پاکستان جب بنا تو کہا گیا کہ نہیں چلے گا۔پہلے پہل کہا گیا بنے گا نہیں،گئو ماتا کے کے ٹکڑے کیسے ہوتے ہیں۔جمہوریت کسی کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے اور کسی کے لئے نقصان دہ اگر جدا گانہ انتحابات نہ ہوتے تو ہندو اکثریت بھن کے رکھ دیتی، اور بر صغیر ہندوپاک کے مسلمان ہندو اکثریت کے تابع ہو کر زندگی گزار دیتے۔پاکستان کا مطلب کیا لا الہ ال اللہ،بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان۔پاکستان اللہ کے کرم سے بن گیا۔سید مودودی نے کیا خوب کہا کہ قرار داد مقاصد کے بعد یہ ملک مسلمانوں کے لئے مسجد کا درجہ رکھتا ہے۔آج بھی قائد تحریک انصاف حرمین کی دھرتی پر ریاست مدینہ کی بات کر رہے تھے تو سچ پوچھئے مجھے دلی خوشی ہوئی میں اس سرد دوپہر کو یاد کر رہا تھا صدر پاکستان عارف علوی اس وقت ہمارا مائینڈ تھے۔وہ کراچی سے علی ااصبح پہنچتے سی ای سی کی میٹینگ میں شرکت کرتے ساتھ میں علی زیدی جو کبھی کبھار دبئی سے آتے،شمیم نقوی چند لوگ اسلام آباد کی سوپر مارکیٹ کے پاس دفتر میں بیٹھتے ۔سر جوڑ کر بیٹھتے ۔میں چپکے سے مارکیٹ گیا اور کینو لے آیا وقفے مں کرنل یونس سیف اللہ نیازی اظہر طارق نمک لگا کر کھاتے اس وقت کے صدر پاکستان کو کینو کی وہ سادہ سی پارٹی یاد یہ لوگ خواب بنتے تھے۔
آج جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم نے مدینہ منورہ کی سر زمین پر اعلان کیا کہ دنیا کے دو نظریاتی ممالک میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نظریے پر قائم ہوا۔خوبصورت شیروانی میں ملبوس جب ہو سعودی عرب کے بادشاہ سے ملے تو دل نے سوچا کہ کیا ہمارا ملک اس قابل تھا کہ جسے سعودی عرب میں اتنی پذیرائی ملتی ۔یہاں بات پاکستان کے وزیر اعظم کی اسلامی سوچ پر دل عش عش کر اٹھا۔مجھے سردیوں کا وہ دن بھی یاد آ گیا سال ٢٠٠٨ کی بات تھی ایک میٹینگ ہوئی سی ای سی کی اس میٹینگ میں جہاں تک مجھے یاد ہے خان صاحب کی لائن میں لگی کرسیوں پر اکبر ایس بابر عارف علوی سیف اللہ نیازی اور سامنے سینٹر طارق ز کرنل جاوید مجتبی شعمر چیمہ احسن رشید حفیظ اللہ نیازی سامنے ریئر ایڈ مرل جاوید اقبال،زبیر خان اسد قیصر شاہ فرمان تھے۔ایک خوبصورت سے نوجوان جس کے بالوں میں سفیدی اتر آئی تھی اس کا نام آصف خان تھا خان ایک لبرل این جی او چلاتے تھے ان کی شمولیت پر پریس کانفرنس ہوئی تھی انہیں اچھے انداز میں خوش آمدید کہا گیا تھا۔ان کے ساتھ رخسانہ نامی خاتون بھی تھیں جو این جی او کے آفس میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتی تھیں انتہائی نفیس بہن تھیاں۔جو کہانی میں سنانا چاہتا ہوں وہ صرف اس لئے کہ کچھ لوگوں نے ٹاک شو میں اس بات کا سر عام اظہار کیا کہ عمران خان مذہبی حلقوں کی حمائت حاصل کرنے کے لئے ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔آصف خان اٹھے اور سوال داغا کہ جناب چیئرمین تحریک پاکستان میں یہ نعرہ کبھی بھی نہیں لگا پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ ال اللہ تو اب یہ کہاں سے آ گیا۔اس دن میں عمران خان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کیا جواب دیتے ہیں۔
