راہداری کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور چین اور روس کے لیے بھی ہم اب تجارتی راہداری ہیں، جنوبی چین کے سمندر کی ٩٠ فیصد تجارت اس حصہ میں منتقل ہورہی ہے، اگر ہم ایک بڑی تجارتی مرکز بن جائیں گے ، ممکن ہے آنیو الے برسوں میں ہم ایک بڑے صنعتی مرکزکی شکل اختیار کر جائیں ، ہمیں اپنی سمندری سلامتی کی پالیسی ان تمام جہتوں کو ذہن میں رکھ کر مرتب کرنا ہوگی۔اوراس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے ہی زر خرید لوگوں کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ دراز ہے۔ پاکستان طویل عرصہ سے دہشگردی کا مقابلہ کر رہا ہے، گزشتہ ٣٨ برسوں سے پاکستان اور افغانستان سیکورٹی چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔
خوشی اس بات کی ہے کہ فوج کے سابقہ جرنیل جنرل راحیل شریفنے پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی جو سوچ اور پالیسی رکھی ہے دنیااسے مان رہی ہے اور پاک فوج اب بھی جنرل قمر باجوہ کی سر پرستی میں اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔پاکستان اور اسلام کچھ لوگوں کو ہمیشہ سے کھٹکتا رہتا ہے ہر لمحہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کا دفاع اورسلامتی کمزور ہی رہے اس کے لیے بیان بازی اور لابنگ سے گریز نہیں ہوتا۔ وہ بات اصولوں کی کریں گے مگر مفاد دشمن کا ہوگا۔
اسلامی ممالک کا اتحاد جب سے بننے کی باتیں ہو رہی ہیں بہت سے لوگ مفروضوں پر مبنی تجزیے اور تبصرہ الا پ رہے ہیں ۔ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ہو جائے گا۔ وہ نقصان ہے جانے کیا کیاخدشات ہیں جو بیان ہو رہے ہیں۔ حالات کدھر جارہے ہیں خطے میں بھارت کیا گیم پلان کر رہا ہے شاید وہ جانتے نہیں یا جانتے بھی ہیں تو ڈالروں کی چمک ہے کہ سکے کا ایک ہی رخ ہی دکھائو دوسرا نہیں۔ صد شکر ہے کہ پاکستانی فوج ، ایمان اتحاد اور جہاد کے جذبے سے سرشار ہے اور پاکستان کے دفاع و سلامتی میں ہر طرح کی قربانی دے رہی ہے یہ بزدل اور ان کے زرخرید کیا جانیں گے کہ ایما ن،اتحاد اور جہاد کے ہوتے ہوئے پاکستانی فوج کو کسی بھی محاذ پر شکست دنیا ناممکن ہے چاہے بھارتی سینا محاذ جنگ میں آزما لے چاہے پیسے کے زور پر لوگ خرید کر۔ان شاء اللہ۔