کھیل ہار گیا سیاست جیت گئی

Pakistan vs. Australia

Pakistan vs. Australia

تحریر: ایم ایم علی
پاکستان آسٹریلیا سے ہارنے کے بعدمکمل طو ر پر ٹی 20ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہو گیا ،ٹی 20ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر تو پاکستان نیوزی لینڈ سے ہارنے کے بعد ہی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی اگر مگر کی ایک چھوٹی سی امید قائم تھی مگر آسٹریلیا سے ہارنے کے بعد تو اگر مگر کی کہانی بھی اختتام کو پہنچ گئی، پاکستان ورلڈ کپ میں اپنے گروپ کے چار میچوں میں سے صرف ایک میچ میں کامیابی حاصل کر سکا اور اپنی ہار کی ہیٹرک مکمل کرنے کے بعد اس میگا ایونٹ سے ہی باہر ہو گیا اس کے علاوہ بد قسمتی سے اس بار بھی پاکستان کا ورلڈ کپ میں بھارت کو ہرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ،یوں تو پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن ہمارے ملک میں کرکٹ ہاکی سے کہیں زیادہ مقبول ہے اور پھر کرکٹ میں میچ ہو بھارت سے تواس کی تو بات ہی اور ہوتی ہے، پاک بھارت میچ تو فائنل سے پہلے فائنل کی شکل اختیار کر جاتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی کرکٹ ٹیم آج تک کسی بھی ورلڈ کپ میں بھارت کو شکست نہیں دے سکی ہر بار پاکستانی شائقین کرکٹ قومی ٹیم سے امید لگاتے ہیں کہ اس بار پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف اپنی تاریخ بدلے گی لیکن ہر بار شائقین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اس بار بھی ایسا ہی ہو اور اس بار بھی پاکستان ورلڈ کپ میں بھارت کے ہاتھوں جار ی شکست کے سلسلے کو نہ روک سکا ۔

خیر ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس بار نیوزی لینڈ کے خلاف ہو نے والے میچ نے تو پاکستانی شائقین کرکٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ کس طرح جیتا ہو ا میچ نیوزی لینڈ کی جھولی میں ڈال دیا گیا اس میچ نے پاکستانی ٹیم کے اندر کھلاڑیوں میں پائی جانے والی گروپ بندی کو بھی صاف ظاہر کر دیا اور ٹیم کے اندر ہونے والی سیاست بھی کھل کر سب کے سامنے آ گئی ، کھلاڑیوں کے اند ر پائے جانے اختلافات کا یہ عالم ہے کہ کھلاڑی یکجا ہو کر ملک کیلئے کھیلنے کی بجائے ایک دوسر ے کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ،ٹیم کاایک گروپ شاہد آفرید ی کی حمایت کر رہا تھا اور ایک گروپ محمد حفیظ کی سپورٹ کر تا نظر آ رہا تھا ،کیویز کے خلاف حفیظ کا انجری کا بہانہ بنا کر نہ کھیلنا احمد شہزاد ، عمر اکمل اور شعیب ملک کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ کرنا اور جان بوجھ کر باونڈری لگانے کی کوشش بھی نہ کرنا ،شائقین کرکٹ اور پی سی بی کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھا ،مڈل آرڈر کی بیٹنگ دیکھ کر تو یقین کر پانا ہی مشکل تھا کہ یہ ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں یا, ٹی 20 میچ ؟ ٹیم کے ا ندر گروپ بندی واضح نظر آ رہی تھی لیکن اس سب کے باوجود اگر پی سی بی اب بھی اپنا وہی راویتی راگ الاپتی ہے کہ ٹیم کے اندر کوئی گروپ بندی نہیں ہے تو پھر اس پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے، اس ٹی 20 ورلڈ کپ میںماسوائے پہلے میچ کے باقی سب میچوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی ،پاکستان کو بین الاقومی سطح پر کرکٹ کھیلتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن اس کے برعکس وہ ملک جن کی کرکٹ ٹیموں کو وجود میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے وہ ٹیمیں پاکستان کی نسبت کرکٹ کے ہر شعبہ میں پاکستان سے کئی گنا بہتر کھیل پیش کرتی ہو ئی نظر آ رہی ہیں ،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں کرکٹ کو کھیل سمجھ کر کھیلا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں کھیل میں بھی سیاست کی جاتی ہے ۔

