ایک ریت چل پڑی ہے کہ اپنے ملک اور اُس کے مفادات کے خلاف بیرونی آقائوں کی مرضی کے مطابق اپنے آپ کوتبدیل کر تو آپ کے لیے بیرونی ملکوں میں ترقی کے مواقعے پیدا کر دیے جائیں گے ملک میں بیرنی امداد سے چلنے والی ملک دشمن این جی اوز سے لیکر باہر ملکوں کے سربراہ مرکزی عہدہ داراُن کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اُن کے کنٹرول میں چلنے والے بین الالقوامی ادارے، ان کا کنٹرولڈ میڈیا خوب پروپیگنڈہ کرتا ہے اُن کو اپنے ملکوں میں پناہ دیتے ہیں انہیں فوراً اپنے ملکوں کی شہریت پیش کی جاتی ہے اُن کا ستقبال کیا جاتا ہے اُن کو اعزازات سے نوازہ جاتا ہے اس کی تازہ مثال پاکستان کی ملالہ یوسفزئی اور ہمارے سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی ،پرویز مشرف اور الطاف حسین صاحب ہیں۔
ملالہ یوسفزئی ، پرویز مشرف اور الطاف حسین ہیں ان پر تو ہم نے علیحدہ کالمز میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں آج حسین حقانی صاحب کی کا کچھ ذکر کرنا ہے ۔ موصوف پاکستان میں پیدا ہوئے ، تعلیم حاصل کی،صحافت میں جوہر دکھائے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے امریکا میں سفیر تعینات کیے گئے۔جس ملک نے اتنے شہرت،عزت اور ترقی دی انہوں نے امریکا میں بیٹھ کر پاکستان کی سفارت کاری کی بجائے اس کی جڑیں کاٹنی کی حماقتیں شروع کر دیں ملک کے اسلامی تشخص فوج اور اس کے ادارے آئی ایس آئی کی مخالفت میں مضامین لکھے اور اخبارات میں شائع کروائے۔
ساری دنیا کو معلوم ہے کہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اس کافیصلہ اس کے خالق حضرت قائد اعظم نے شروع ہی میں کر دیا تھا انہوں نے ٢٦ مارچ ١٩٤٨ ء چٹا گانگ میں فرمایا تھا”اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا]مقصد حیات[ اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوی نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا” مملکت اسلامیہ پاکستان دستوری طور پر اسلامی ریاست ہے اس کی عوام کے دِل اسلام کے ساتھ دھٹرکتے ہیں اس کی خاموش اکثریت مدینہ اور اس کے بعد خلفائے راشدین کی اسلامی فلاحی ریاست کے نمونے کے خواب دیکھتے ہیں۔ غیر ملکی دشمنوں اور اس کے مقامی پٹھو حکمرانوں کی انتہک کوششوں کے باوجود ملک کی اکثریت بدیسی تہذیب و تمدن سے نفرت کرتی ہے اسلام کے خلاف کسی بھی کوشش کے وقت مر مٹنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اس کا مظاہرہ کئی موقعوں پر دنیا دیکھ چکی ہے۔
پاکستان کو اس بنیاد سے الگ کرنے کے لیے دشمن ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ان کو سیکولر پاکستان پسند ہے اسلامی پاکستان ہرگز پسند نہیں۔اس کی ترقی کو روکنے کے لیے وہ ہر قسم کی سازش کے لیے تیار ریتے ہیں تازہ مثال ایران سے گیس اورگوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے کے معاہدے ہیں ملک میں دہشت گردی کی تازہ لہر بھی اسی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے تاکہ ملک کی معیشت ترقی نہ کر سکے قوم اورتجزیہ نگاروں نے بے نظیر صاحبہ کی شہادت کے وقت تین دن میں ملک کی ہر چیز کی تباہی کی صورت حال بھی دیکھی اسی طرح کراچی پاکستان کو٧٠ فی صد ریوینیو دینے والا شہر کا حال سب کے سامنے ہے حال ہی میں کراچی کے پوش علاقے کے ایک کلب کی رپورٹ سامنے آئی ہے کہ اغوا،دہشت گردی اور بھتہ خوری کی وجہ سے ٤٠٠٠ ممبران میں سے ٣٥ فی صد ملک چھوڑ چکے ہیں اور بیرون ملک میں سکونت اختیار کر لی۔
یہ دیگ کے ایک چاول کی مثال ہے باقی ہم خود اندازہ کر سکتے ہیں ۔حقانی صاحب نے امریکا میں بیٹھ کر پاکستان کے سفیر ہونے کی بجائے امریکا کے مفادات کا ہمیشہ خیال رکھا بیرونی اخبارات میں پاکستان کی فوج اور اس کے ادارے آئی ایس ائی کے خلاف مضامین لکھے اور شائع کروائے۔پاکستان کے معاملات میں اپنے منصب حثیت سے تجاوز کیاامریکاکے فوجی سربراہ کو خط اور مشورے دیے جس پر ملک میں پاکستان کے مقتدر حلقوں اور سیاسی رہنما نے گرفت کی اور ان کو مقدمات کا سامنا ہے میمو تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان کو قصوروار ٹھرایا اب مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اب حالت یہ ہے کہ اپنے ملک میں اس لیے نہیں آ رہے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے عبرت کا مقام ہے نہ وہ ملک کے خلاف ایسی حرکت کرتے نہ یہ دن دیکھنے پڑتے۔ اس سے قبل پاکستان میں قیام کے دروران وزیر اعظم ہاوس میں چھپے رہے اور اپنے آقا امریکہ کے دبائو کی وجہ سے امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔مغرب کو خوش کرنے لے لیے لکھی گئی اپنی کتاب ”پاکستان فوج اور ملائوں کے درمیان” میں فرماتے ہیں پاکستان میں عرصے سے فوج اور ملائوں کے درمیان گٹھ جوڑ رہاہے۔
