تعارف ڈاکٹر زاہد منیر ١٨ جولائی ١٩٦٦ء میں سرگودہا میں پیدا ہوئے۔ ابتدا سے ہی اخبارات سے دلچسپی پیداہوگئی۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اخبارات کے اداریے باقاعدگی سے پڑھناشروع کردیے۔ مطالعہ کی خواہش اور علم کی پیاس بڑھتی گئی۔ اخبارات کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ کچھ کرنے کی تمنا لیے آگے بڑھے۔ تحریک آزادی کے خاص پہلوئوں پر تحقیق کرنے کی ٹھانی۔ سکول کے دنوں میں جب بچے تفریح میں مصروف ہوتے ہیں یہ طالب علم وقفہ تفریح میں کتابوں کی دکانوں پر کتابوں کی تلاش میں مگن ہوتا۔ اس لگن اور محنت کانتیجہ یہ نکلا کہ میٹرک کے زمانے میں ہی تحریک آزادی جیسے موضوع پر کتاب لکھ ڈالی۔ ٣٢ سے زائد کتابوں کے مصنف کی مختلف کتب دنیا کی تین زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ مفکر پاکستان علامہ محمداقبال پر آپ کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ اقبال کو نوجوان نسل کو پڑھانا اور اقبال کی فکر سے آگاہ کرنا ان کا شوق ہے۔ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچرز کے لیے بلایاجاتاہے۔ تقریباً چار سال مصر کی جامعہ الازہر میں تدریسی فرائض سرانجام دیے ۔ ان دنوں ایشیا کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ پنجاب میں اُردو پڑھا رہے ہیں۔ تفصیلی گفتگو ملاحظہ کیجیے ۔
س:اپنا تعارف کیسے کرواتے ہیں ؟ ج:ایک طالب علم کی حیثیت سے ۔ یہی میں رہنا چاہتاہوں ۔ یہی میں ہوں ۔ پاکستانی ہونے پر فخر کرتاہوں ۔ افریقہ تک سفر کیاہے۔ لیکن اپنے ملک اور اپنے معاشرے جیسا معاشرہ کہیں نہیں ہے۔ س:کتنے بہن بھائی ہیں ؟ ج: ہم چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں ۔ س:والدین کا زندگی میں کتنا کردار ہے ؟ ج:میں جب پانچ سال کاتھا یعنی سکول جانا شروع نہیں کیا تھا۔ جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیاتھا۔ اس کے بعد میرے بڑے بھائی اور والدہ محترمہ نے تربیت کی۔ میری تربیت میں انہی کا بنیادی کردار ہے۔ س:آپ کو اقبال پر کام کرنے کا شوق کہاں سے پیدا ہوا؟ ج:میں نے اقبال کو پڑھ کر دین اسلام کو سمجھا ہے۔ اقبال ایسا مفکر ہے جس نے حیات کائنات کے مسائل پر غور کیاہے۔ پوری انسانی تاریخ کی روشنی میں بنی نوع انسان کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کیاہے۔ وہ لائحہ عمل وہی ہے جو قرآن تجویز کرتاہے۔ اقبال نے کہا ”میں نے جو کچھ کہاہے وہ سب قرآن سے ماخوذ ہے۔ ” اقبال نے ایک خاص انداز میں کہا”اگر میرا دل دھندلا آئینہ ہوا ور میری باتوں میں قرآن کے سوا کوئی اور بات پوشیدہ ہو تو قیامت کے دن مجھے ذلیل و رسوا کردیاجائے۔ رسول پاک ۖ کے بوسہ مبارک سے محروم کردیاجائے ۔ میں نے سوچا جب اتنا بڑا مفکر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ہی انسان کی فلاح کاراستہ ہے تو پھر اسی طریقے کو سمجھنا چاہیے۔ :س:اُردو ادب کی صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ ج:اُرد و ادب دنیا کے کسی ادب سے پیچھے نہیں ہے ۔ مجھے دنیا کے مختلف ملکوں میں پڑھانے کاموقع ملاہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اس وقت اُردو ادب کی دو اصناف ایسی ہیں جو دنیا میں ہر جگہ بڑے فخر سے پیش کی جاسکتی ہیں۔ ایک جدید نظم اور دوسرا اُردو افسانہ ۔ س: آپ کا پسندیدہ نثر نگار کون ہے ؟ ج:مجھے غالب پسند ہے۔ آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ایسی نثر کوئی نہیں لکھ سکا۔ ان کے مضامین میں زندگی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ س آپ کی کتنی تصانیف شائع ہو چکی ہیں؟ ج تعداد تو ٹھیک سے یاد نہیں۔میری تمام کتب انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔میری کتب نوجوانوں سے متعلق اور اقبال کے کام کے حوالے سے ہیں،میریتینشعری مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ان تصانیف کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔۔ لمحوں کا قرض،جہات،مکاتیب ظفر علی خان،علامہ اقبال کی تاریخ ولادت،ایک مطالعہ،اقبال شناسی اور نوید صبح،اپنی دنیاآپ پیدا کر،لمحے کی روشنی،پہلی سحر کا رنگ،ارمغان شیرانی،آئینہ کردار،تاریخ جامعہ پنجاب،نظم مجھ سے کلام کرتی ہے، ستارہ سحر،کلیات و نثر ظفر علی خان، س:ادب سے دوری کے اسباب کیا ہیں؟ ج:ترجیحات اس کا سبب ہے۔ ادب زندگی کے مسائل پر اطمینان سے غور کرنے اور رائے قائم کرنے کا نام ہے۔ آج کا زمانہ بہت تیز ہے جبکہ ادب کی دنیا صبر اور تحمل چاہتی ہے۔ معاشرہ جلد نتائج چاہتاہے جبکہ ادب اس کے برعکس ہے۔ اس لیے معاشرے میں رہنے والے لوگ ادب سے دور ہو رہے ہیں۔ بچوںکے ادب میں بہت زیادہ بہتری کی ضرورت ہے۔ کہانی کوشش کرنے کاانداز اور متن سے مطمئن نہیں ہوں ۔ اپنے پیغام کو بہتر انداز میں پیش کرناچاہیے۔ آج کے بچے ہر طرف سے یلغار کا شکار ہیں۔ یہ الیکٹرانک میڈیا کا دورہے۔ اس دور میں ایسی کہانی تخلیق ہونی چاہیے جو اس دور کے تقاضوں کو پورا کرے۔ بچے کو پڑھ کر لگے کہ یہ اس کے دل کی ترجمانی ہے۔ وعظ و نصیحت سے باہر نکل کر غیر محسوس انداز میں اپناپیغام بچوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کامقصد متعین کرکے تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جاسکتاہے۔ موجودہ دور کی تعلیم کامقصد حصول روز گار رہ گیاہے۔ جو کوئی اعلیٰ و برتر مقصد نہیں ہے۔ میں بیرون ممالک بھی اپنے طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ آ پ کی زندگی کی خواہش کیاہے؟ ہمارے ہاں بھی اسی قسم کی خواہشیں ہیں ملازمت اچھی مل جائے، گھر بڑاہوناچاہیے، وغیرہ وغیرہ ۔ س: ترقی کے پیچھے کیا رازہے؟ ج:اللہ کے فضل وکرم کے بعد مسلسل محنت ، اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیںکرتا۔ کہیں نہ کہیں محنت کاپھل ضرور ملتاہے۔ س: تعلیم کہاں سے اور کہاں تک حاصل کی ؟ ج:میں نے سرگودہا ہائی سکول نمبر 1 سے میٹرک کیا پھر الیکٹریکل انجینئرنگ کی گریجوایشن گورنمنٹ کالج سرگودہا سے مکمل کی۔ ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری میں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔ س:کتنی تصانیف شائع ہوچکی ہیں ؟ ج: میرے تین شاعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ عربی ، فارسی اور اُردو زبان میں شائع ہوچکی ہیں۔ حکومت مصر نے میری کچھ کتب شائع کی ہیں۔ شاعری کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکاہے۔