تحریر : پروفیسر رفعت مظہر بلوچ سردار، سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جَلاوطنی کے بعد 23 دسمبر کو کراچی پہنچ گئے۔ پتہ نہیں یہ جَلاوطنی تھی، الطاف حسین کی طرح فرار یا کچھ اور، بہرحال جو کچھ بھی تھا، وہ ایک دفعہ پھر پاکستانی سیاست میں ”اِن” ہو چکے ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان میں اپنے آخری خطاب میں اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرکے یہ کہا ” تم نے تین سال بعد چلے جانا ہے، پھر ہم نے ہی رہنا ہے”لیکن پھر ہوا یہ کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کرنے والے آصف زرداری اچانک ملک سے ”پھُر” ہوگئے اور اب جب کہ سپہ سالار راحیل شریف ریٹائر ہو کر گھر جا چکے تو زرداری صاحب بھی وطن لوٹ آئے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کوئی نیا ”این آر او” ہوا یا معافی تلافی لیکن ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ پاکستان پہنچتے ہی اُنہوں نے ایک بار پھر ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا دیا اور ساتھ یہ بھی کہا ” اب بھاگوں گا نہیں۔سیاسی اداکار کیوں بھول گئے کہ ہم نے گڑھی خُدا بخش میں دَفن ہونا ہے ”۔ اللہ کرے وہ پاکستان ہی میں رہیں لیکن اُنہوں نے پہلے بھی یہی کہا تھا اور ہوا یہ کہ اچانک منصۂ شہود سے غائب ہو گئے۔
پاکستان کھَپے کا نعرہ لگانے والے بلوچ سردار نے اپنے پانچ سالہ دَورِ حکومت میں پاکستان کو ہی ”کھپا” کے رکھ دیا تھا اب دیکھیں وہ کِس کو ”کھپانے” آ رہے ہیں ۔ یوں تو اُنہوں نے اپنے مختصر خطاب میں مفاہمت ہی کی بات کی اور یہ بھی کہا کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے لیکن وہ چَومکھی چالیں چلنے کے ماہر ہیں ۔ اُن کے تو قریب ترین ساتھیوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اُن کے اندر کون کون سے منصوبے جنم لے رہے ہیں ۔ بَس پتہ ہے تو پوری قوم کو اتنا کہ جہاں اُن کا بَس چلا ، وہ ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آئیں گے ۔ بی بی بینظیر کے پہلے دَورِ حکومت میں اُنہیں مسٹر ٹِین پرسنٹ کہا جاتا تھا ، دوسرے دَورِ حکومت میں وہ مسٹر سینٹ پرسینٹ بن گئے اور جب بی بی کی شہادت کے بعد اُنہیں کھُل کھیلنے کا موقع ملا تو پھر غضب کرپشن کی ایسی ایسی عجب کہانیاں سامنے آئیں کہ سارے کرپٹ عناصر اُنہیں اپنا ”گُرو” ماننے لگے ۔ اب بھی یقیناََ اُن کا کوئی نہ کوئی ٹارگِٹ تو ضرور ہو گا ورنہ وہ پاکستان آنے کا رِسک کبھی نہ لیتے ۔ اُدھر وزیرِاعظم میاں نواز شریف خوش ہیں کہ زرداری صاحب پاکستان آ رہے ہیں ۔ اُنہوں نے تو زرداری صاحب کو خوش آمدید بھی کہہ دیا ، جس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
Asif Ali Zardari and Nawaz Sharif
پہلی یہ کہ میاں صاحب کو زرداری صاحب کی مفاہمتی سیاست پہ اعتماد ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ زرداری صاحب سفینے جَلا کر لڑنے والوں میں سے نہیں۔ وہ پہلے اپنا دامن بچائیں گے اور اُس کے بعد ہی کوئی قدم اُٹھائیں گے۔ دوسری وجہ یہ کہ میاں صاحب سمجھ رہے ہیں کہ کپتان کا توڑ صرف آصف زرداری ہی ہو سکتے ہیں ، بلاول زرداری نہیں۔ ہم پہلے بھی لِکھ چکے کہ آمدہ انتخابات 2018ء میں مقابلہ وزارتِ عظمیٰ کا نہیں ، دوسری پوزیشن کا ہے کیونکہ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ نوازلیگ کو آمدہ انتخابات میں شکست سے دوچار کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے ۔ اب تو صورتِ حال اور بھی واضح ہو چکی کہ لوکل انتخابات میں نوازلیگ نے پورے پنجاب کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب میں پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کا مکمل صفایا کر دیا اور یہ دونوں جماعتیں اپنا ایک بھی میئر منتخب نہیں کروا سکیں ۔ 