India
جس وجہ سے پاکستان کی ترقی رک گئی ہے پاکستان کی ترقی اس وقت ہی ممکن ہے جب وہ مکمل سیکولر ریاست بن جائے مغرب امریکا اور بھارت کے لیے پسندیدہ ملک بن جائے بھارت سے ازلی دشمنی ختم کرے روپیہ جو ملک کے دفاع پر خرچ کرتا ہے عوام کی فلاح پر خرچ کریں وہ پاکستان کو مغربی طرز جمہوری ملک دیکھنے کا خواشمند ہے جس میں لوگوں کو مادر پدر آزادی سے اپنا طرز زندگی اختیار کرنے کی اجازت ہو چاہے وہ قوم لوط کی طرز زندگی ہی کیوں نہ ہو چاہے وہ طرز زندگی سیدھی دوزخ میں لے جائے جیسا کہ مغرب کے کچھ ملکوں نے اختیار کی ہوئی ہے اور ہمارے ملک میں امریکہ کی سفارت خانے میں اس کا افتتاح بھی ہو چکا ہے حقانی قماش کے پاکستانی اس میں شرکت بھی کر چکے ہیں ۔
انہوں نے ”کارنیگی انڈومنٹ برائے عالمی امن” کے زیر سایہ یہ کتاب لکھی ہے جس کے وہ مہمان اسکالر ہیں اس ادارے کے سارے ا ہلکار مغربی اور ہندو ہیں جو اسلام دشمن ہیں کیا یہ سب ایک ایٹمی اسلامی ریاست کو برداشت کر سکتے ہیں وہ تو پاکستان کو امریکی پالیسی کے تحت بھارت کا طفیلی ملک دیکھنا چاہتے ہیں جن کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے اس کے صدر جیسیکاٹی میتھیوز نے اس کتاب کاتعریفی پیش لفظ لکھا ہے ۔اس کتاب کے مندرجات پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ساری کتاب میں مغربی تجزیہ نگاروں کے تجزیے تحریر گئے گئے ہیں جو اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں پاکستان کہ ایٹمی صلاحیت کے خلاف پاکستان کے اسلام تشخص کے خلاف حقانی صاحب اپنی پوری کتاب میں افواج ِ پاکستان کے خلاف امریکی ڈاکٹرئن (امن کی آشا)جو ہندستان کا پسندیدہ ہے کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں اسلام پسندوں اور پاکستانی فوج کے اتحاد پر تنقید کرتے ہیں پاکستان کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
فوج ان ہی میں سے ہے کیا فوج اور اسلام پسند اتحاد نہ کریں اور باہمی دست و گرابیان ہوں اگر کسی ملک کی فوج کے پیچھے اس ملک کی آبادی کی حمایت نہ ہو تو وہ فوج ملک کی حفاظت کرسکتی ہے یہ بات حسین حقانی صاحب کو کھٹکتی ہے ۔کشمیر کی جد و جہد کو دہشت گردی کہتے ہیں کیا پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرنا دہشت گردی ہے؟ بھارت نے ١٩٤٨ء میں خود اقوام متحدہ میں رائے شماری کا وعدہ کیا تھا بھارت کے اقوام متحدہ میں وعدے پر تو بات نہیں کرتے کشمیر کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنے والوں کا دہشت گرد کہتے ہیں جو اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ حقانی صاحب اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ملا ملٹری اتحاد میں صلاحیت موجود ہے کہ دنیا میں اسلام کی نشاة ثانیہ کر سکیں اسی لیے اسے ختم کرنے کے مشورے دئتے ہیں ۔اسلام نے دنیاکے پیشتر حصے پر حکمرانی کی ہے اس کی آبادی ٢ ارب سے زائدہے کیا اپنی نشاة ثانیہ کی لیے کوشش کرنا دہشت گردی ہے تو نیو ورلڈ سب سے بڑی دہشت گردی ہے ۔مغرب سیاسی اسلام سے خوف زدہ ہے حقانی اور اس جیسے قماش کے لوگ اس کے حواری ہیں۔وہ اس اتحاد کو ختم کرنے کی تدبیریں مغرب کو بتاتے ہیں پاکستانی فوج کو کرایہ کی فوج بننے کے لیے امریکہ کو راستے بتاتے ہیں اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے وہ ڈاکٹر قدیر محسن پاکستان پر بے جاہ تنقید کرتے ہیں ۔
قارئین !کاش جو لوگ پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں یہاں پر ترقی کے منازل طے کرتے ہیں پاکستان میں صحافت سیاست کرتے ہیں دنیا میں پاکستان کی وجہ سے پہنچانے جاتے ہیں پاکستان کا ہی مْقدمہ ہی پیش کرتے ! مگر کیا کیا جائے جھوٹی ناموری اور دولت کی ہوس نے لوگوں کو اپنے ہی ملک و ملت کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں گو کہ کہ ایسی کھپت سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا جس کی مثال پرویز مشرف ہیں وہ اپنی قوم کی نظر میںخوار ہی ہوتے ہیں چائے مغرب یا غیر ملک کچھ مدت کے لیے انہیںاستعمال کر لے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے… اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو…سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جائو گے