حضرتِ انسان کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہ تنِ تنہا فتح کا تاج اپنے سر پر سجانا چاہتا ہے۔اس سلسلے میں وہ بہت سی خو ش فہمیاں بھی پالتا رہتا ہے۔اسے زعم ہو جاتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچ رہا ہے بس وہی سچ ہے۔ اس کے تجزیے، اس کے تبصرے،اس کے مشاہدات اور اس کی رائے ہی حرفِ آخر ہے۔وہ بھول جاتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچ رہا ہے وہ وقت کے بے رحم ہاتھوں سے کسی وقت بھی چکنا چور ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی خوش فہ میاں ابھی اس مقام تک نہیں پہنچی ہوتیں جہاں انھیں مکمل حقائق کا آئینہ دار کہا جا سکے۔خوش فہمیوں میں تعصب کا رنگ غا لب ہوتا ہے اورجہاں تعصب کی عینک لگ جائے وہاں پر سچائی کا خون ہو جاتا ہے۔
اتحاد میں برکت بھی ہے، طاقت بھی ہے اور فتح کی بنیاد بھی ہے۔عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اس وقت انقلاب اور تبدیلی کے نعروں کے ساتھ حکومت کے خلاف نعرہ زن ہیں۔ان کا وا حد مقصد حکومت کو برخاست کرنا اور اس کرپشن کاخا تمہ ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔کرپشن اس حد تک معاشرے میں سرائت کر گئی ہے کہ ملک کا شاہراہِ ترقی پر آگے بڑھنا ناممکن ہو تا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس مقصد کا حصو ل کس طرح ممکن ہو گا کیونکہ اس ایک نکتے پر اپوزیشن ابھی تک متحد نہیں ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ بڑی بری طرح منقسم ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔اس کی وجہ سے لوگوں کے اذہان میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں اور انھیں حصولِ منزل کا شک ہوتا جا رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ عوام کی اکثر ت عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری پر ا عتماد کرتی ہے لیکن دوسری اپوزیشن جماعتوں کی اس احتجاج سے دوری انھیں اس فتح سے دور کر دے گی جس کا خواب انھو ں نے اپنی آنکھوں میں سجا کھا ہے ۔ملک کی کئی چھوٹی بڑی پارٹیاں جو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اقتدار کے جھولے جھول رہی ہیں وہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں جن میں پی پی پی اور جمعیت العلمائے اسلام قابلِ ذکر ہیں وہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ کچھ جماعتیں ، جن میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سرِ فہرست ہیں، ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائیں کہ انھیں کس طرف کھڑا ہوہے۔
کیا ا یسی صورتِ حال میں حکومت کو گرا کر نیا ڈھانچہ قائم کرنا ممکن ہے جو عوامی خواہشات کا آئینہ دار ہو؟بادی ا لنظر میں تو یہ انتہائی مشکل کام نظر آتا ہے کیونکہ تبدیلی کی دعویدار دونوں بڑی پارٹیوں میں بھی ہم آہنگی نہیں ہے اور ان کی سٹریٹ پاور کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ ان جماعتوں کا حکومت کو گرانے کا ان کا یہ پہلا تجربہ ہے۔عمران خان نے ١٤ اگست کے آزادی مارچ کی تاریخ طے کرتے وقت ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری سے مشورہ نہیں کیا تھا جس کا ڈ اکٹر علامہ طاہر القادری کو کافی غصہ تھا لیکن حالات کے جبر اور دوستوں کے مجبور کرنے کے بعد انھوں نے عمران خان کے آزادی مارچ کا ساتھ دینے کا اعلان کیاجبکہ دونوں کے مقاصد اور اہداف میں بھی کافی فرق ہے۔
ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے انقلاب ما رچ کا علان کیا تو انھیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ حکومت ان کے ساتھ اس طرح کے جابرانہ طرزِ عمل اختیار کریگی۔پہلے تو ١٧ جون کو ان کے ١٤ افراد کو شہید اور سو افراد کو زخمی کر دیا اور پھر ایف آئی آر درج کروانے کے حق سے بھی انھیں محروم کیا گیا۔کیا کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ قتل کی ایف آئی آر لکھوانے سے قبل ایک انکوائری کمیشن بٹھا دیا جا ئے اور اس کے بعد ایف آئی آر جمع کروائی جائے ۔اب یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومتِ وقت کے خلاف وہ کمیشن کوئی فیصلہ سنائے ؟پنجاب حکومت کے کمیشن میں ان کے ملازمین اور پولیس کے ارکان بھی۔یہ وہی پولیس ہے جو ان ١٤ افراد کی قا تل ہے جس کے خلاف انھوں نے قصاص کا مطالبہ کیا ہوا ہے۔
Tahir ul Qadri
