تحریر : انجینئر افتخار چودھری آج میرے بیٹے نوید افتخار نے مجھے ایک تصویر دکھائی ہے۔یہ ہمارے گھر کے لان کی تصویر ہے جسے بڑی محنت سے ہم نے سنوارا ہے۔بہار آئی ہے خشک پودے ہرے ہو گئے ہیں رنگ برنگے پھول کھل چکے ہیں۔نوید نے تو ان پھولوں کی تختیاں بھی بنوا کر لگا رکھی ہیں پودوں کے عجیب و غریب نام ہیں۔سوچتا ہوں پاکستان کتنا خوبصورت ہے دنیا کی اور دھرتیاں بھی سوہنی ہوں گی مگر اس جنت نظیر سے کم کم۔سعودی عرب میں میرے دو بیٹے ہیں شکیل کی تو بیگم بھی ادھر ہے۔ میرا دلدار بھی مجھ سے دور ہے ایک گھرانہ ہے میرے لاجواب دوست بہترین ساتھی جن کے ساتھ عمر گزری سارے ادھر ہیں۔یہاں دل لگانے کی کوشش بڑی کرتا ہوں آدھا ادھر اور آدھا ادھر۔میں چند سالوں کے لئے ١٩٧٧ میں سعودی عرب گیا سوچا تھا دو ایک سال لگا لوں گا حالات بہتر ہوں گے لوٹ آئوں گا پتہ نہیں کیسے دو تین دہائیاں گزر گئیں۔میں نے ان بے شمار سالوں میں تتلیوں کو دن میں ستاتے نہیں دیکھا یہ میری بالکونی سے اندر آ جاتی ہیں۔گھوم پھر کر پھر اس باغیچے میں چلی جاتی ہیں۔سوچتا ہوں کیا مقدر ہے ان کا نہ خروج دخول کا جھگڑا نہ کفیل کی خرمستیان تتلی موجاں مار گئی۔اس کی ہریالیوں میں مجھے اپنے بچے نظر نہیں آتے جو تلاش معاش میں گھر سے نکل گئے ہیں میرے پچیس سال اور اب ان کے سال۔حالات کب بدلیں گے یقین کیجئے ہر پاکستانی یہ سوال کرتا ہے۔
میں جب سعودی عرب گیا تھا ریال بڑا ہلکا تھا ہمارا لیڈر اس وقت بڑا بھاری تھا دو روپے پچھتر پیسے سے اب ریال ستائیس روپے کا ہو گیا ہے اب وہاں سے ہمیں اشارے کئے جاتے ہیں ہم کھڑے ہو جاتے ہیں یہ سب ان حکمرانوں کی کارستانیاں ہیں جو پاکستان کے بچوں کو تتلیوں سے نہیں کھیلنے دیتے۔ سچ پوچھئے میں نہیں چاہتا کہ اس کالم کو سیاسی بنائوں مگر کریں کیا ۔ہمیں پانامے مار گئے۔
آج مدینہ منورہ سے جہانزیب منہاس بتا رہے تھے کہ آندھیوں اور طوفانوں کا موسم ہے۔میں جب مشرفی مہربانیوں کے بعد ٢٠٠٩ میں سعودی عرب گیا تو مجھے حفرالباطن بھیج دیا گیا غبار گرد اتنی ہوا کرتی تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں پہچان پاتا تھا۔اس وقت ادھر بھی یہی کیفیت تھی جو آج ہے۔میرے اللہ پاکستان پر اصل بہار کب اترے گی۔پاکستان کے بچے کب اپنی مائوں کے پاس ہوں گے۔میری بیگم نے آج ایک گوجری گیت اپنے بیٹے کو بھیجا ہے جسے سن کر پتھر بھی رو دئے ہوں گے بہو کہہ رہی تھی شکیل گوجری سمجھ جائے گا میں نے کہا ماں کا پیار اگر سنسکرت میں بھی ہو تو بیٹا کیوں نہیں سمجھے گا؟یہ سارے دکھ جدائیاں ہمارے حکمرانوں کی عطا کردہ ہیں ۔ جہاں سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے وہاں کا مزدور دس گھنٹے محنت کر کے پچاس یا سو ریال کماتا ہے۔
