پاکستان حملوں کے ذمہ دار گروپ کے خلاف کارروائی کرے، حسن روحانی

Hasan Rouhani

Hasan Rouhani

تہران (جیوڈیسک) ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس عسکریت پسند گروپ کے خلاف کارروائی کرے جو ایران کی سرحد کے قریب حملوں میں ملوث ہے، ورنہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایرانی نیوز ایجنسی IRNA کے حوالے سے بتایا ہے کہ روحانی کا یہ بیان پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر آج ہفتہ نو مارچ کو ہونے والی ایک گفتگو کے بعد سامنے آیا ہے۔ اِرنا کے مطابق اس دوران پاکستانی وزیراعظم نے صدر روحانی کو بتایا کہ وہ بہت جلد ایران کو ایک اچھی خبر دیں گے۔

رواں برس فروری کے وسط میں ایک خودکش حملہ آور نے ایران کے انقلابی گارڈز کے 27 اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ یہ حملہ ایران کے جنوب مشرقی حصے میں کیا گیا جہاں ملک کی سنی اقلیت سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس خودکش حملے کی ذمہ داری جیش العدل نامی سنی عسکریت پسند گروپ نے قبول کی تھی جس کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچی نسل سے تعلق رکھنے والی مقامی اقلیت کے لیے بہتر حقوق کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

ایرانی نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق حسن روحانی نے پاکستانی وزیر اعظم سے گفتگو کے دوران کہا، ’’ہم ان دہشت گردوں کے خلاف آپ کے فیصلہ کُن آپریشن کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ روحانی کا اس موقع پر عمران خان کو مزید کہنا تھا، ’’ہمیں اپنی کئی دہائیاں پرانی دوستی اور بھائی چارے کو ایک چھوٹے سے دہشت گرد گروپ کی کارروائیوں سے متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے، جن کو ملنے والی مالی مدد اور ہتھیاروں کے ذرائع کے ہم دونوں کو معلوم ہیں۔‘‘

ایران اپنی سرحد کے اندر ہونے والے ان حملوں کی ذمہ داری اپنے علاقائی حریف ملک سعودی عرب کے علاوہ اسرائیل اور امریکا پر عائد کرتا ہے تاہم یہ ممالک اس کی تردید کرتے ہیں۔

اِرنا کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نے اس موقع پر ایرانی صدر سے کہا، ’’یہ پاکستان کے اپنے حق میں ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو اپنی سر زمین استعمال نہ کرنے دے اور پاکستانی فوج ایران سے ملنے والی معلومات کی مدد سے ایسے گروپوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کے لیے تیار ہے۔‘‘

ایرانی نیوز ایجنسی کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی فورسز دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے قریب پہنچ چکی ہیں اور جلد ایران کے لیے ایک ’اچھی خبر‘ سامنے آئے گی۔