اس پر انہوں نے کوئی پینتس منٹ تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان بنا ہی اسلام کے نام پر ہے انہوں نے قائد اعظم کی تقاریر کے حوالے دئے اور صاف کہا کہ اگر پاکستان کی ضرورت نہیں تھی تو پھر اتنی بڑی لڑائی کیوں لڑی گئی؟کیوں لوگوں نے اپنے عزیزوں کی قبریں چھوڑیں؟کیوں لوگ قتل ہوئے؟اگر یہ معاشی تقسیم تھی تو مسلمانوں کو وہاں بھی سہولتیں میسر تھیں۔ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور پھر اچانک خاموشی طاری ہوئی کہ ہم دو قومی نظرئے پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں پاکستان ریاست مدینہ کی طرز پر سیاست ہو گی جہاں انصاف ہو گا یہ کوئی دس سال پہلے کی بات ہے اس وقت یہی ٹانگے کی سواریاں تھیں۔میں نے عمران خان کو اس دن اپنے خوابوں میں رچا لیا اور بسا لیا اور سوچ لیا کہ اللہ ایک دن اس شخص کو ضرور اقتتدار دے گا۔آصف خان ایک نفیس شخص تھے وہ اپنا خواب لے کر وہاں سے اٹھ گئے۔
عمران خان میں ہو سکتا ہے متعدد خرابیاں ہوں لیکن میں نے اپنے قائد کو ہم ہ وقت کام کرتے دیکھا۔جن دنوں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ عمران خان وزیر اعظم بنیں گے ان کا اپنا یقین کامل تھا ۔ایک بار سردیوں کی راتوں میں کچھ طلباء ان سے ملنے آئے برادر جمیل عباسی انہیں لے کر آئے تھے خان صاحب کو بتایا گیا کہ یہ لڑکے پارٹی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں انہیں ساتھ لے لیجئے لیکن اس کین لئے ایک شرط ہے کہ انہیں خرچہ پانی دینا ہو گا ۔عمران خان نے زور سے کہا what ۔کہنے لگے میں اس قوم کو کرپٹ زرداری نہیں دے سکتا یہ ماں باپ کا سہارہ ہیں انہیں تعلیم حاصل کرنی چاہئے اگر ان کے پاس وقت ہے تو انہیں تحریک انصاف کا کام کرنا چاہئے ۔یہ لڑکے مایوس گئے اگلے دن میں نے انہیں چائے پر بلایا اور گفتگو کی۔پھر اعجاز چودھری سے ملے۔مجھے کہنے دیجئے انصاف اسٹوڈنٹس فورم کی بنیاد کے آصف ان کے ساتھیوں نے رکھی میرے گھر ایئر پورٹ سوسائٹی کے مکان نمبر ١٨٤ گلی نمبر ٧ راولپنڈی سے آغاز ہوا جمیل عباسی انجینئر افتخار چودھری اعجاز چودھری نے بنیاد رکھی ہمیں لاہور سے مواد جناب اعجاز چودھری نے بھیجا۔اب الگ بات ہے کوئی اسے اپنے کھاتے میں ڈال لے۔ہم اسے جمیعت کی بنیاد پر چلانا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔پی ٹی آئی میں تربتی نشستوں کی بات کی سی ای سی میں بھی سوال اٹھائے کہ نظریاتی تبدیلی لائی جائے ۔لیکن شائد جناب چیئرمین اسے جماعت اور جمیعت کا انجام دیکھ کر نہیں کرنا چاہتے تھے۔اپنی تو آج بھی یہ سوچ ہے کہ کیا ہم شخصیت کے نام پر اکٹھے رہیں گے۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ہجوم ہی ملک کی قیادت کر رہا ہے ۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ انہی میں سے کوئی اٹھتا لگام سنبھلا لیتا ہے۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کو بنا پائیں گے۔ یہ چیلینج اس وقت بھی تھا اور اب بھی ہے مدینے کی ریاست عبدالل بن ابئیوں کی کمی نہ تھی ہمارے پاس اس مثال کی ریاست قائم کرنا ایک چیلینج ہو گا۔کیا عبداللہ بن ابی گھوڑوں کا رخ نہ موڑیں گے۔اگر ایسی بات ہے تو ہمیں بھی اپنے پیارے آقاۖ کی حکمت عملی اور ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہو گا۔