ایک ایک کمرے میں چھ چھ لوگ کہیں اس سے بھی زیادہ۔اس کی کمائی میں اس کے کفیل کا بھی حصہ ہے اسے سعودی حکومت کا بھی پیٹ پالنا ہے مکتب عمل کی فیس پتہ نہیں کون کون سے ٹیکس اور پھر اسے گھر بھیجنا ہوتا ہے یہ سارا کچھ چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔یہی مزدور سپین کے مالٹے کے باغوں میں محنت شاقہ کرتا ہے وہ کینیڈا میں برفیلی طوفانوں میں گاڑی کھینچتا ہے برفیں ہٹاتا ہے اسے ملتا کیا ہے چند ہزار یا ایک دو لاکھ۔سچ پوچھیں جب اسے این علی حامد سعید کاظمی شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم اربوں روپے کی کرپشن کرتے دکھائی دیتے ہیں تو اس کا ایمان ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔یہ زیادتی ہے ہر اس ایمان دار اور محنتی انسان کے ساتھ جو رزق حلال کے لئے جان لڑا دیتا ہے۔
ان موسموں میں جہاں تتلیاں لوگوں کو دن میں ستاتی ہیں اس پر ان ایمانداروں کا بھی حق ہے کہ وہ فرصت کی چند گھڑیاں سکون سے گزار لیں۔وقت سے پہلے بوڑھے ہو جانے والے دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک مگر کسی بھی چالیس سال سے بڑے پاکستانی کو روک کر دیکھ لیجئے چاہے وہ ابہا نجران الباحہ بلجرشی جیزان نجران وادی بنی مالک ینبع املج طائف کا پاکستانی ہو یا جدہ مدینہ مکہ دمام ریاض حفرالباطن کا سب ہی ہیلتھ کارڈ لئے ہسپتالوں سے بوری بھر کر دوائیاں لے رہے ہوں گے انشورنس کمپنیاں دھڑا دھڑا بزنس کما رہی ہیں۔اور لوگ اس سے زیادہ تیزی سے شوگر بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔یہ بچے یہ پردیسی انہیں ہم نے ڈاکٹر عاصم دئے کہتے ہیں جناب حامد کاظمی با عزت بری ہوئے ہیں۔مجھے ایک ایک سیلز مین کا لطیفہ کا لطیفہ یاد آ گیا جس نے کہا جناب مینجر یہ ہے میرا استعفی میں نے بے عزتی نہیں کرانی میں جب آرڈر لینے گیا تو فیکٹری کے مالک نے میری بے عزتی کر ڈالی مینیجر نے چائے منگوائی اور کہا دیکھو چائے پیو اور کہا مجھے دلی دکھ ہوا کہ تمہاری بے عزتی ہو گئی ہے مجھے تیس سال ہو گئے ہیں لوگوں نے مجھے دھکے دے کر دفتر سے نکالا گالیاں دیں لیکن اللہ کے فضل سے آج تک میری بے عزتی نہیں ہوئی۔
جناب کاظمی صاحب آپ تو رہا ہو گئے مگر مکافات عمل دیکھئے کہ وہ کامران بٹ جو ایک سیاہ رو قونصل جنرل اور پریس اتاشی سے مل کر حاجیوں کو لوٹنے کے عمل میں شریک تھا آج چوتھا روز ہے مکہ کی جیل میں ہے وہ جو آج بھی حج معاملات میں آگے آگے ہوتا ہے اور جس کی میزبانی کا شرف جناب میاں صاحب بھی اٹھاتے ہیں۔اس کی بھی عزت ہو رہی ہے۔عزت و تکریم کے پیمانے کیوں بدل گئے ہیں۔پاناموں اور پیمانوں میں کوئی تو فرق ہونا چاہئے۔میرے ان معصوم بچوں کے ہاتھوں سے رزق چھیننے والو اللہ کو کیا جواب دو گے جن سے ملک چلتا ہے انہیں ہ ووٹ کا تو حق نہ دے سکے مگر ان کی زندگی کی راہیں مشکل کر دیں۔ جو تیس سال باہر رہنے والوں کو ان تتلیوں سے دور کئے ہوئے تھے اور اب اس کے بچوں کو بھی۔ نور جہاں نے بہار پر اپنے محبوب کے دکھ میں گایا تھا شائد اس ملک میں ابھی وہ بہار نہیں اتری جو پردیسی بچوں کو ان تتلیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کرے۔ظالمو بس کرو نورجہاں گاتے گاتے مر گئی ہے اور کئی مر رہی ہیں۔مگر ان پاپیوں کے پیٹ نہیں بھرتے۔