تحریر: شاہد جنجوعہ لندن کشمیری مجاھدین کو دھشتگرد قرار دیکر انکے خلاف گرانڈ آپریشن شروع کئے جانے کی بازگشت۔ ذرائع کے مطابق مجاھدین کے روپ میں کچھ کشمیری ڈبل ایجنٹ عین داعش کی طرز پر ایک اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرینگے پھر پاکستان میں حکومت وقت کو غیرشرعی قراردیکر جہاد کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کئے جانے کی بھارتی و استعماری حکمت عملی طے۔ اگلے دوسال پاکستان کیلئے سخت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل بھارت میں منعقد کی جانی والی صوفی کانفرنس یا اس طرح کی دیگر کاوشوں کا بنیادی مقصد بھارت میں اسلام پروموٹ کرنا یا مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کے وجود کو بھارت میں برداشت نہ کرنے والا مودی ایسا کیوں کریگا؟ ذرائع کے مطابق مودی سرکار کشمیری مجاھدین کو نتھ ڈالنے کیلئے ایک نئی حکمت عملی پر گامزن ہے جس کا مقصد اس جدوجہد آزادی کشمیر کو ایک نیا رنگ دینا ہے جسکی ابتدا ایک نامعلوم کشمیری راہنما ذاکرموسی کا حالیہ بیان ہے۔ ذاکر موسیٰ کے بیان کو عالمی زرائع ابلاغ اسی طرح اٹھا رہے ہیں جیسے انہوں نے چند سال قبل داعش کے مطالبات کو ھائی لائیٹ کیا تھا۔
ذاکر موسیٰ ایک نئی سوچ پروان چڑھارہے ہیں کہ ہماری جدوجہد خطہ کشمیر کیلئے نہیں ہماری لڑائی خالصتاً نفاذ شریعت کیلئے ہے اور ہم اس خطہ کشمیر میں اسلامی سلطنت کا قیام اور اسلامی شریعہ کا نفاز چاہتے ہیں الحاق پاکستان یا خودمختار کشمیر کے مطالبے کو کچھ دیر کیلئے ایک طرف رکھ کر غور کریں کہ پچھلے پچاس سال سے کمشیری مجاھدین کا اس بات پر مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کشمیری مجاہدین کو انہیں انکا آزادانہ حق رائے دھی استمعال کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے اور ہم اس حق کے حصول تک اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھیں گ تاکہ کشمیری اپنی مرضی سے اپنی قسمت کا فیصلہ کرسکیں۔ اس متفقہ مطالبے کے مقابلے میں کشمیر میں اسلامی ریاست اور شریعہ نافز کرنے کا مطالبہ کرنے کا مطالبہ لیکر اٹھنے والا حزب المجاہدین کا یہ گروہ جسکی قیادت ذاکر موسیٰ کے پاس ہے وہ اس خطے کیلئے بہت نقصان اور پاکستان کیلئے آگے چلکر ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ یکایک ذاکر موسی کا سامنے آنا اور اسکے مطالبے کو مغربی میڈیا میں نمایاں کوریج ملنا بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ دوسال قبل بھارت میں منعقد ہونے والی صوفی کانفرنس اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کی ایک پہلی نیم سرکاری کوشش تھی۔ جس کا اولین مقصد عالمی دنیا میں دہشتگردی کیخلاف متفقہ جنگ کے نعرے کو بھارت کیلئے کیش کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ مودی سرکار کو ایسے مبلغین چاہیں جنکی آواز اور الفاظ اتنے پراثر ہوں کہ وہ کشمیری مجاہدین کو بیک فٹ پر لاکھڑا کریں اور عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی اس نئے نقطعہ ہائے نظر کو پزیرائی ملے۔ اس کیلئے لازم تھا کہ بھارتی حکومت خود دہشتگردی کی مزمت کرے اور پھر اسکے دوسرے مرحلے میں کشمیر میں دہشگردی کے خلاف مسلمانوں ہی کے لکھے فتوے تقسیم کرنے کا عمل شروع کیاجائے جس سے باالواسطہ لوگوں کو جدوجہد آزادی ترک کرنے کی ترغیب ملے گی اور کچھ لوگ اسکے ردِعمل کے طور پر نمایاں ہوکر شریعہ نافز کرنے کا مطالبہ شروع کرینگے۔ جس سے یہ ساری کچھڑی کچھ ایک قدرتی عمل اور اس عمل کا ردِعمل دکھائی نظر آئے گا۔
کشمیری فریڈم فائیٹر اور شریعت نافز کرنے کامطالبہ کرنے والے مجاہدین آپس میں گڈمڈ ہوجائیں گے اور یہی وہ موقع ہوگا جب بھارت عالمی دنیا میں ان سب کو ایک لاٹھی سے ہانک کر دہشگرد قرار دلواکر انکے خلاف گرانڈ آپریشن کا مطالبہ کریگا اور مسلمان ممالک کیلئے ایک آپشن اس آپریشن کی حمایت اور دوسری بھارت ، ایران افغانستان اور امریکی اتحاد کے ڈومور کیخلاف اعلان جنگ رہ جائے گا۔ پاکستان کیلئے اس وقت بہت محدود آپشنز ہیں اور ان حالات میں سیاسی و عسکری قیادت کو مل بیٹھ کر اس بہت خطرناک چیلنج کیلئے ایک محازوں پر زبردست حکمت عملی بنانا ہوگی ورنہ نہ اکیلی فوج اسکا مقابلہ کرسکتی ہے اور نہ سیاسی حکومت جو پہلے ہی بہت کمزور اخلاقی گراؤنڈ پر کھڑی ہے۔ داعش کے کیامقاصد ہونگے مگر مسلمانوں میں پھوٹ اور اسلامی وسائل پر قبضہ کھلکر سامنے آچکا۔ لہذا اس حوالے سے کسی جنگ میں اپنے سارے وسائل جھونکنے اور اسکی مکمل حمایت یا مکمل مخالفت کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچ لینا چاہیے۔