سوچ لیجئے ایک جانب ہم ایک بڑا دعوی کر رہے ہیں دوسری طرف ہمیں اس ٹیم کی تیاری میں شتر بے مہار لوگوں سے پالا پڑنے والا ہے اس کے لئے ٹیم کی تربیت بہت ضروری ہے۔ایک سوچ ایک نظرئیے کے لوگ۔شیروانی اور پرانی شیروانی کے دو بٹن بھی نہ دینے والوں کے ساتھ اللہ کی لاٹھی برستے ہوئے کوئی آواز نہیں نکالا رہی۔اسے کہتے ہیں وقت کے فیصلے اور الہی کام۔جناب پرویز رشید جسے آپ دو بٹن نہیں دے رہے تھے وہ سج دھج کے ساتھ دو قومی نظریئے کی بات ببانگ دہل کر رہا تھے اور بقول اقبال انہیں کہہ رہے تھے
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا تو نام و نسب کا حجازی ہے دل کا حجازی بن نہ سکا
لوگ کہتے ہیں سعودی عرب وہ بھیک مانگنے گیا تھا۔اور سچ پوچھیں اگر اس نے بھیک مانگی بھی ہے تو اپنی اس قوم کے لئے مانگی ہے جس کے تن کا کپڑا بھی نوچ لیا گیا تھا۔مجھے وہ دن یاد ہے جب نواز شریف اسی طرح کی شیروانی پہنے جدہ کے قونصل جنرل کے محل نما گھر میں پہنچے تو ہم نے کہا جناب وزیر اعظم ہمارے ساتھ زیادتی ہوتی ہے ہمیں عزت دلوائیے انہوں نے کہا آپ یہ بات کرتے ہیں میں عزت سے آپ کو پاکستان میں نوکریاں دوں گا اس وقت روپیہ ریال کے مقابلے دس روپے کا تھا موصوف نے چھوڑا تو تیس روپے کا تھا۔اللہ کرے عمران خان سعودی عرب کے پاکستانیوں کی عزت بحال کروانے کے مشن میں کامیاب ہوں۔اس کے لئے اپنی ٹیم لگائیں سفیر اور قونصل جنرل کو واپس بلوائیں یہ نواز شریف کے چیلے ہیں انہوں نے آپ کی آمد پر کیا کام کیا ہے۔کم از کم پاکستانی انویسٹرز سے ملواتے جنہیں عمران خان شرم دلواتے کہ وہ اپنا پیسہ پاکستان میں لگائیں۔ وہ پاکستانیوں کی تذلیل کر رہے ہیں ۔انہوں نے لوگوں کو نہ صرف سعودی عرب یونان میں جیلوں میں بند کروایا ہے۔ان کے گھر دیکھیں وزیر اعظم ہائوس جیسے نہیں لیکن چار کنال سے کم نہیں جن کا کرایہ لاکھوں ریال میں ہے قونصل جنرل جدہ پر تو کرپشن کا الزام ہے اس نے ٣٥ ٹیچرز گھوسٹ رکھے ہیں ان کی تنخواہیں دو اڑھائی سال سے ہڑپ ہو رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم کی شیروانی پر کرپٹ بیوروکریسی ایک داغ ہے۔وزیر خارجہ جیسا نفیس شخص سوچے عندلیب عباس سوچیں۔پاکستانی اسکولوں میں کرپشن کی داستانیں عام ہیں۔آج جب عمران خان شاہی خاندان سے مخاطب تھے تو لگ رہا تھا کہ ایک نفیس شخص بول رہا ہے ۔پاکستان کے قومی لباس کی شان سلامت رہے۔اللہ ہے ناں جسے دو بٹن نہیں دئیے جا رہے تھے وہ آج سج دھج کے پوری شیروانی کے ساتھ سعودی عرب کے اس بادشاہ کا مہمان تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا اور اتنا کہا جاتا تھا کہ شائد وہ نون لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو مشکل معاشی حالات سے نکالنے کے لئے کئی ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے ۔وہ ادھار پر تیل بھی دے گا انویسٹمنٹ بھی کرے گا۔اور یہ بھی یاد رہے کہ اس میں اسد عمر جیسے محنتی اور زیرک انسان کا بڑا ہاتھ ہے جس کے بارے میں منفی باتیں گردش میں ہیں۔اس میں پاکستانی سفیر قونصل جنرل یا کسی اور بیرو کریٹ کا ہاتھ نہیں بلکہ وہ لوگ تو نواز شریف کے دست راست ارسطو نارووال کے اشارے پر حکومت کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے تھے۔جسے اللہ دے۔