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پنجاب کے وزیرِاعلی کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کروانے کا حکم دیںگئے؟اس ساری کاروائی کا وا حد مقصد ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کا ڈرانا ڈ ھمکانا ہے تا کہ وہ انقلاب کا خیال دل سے نکال دیں اور واپس کینیڈا چلے جائیں، لیکن جب اتنے وحشیانہ تشدد کے باوجود بھی ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا تو پھر ان کیلئے ہر نیا دن نئے ظلم و جور کی داستان لے کر طلوع ہو تا رہا ۔ لوگ جانیں لٹا تے رہے اور حکمران انھیں دھشت گرد اور فتنہ پرور کہہ کر کچلتے رہے۔بد ترین ریاستی تشدد کا مظا ہرہ اس وقت سامنے آیا جب ١٠ اگست کو پاکستان عوامی تحریک نے یومِ شہدا منانے کا فیصلہ کیا تو اس موقعہ پر حکو مت نے ساے ملک کو کینٹینراور رکاوٹوں سے بند کر کے کسی کو اس عوامی اجتماع میں شامل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں کا ماڈل تائون پہنچنے کی ہدائت کی ہوئی تھی تا کہ وہ اس یومِ شہداء کے بعد ١٤ اگست کو ماڈل ٹائون ہی سے انقلاب مارچ کا آغاز کر سکے لیکن حکومت نے سارا پاکستان بند کر دیا کوئی ایسا راستہ کھلا نہ چھوڑا جس سے کوئی فرد ماڈل ٹا ئون پہنچ سکتا لیکن پھر بھی ہزاروں لوگ پولیس کے ڈنڈوں اور آنسو گیس کے شلوں کو سہتے سہتے ماڈل تائون پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔حیران کن بات یہ تھی کہ اس میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی جو اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پاکستان کی خواتین بیدار ہو چکی ہیں اور وہ بھی انقلاب چاہتی ہیںاور و ہی در د حقیقت اس انقلاب کا ہراول دستہ ہیں۔ دس اگست کی صبح ہی سے سارے ملک میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس نے کئی قیمتی جانوں کو بھی نگل لیا۔بھیرہ ،سیالکوٹ،گوجرانوالہ اور بہت سے دوسرے شہر خونین جنگ کا منظر پیش کر رہے تھے
جس کی وجہ سے عوامی تحریک کے آٹھ کارکن اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ ابھی تک کوئی ذی شعور شخص یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حکومت نے سارے راستوں کوکیوں بند کیا تھا؟احتجاج کرنا،جلسے جلوس نکالنا اور تقاریر کرنا ہر سیاسی جماع کا حق ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا لیکن باعثِ حیرت ہے کہ ایک سیاسی حکومت ہی اپنے شہریوں کو اس حق سے محروم کرنے پر تلی ہو ئی ہے ا ور پھر بھی اس بات پر بضد ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے۔
یہ کیسی جمہو ریت ہے جس میں مخا لفین کے حصے میں لاٹھیاں گولیاں، آنسو گیس او جیل کی اونچی اونچی دیواریں ہیں اور انھیں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے اور جوکوئی ایساکرنے کی جسارت کرتاہے اس کی آواز ہمیشہ کیلئے بند کر دی جاتی ہے۔ اس طرح کے مظاہرے پاکستانی سیاست کا طرہِ امتیا ز ہیں او رحکومتیں عوامی فلاح کی بجائے عوام کو غلام بنانے کی روش اختیار کر لیتی ہیں۔
پوری دنیا کو علم ہے کہ پاکستان عوامی تحریک ایک پر امن جماعت ہے اور اس نے کبھی بھی اسلحے کاسہارا نہیں لیا۔ایک تو حکومت نے انھیں زدو کوب کیا اور پھر الٹا دھشت گردی کا الزام بھی انہی پر ڈال کر دیا۔مجھے اس موقع پر جنرل ضیاالحق کا وہ دور یاد آرہا ہے جس میں وہ پی پی پی کے کارکنوں کو الذو لفقار کے نام پر کوڑوں کی سزائیں دیاکرتا تھا۔میان برادران نے بھی اپنے روحانی مرشد کی ادا کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور نہتے، بے گناہ اور معصوم لوگوں کو دھشت گرد کہہ کر ان کا چراغِ زندگی گل کیا جا رہا ہے۔
ظلم کی انتہا تو یہ تھی کہ پانچ دنوں تک منہاج ا لقرآن میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو مقید کر کے انھیں کھانے پینے کی اشیاء سے محروم کر دیا گیا۔ایم کیو ایم کے سربراہ نے اس موقع پر کھانے کا اعلان کیا لیکن اس کھانے کو بھی محصورینِ منہا ج القرآن تک پہنچنے نہ دیا گیا۔یہ ایسی سفاکانہ روش تھی جس کی پاکستان کی تا ریخ میں کوئی مثال نہیںملتی۔علمی اور مذہبی حلقوں نے اس صورتِ حال کو کربلا سے تشبیہ دے رکھی ہے۔کہتے ہیں جس طرح یزید بن معاویہ نے اہلِ بیعت کو ا یک علاقے میں محصور کر دیا تھا اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو ایک جگہ محصور کر کے ان پر خوراک اور پانی بند کر دیا تھا اور اسے کینٹنرز کے ساتھ بند کر کے اس علاقے کو پوری دنیا سے کاٹ دیا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ جو بھی حکومت غیر انسانی رویوں کا اظہار کرتی ہے اسے انتہائی تنقید کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔یزین بن معاویہ اسی لئے تاریخ میں ایک بدترین شخص کے روپ میں نفرت کی علامت بنا ہوا ہے کیونکہ اس نے ذاتی اقتدار کی خاطر اہل بیعت پر ریاستی تشدد کی انتہا کر دی تھی اور یہ تشدد تاریخِ عالم میں بربریت کی علامت ہے۔اقتدار ایک دن رخصت ہو جاتا ہے لیکن انسانی ذات پر سفاکیت کے لگے ہوئے دھبے کبھی نہیں مٹتے۔