PCB

PCB

قارئین کرام!پاکستان کی کرکٹ میں سیاست کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جب سے پی سی بی بناہے تب سے ہی یہ ادارہ سیاست کا شکار ہے اس ادارے میں ہر دور کی حکومتیں اپنے چہتوںکو نوازتی رہی ہیں من پسند افراد کو اعلی عہدوں پر فائز کیا جاتا رہا ہے اور وہ لوگ جو کرکٹ کی الف ،ب سے بھی واقف نہیں ہو تے کرکٹ کے تمام امور ان کے ہاتھوں میں دے دئیے جاتے رہے ہیں، پھر وہی لوگ اپنے من پسند کھلاڑیوں کو آگے لے کے آتے ہیں اور یوں دن بدن یہ کھیل روبہ زاوال ہو تا چلا جا رہا ہے ،ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حکومت نے پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر ایکشن لے لیا ہے ،بادی النظر میں ایسے ایکشن پہلے بھی کئی بار لئے جا چکے ہیں لیکن ہمیشہ ان کا نتیجہ صفر ہی رہا ہے کیو نکہ جو لوگ پاکستان میں کرکٹ کی تباہی کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف نہ پہلے کھبی کو ئی کاروائی ہوئی ہے اور نہ ہی اب ہو گی ،فور ملیٹی کو پورا کرنے کیلئے کوچ اور سیلکشن کمیٹی کے ایک دو لوگوں کو عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا یا ہو سکتا ہے ایک دو کھلاڑیوں کو ٹیم سے ڈراپ کر دیا جائے لیکن کیا کرکٹ کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے اتنے اقدامات کافی ہیں اور کیا ان اقدامات سے کرکٹ میں بہتری آ جائے گی ؟

جب تک پی سی بی میں سیاسی لوگ موجود ہیں تب تک تو اس ادارے سے بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ کھلاڑی تو سیاست کر ہی رہے ہیں پی سی بی کے اعلی عہدار وں میں بھی اختیارات کی جنگ جاری ہے( یار لوگوں) کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی اور شہر یار خان میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں اوریہ دونوں شخصیات بھی ایک دوسرے سے رسہ کشی میں مصروف ہیں ،ویسے بھی جب سے ان دونوں حضرات نے پاکستانی کرکٹ کی باگ دوڑ سمبھالی ہے تب سے پاکستانی کر کٹ کا ستیاناس ہو گیا ہے ،جب سے یہ حضرات پی سی بی میں تشریف لائیں ہیں تب سے بس یہ ایک کام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاک بھارت سیریز ہو جائے بھارت ہے کہ وہ ہم سے کھیلنا نہیں چاہتا اور ہم ہیں کہ ہم بھارت سے کھیلنے کیلئے مرے جا رہے حالانکہ کہ کئی بارپاک بھارت کرکٹ سیریز کے شیڈول طے بھی ہوئے ہیں لیکن ہر بار بھارت کوئی نیا بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے لیکن مجال ہے کہ ہم ایک قدم بھی پیچھے ہٹیں،ان حضرات نے پاک بھارت سیریز کروانے کی ناکام کوشش میں جتنا وقت برباد کر دیا ہے اگر اس کا نصف وقت بھی قومی ٹیم کی کارکردگی پر دیا ہوتا تو آج پاکستانی ٹیم اتنے بُرے طریقے سے ورلڈ کپ باہر نہ ہوتی۔

قارئین کرام ! اگر کرکٹ کا یہی حال رہا اور شائقین کرکٹ کی مایوسی اسی طرح دن بدن بڑھتی رہی تو ایک دن کرکٹ کا حال بھی ہاکی جیسا ہو جائے گا ،وزیر اعظم پاکستان خود بھی کرکٹ سے والہانہ لگائو رکھتے ہیں اور کرکٹ ان کا پسندیدہ کھیل بھی ہے ان کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اس ساری صورت حال پر ایکشن لیں اور سیاسی مصلحتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے پی سی بی کے اندر بڑے پیمانے پر تبدیلیاںلائیں کیونکہ کرکٹ صرف پاکستان کے اندر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان میں کرکٹ کے اندر جاری سیاست سے عالمی سطح پر بھی ملک کی رسوئی اور بدنامی ہورہی ہے ۔(یار لوگوں ) کا کہنا ہے کہ کھیل میں ہار اور جیت کھیل کا حصہ ہوتے ہیں لیکن کھیل میں سیاست کرتے ہوئے منظم طریقے سے ہا ر جانا پوری دنیا کے سامنے شرمندگی کا باعث ہے،ٹی 20 ورلڈ کپ سے باہر ہونے میں کارکردگی سے زیادہ گروپ بندی اور ٹیم میں جاری سیاست کا عمل و دخل ہے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کھیل ہار ا ہے اور سیاست جیتی ہے۔

MM ALI

MM ALI

تحریر: ایم ایم علی