بھارت میں 2014ء کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے۔طویل اور صبر آزماانتظار کے بعد جو نتائج دنیا کے سامنے آئے ہیںاس کی توقع شاید بی جے پی کو بھی نہیں تھی۔ تیس سال تک آر ایس ایس کا ایجنڈا پروان چڑھانے اور ہزاروں مسلم کش فسادات کے بعد بی جے پی’ مسلمان و پاکستان دشمنی کی بنیاد پر تن تنہا تین سو سے زائد سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔ یوں احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قاتل، مسلم خواتین کی عصمت دری اور بچوں و عورتوں کو زندہ جلا دینے والا قصائی نریندر مودی نام نہاد سیکولر ملک کا وزیر اعظم بن گیا ہے۔لوک سبھا کے حالیہ انتخابات خاص طور پر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑے گئے ہیں۔ بھارتی میڈیاکی طرف سے پچھلے کئی برسوں سے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کر کے جو ماحول بنایا گیا ہے۔
اس سے بی جے پی نے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا ہے۔ انتخابات کے آغاز کے ساتھ ہی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔نریندر مودی کی جانب سے کبھی اقتدار میں آنے کے بعد تمام بنگلہ دیشی مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کے اعلانات کئے جاتے رہے توکبھی گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی باتیں کی جاتی رہیں۔ مودی کی طرح گری راج اور دیگر ہندو انتہا پسند لیڈر بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور مخالفین کو پاکستان چلے جانے کے مشورے اور بھارت میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا زہر اگلتے رہے۔
یوں بی جے پی پورے بھار ت میںمسلمانوں کے خلاف ہندو ئوں کے جذبات بھڑکا کر ان کے ووٹ حاصل کرنے میںکامیاب رہی جبکہ بھارتی مسلمانوں کا ووٹ سیکولر جماعتوں، عام آدمی پارٹی اور مسلم تنظیموں کے مابین تقسیم رہا۔ اس لئے حالیہ الیکشن میں تاریخ کی کمترین نشستیں مسلمان حاصل کر سکے ہیں۔انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کو اب تک 337نشستیں ملی ہیں۔ کانگرس اور اس کے اتحادیوں یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کو 58اور دیگر جماعتوں کو 144نشستیں ملی ہیں۔ 543نشستوں کے ایوان میں حکومت سازی کے لئے 272نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق بی جے پی تنہا ہی تین سو نشستیں لے گئی ہے۔
بی جے پی اور اتحادیوں کو پہلے سے 198نشستیں زیادہ ملی ہیں جبکہ کانگرس اور اس کے اتحادیوں کی پہلے کی نسبت 176نشستیں کم ہوئی ہیں۔ اسی طرح دیگر جماعتوں کی 22نشستیں کم ہوئی ہیں۔ عام آدمی پارٹی انتخابات میں بْری طرح ناکام رہی اورصرف 4 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔بی جے پی کو 30سال میں یہ پہلی تاریخی کامیابی ملی ہے۔ کانگرس نے دھاندلی کا الزام لگائے بغیر الیکشن میں شکست تسلیم کر لی ہے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ انتخابات میں شکست کے ذمہ دار راہول گاندھی نہیں بلکہ پوری جماعت ہے۔ کانگرس کی سربراہ سونیا گاندھی رائے بریلی سے کامیاب اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کو وارانسی میں نریندر مودی سے شکست ہوئی ہے۔
سابق بھارتی آرمی چیف وی کے سنگھ اور اہل کے ایڈوانی بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو گئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے راجھتسان میں تمام نشستیں جیت لی ہیں۔ نریندر مودی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ انتخابات میں بھارت جیت گیا اب اچھے دن آ رہے ہیں۔ بی جے پی کی کامیابی پر ملک بھر میں اس کے کارکن اور حامی جشن منا رہے ہیں۔ مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں، آتش بازی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں گزشتہ 30 سال بعد ایسا ہوا ہے کہ کسی جماعت اور اسکے اتحاد نے لوک سبھا میں قطعی اکثریت حاصل کی ہے۔گجرات، جھاڑکھنڈ، دہلی، راجستھان، اتراکھنڈ میں بی جے پی نے قریباً کلین سویپ کیا ہے۔