2017ء انتخابات کا سال ہے اور غالباََ زرداری صاحب اُس میں اپنا حصّہ وصول کرنے آئے ہیں۔ یقیناََ اُن کے ذہن میں یہ ہو گا کہ بلاول تحریکِ انصاف کا مقابلہ نہیں کر سکتا اِس لیے اُن کی پاکستان میں موجودگی ضروری ہے ۔ اب قائدِ حزبِ اختلاف کی دَوڑ ہو گی اور کسی بھی صورت میں پیپلز پارٹی کسی بھی سطح پر تحریکِ انصاف کے ساتھ مفاہمت نہیں کرے گی اور نہ ہی تحریکِ انصاف پیپلز پارٹی کے ساتھ۔ اِس کے علاوہ نوازلیگ پر سے پاناما لیکس کے حوالے سے کم از کم پیپلز پارٹی کا بوجھ تو ہٹ ہی جائے گا ۔ شاید بلاول نہ جانتے ہوں لیکن آصف زرداری خوب جانتے ہیں کہ ”شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے والا احمق ہوتا ہے”۔ ویسے بھی جس جماعت میں چودھری نثار علی خاں جیسا دبنگ آدمی موجود ہو اور وہ جماعت بَرسرِاقتدار بھی ہو ، وہاں کرپٹ عناصر اپنا دامن بچا کر ہی نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چودھری نثار کا یہ عالم ہے کہ
اپنے بھی خفامجھ سے ہیں ، بیگانے بھی نا خوش میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
وہ 1985ء سے نوازلیگ میں ہیں اور اُنہوں نے کبھی کسی دوسری جماعت میں جانے کا سوچا تک نہیں۔ کپتان نے بھی متعدد بار اُنہیں تحریکِ انصاف میں شمولیت کی دعوت دی لیکن اُنہوں نے جواب تک بھی دینا گوارا نہ کیا۔ اُن کا کپتان صاحب سے پینتالیس سالہ تعلق ضرور لیکن اصول اپنی جگہ۔ ”دھرنا ٹو” میں سبھی نے دیکھ لیا کہ وہ اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے ۔بھارت بھی اُن سے ناخوش کہ وہ بھارت کے ساتھ حکومتی مفاہمتی عمل کے بھی خلاف ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں بھارت سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے ۔ بھارتی وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ کو اُنہوں نے ایسا کرارا جواب دیا کہ وہ ناراض ہو کر پاکستان سے واپس چلا گیا۔ ایسا نہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ جنگ کے حامی ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہندو لالے کو مُنہ توڑ اور دوٹوک جواب دینا پسند کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دھڑلے سے بات کرنے والے چودھری نثار کا اصول ہی یہی ہو کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے دُرویش کو تاجِ سرِ دارا
اُن پر کبھی کرپشن کا الزام بھی نہیں لگا۔ وہ خود کرپشن کرتے ہیں ، نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے ساتھ اُن کی مخاصمت کی وجہ یہی ہے کہ وہ کرپشن پر سمجھوتہ کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ اِدھر زرداری صاحب کراچی کی فضاؤں میں پہنچ رہے تھے اور اُدھر رینجرز زرداری کے ذاتی دوست کے دفاترپر چھاپے مار کر ریکارڈ اپنے قبضے میں لے رہے تھے ۔ رینجرز نے وہاں سے اسلحہ بھی بَرآمد کیا اور پانچ افراد کو زیرِحراست بھی لیا، جس پر پیپلز پارٹی نے واویلا کرتے ہوئے اِسے سیاسی انتقام کہا۔ چودھری نثار نے وزیرِاعظم صاحب کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام کارروائی ٹھوس شواہد کی بنا پر کی گئی۔ اِن حالات میں یہ ممکن تو نظر نہیں آتا کہ چودھری نثار کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ کرپشن پر کوئی ” مُک مَکا”ہو سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا سارا زور چودھری نثار کے استعفے پر ہے لیکن ایسا کبھی ہو گا نہیں کیونکہ میاں نواز شریف چودھری نثار کی نوازلیگ سے علیحدگی کبھی پسند نہیں کریں گے۔