Election Commission of India
اس کے علاوہ یوپی میں اسے 59سیٹیں حاصل ہوتی نظر آرہی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی نے مغربی بنگال اور شمال مشرقی ریاستوں میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے’ اس سے قبل ان ریاستوں میں بے جی پی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ بھارتی الیکشن کمشن کے مطابق اس مرتبہ سب سے زیادہ یعنی 66.4 فیصد ووٹ کاسٹ کئے گئے، اس طرح 1984 میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے انتخابات میں ڈالے گئے 64 فیصد ووٹوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ الیکشن کمشن کے مطابق اس مرتبہ 55.1 کروڑ ووٹروں نے ووٹ ڈالا جو 2009 میں ووٹ کا حق استعمال کرنے والے 41.7 کروڑ ووٹروں کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہے۔اس انتخابات میں ووٹروں کی تعداد 81 کروڑ سے زیادہ تھی، جو یورپی یونین کے تمام ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔عام آدمی پارٹی نے ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کئے مگر کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ بھارتی حکومت نے انتخابات پر کل 3426 کروڑ روپے خرچ کئے جو 2009ء کے مقابلے میں 131 فیصد زیادہ ہیں۔
اس انتخابات میں ایک انوکھی اور خاص بات یہ تھی کہ ووٹروں کو پہلی مرتبہ تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا اختیار بھی دیا گیا تھا، یعنی ایسے لوگوں کو بھی اپنی آواز بلند کرنے کا موقع ملا، جن کا خیال تھا کہ ان امیدواروں میں سے کوئی بھی ان کی معیار پر پورا نہیں اترتا۔مقبوضہ کشمیر میں اپوزیشن جماعتوں بی جے پی اور پی ڈی پی نے حکمران اتحاد نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو بھارتی پارلیمنٹ کی تمام 6نشستوں پر شکست سے دوچارکیا ہے۔ 16برس قبل وجود میں آنے والی پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی نے سرینگر، اننت ناگ اور بارہ مولا کی تین جیکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پونچھ، اودھمپور اور لداخ کی تین نشستوں پر واضح اکثریت کے ساتھ بھارتی پارلیمنٹ میں جگہ حاصل کر لی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام نے الیکشن کا تاریخی بائیکاٹ کیا اور کئی علاقوں میں ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا گیا ۔ ایسا کر کے کشمیریوںنے دنیا کو پیغام دیا کہ بھارت میں کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کشمیریوں پر مظالم اسی طرح جاری رہتے ہیں اسلئے وہ اس پورے عمل سے مکمل طو رپر لاتعلق رہے۔ بی جے پی کی جیت پر بھارتی مسلمانوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ابھی نریندر مودی وزیر اعظم نہیں بنا کہ اب تک آسام، حیدر آباد اور میرٹھ میں بدترین مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں اور جب وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ جائیں گے توپھر آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟۔بھارتی مسلمانوںکی تشویش بجا ہے۔
BJP
بھارت میں اب تک دہشت گردی کی جتنی وارداتیں اور مسلم کش فسادات ہوئے ہیں ان میں آر ایس ایس، بی جے پی، شیو سینا، وشوا ہندو پریشد اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملوث نظر آتی ہیں۔گجرات میں مسلم کشی کے مجرم نریندر مودی کی جیت درحقیقت آر ایس ایس کی جیت ہے اور اس کے نظریات سے سبھی واقف ہیں۔ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی لیکن یہ بات انہیں یاد رکھنی چاہیے کہ جس دن نریندر مودی اور اس کی جماعت بی جے پی نے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگانے اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر جیسے فیصلوں پر عمل درآمدکی کوششیںکیں کروڑوں بھارتی مسلمان اٹھ کھڑے ہوں گے اور پھر بھارت میں مزید پاکستان بننے کے عمل کو کوئی نہیں روک سکے گا۔