آجکل دنیا میں یہود و نصارا کا غلبہ ہے۔ عیسائیوں کاامریکا اور یہودیوں کا اسرائیل سرغنہ ہے۔ باقی عیسائی سلطنتیں ان کا دِم چھلا ہیں۔دونوں پیسے اور اسلحہ کے زور پر دنیا پر حکومتیں کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ، مالیتی ادارے اور میڈیا ان کی لونڈیاں ہیں۔یہ جیسا چاہتے ہیں حکومتیں حکم بجا لاتیں ہیں۔ان ہی کے وضع کرد ہ احکامات پر دنیا کی حکومتیں عمل کرتی ہیں، جن میں سالانہ بجٹ بھی شامل ہے۔حکومتیں بجٹ پیش کرتیں ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں بجٹ پر بحث مباحثہ کرتے ہیں، صحافی اور معاشیات کے ماہر تبصرے کرتے ہیں۔ اس لے دے کے بعد پھر اگلی مدت کے لیے حکومتی کاروبارجاری و ساری ہو جاتا ہے۔ ہر سال یہ مشق غالب قوتوں کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عمران خان حکومت نے تو اس سال کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی ہدایات پر بنایا۔ملک کے مالیاتی اداروں میں آئی ایم ایف کے لوگوں کو لگایا ہوا ہے۔
اے کاش! کہ مسلم حکومتیں مسلمانوں کی آئیڈیئل مدینہ کی اسلامی ریاست کے بجٹ اور پھر خلفائے راشدین کے بجٹ کے طریقہ پر اپنا بجٹ بناتیں۔ تو خسارے کے سارے اشاریے ختم ہو جاتے۔حکومتوں میں خوش حالی ہوتی۔ سود خور اداروں سے قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ مدنیہ کی اسلامی ریاست میں جو بھی آمدنی ہوتی ۔وہ اسی دن حکومت اورعوام کے کاموں میں خرچ ہو جاتی تھی۔حضرت عمر ایک دن مدینہ کی اسلامی ریاست کے حکمران سے ملنے آئے۔ دیکھا کہ چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ جب آپۖ ۖملاقات کے لیے اُٹھے تو جسم پر چٹائی کے نشان تھے۔حضرت عمر بے ساختہ رونے لگے۔ کہا کہ عمر کیوں روتے ہو؟ بولے کہ روم و ایران کے بادشاہ تو نرم گداز بستروں پر آرام کرتے ہیں ۔اسلامی ریاست کے حکمران اور اللہ کے رسولۖ ایک معمولی چٹائی پر سوتے ہیں۔ جسم پر چٹائی کے نشان دیکھ کربے ساختہ آنسو نکل آئے ہیں۔ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر کپڑے کے بڑے تاجر تھے۔حکومت میں آئے تو ذاتی کاروبار چھوڑ دیا۔ ایک مزدور کی آمدنی جتنا وظیفہ لے کر سلطنت کا کاروبار چلاتے رہے۔اہلیہ نے کچھ دن کا آٹا بچا کر سویٹ ڈش بنا دی۔ خلیفہ نے مسلمانوں کے بیت المال کے انچارج کو حکم کیا کہ سویٹ ڈش جتنا آٹا ہمارے کوٹے میں کم کردو۔ہمارا گزارہ ہو سکتا ہے۔حضرت عمر خلافت کے کام کے بعد ذاتی کام کرتے، تو بیت المال کا دیا بجا کر ذاتی دیا جلاتے تھے۔کپڑوں میںپے پیوند لگے ہوتے تھے۔ جب شہید ہوئے تو مقروض تھے۔ حضرت عثمان نے کسی کوجواب دیتے ہوئے فرمایا تھا۔ جب میں خلیفہ نہیں بنا تھا، میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریاں کا مالک تھا۔ اب جب میں مسلمانوں کا خلیفہ ہوں تو ایک اونٹ سواری کے لیے اور ایک بکری دودھ پینے کے لیے رکھتا ہوں۔ حضرت علی کو کسی نے خوش بو تحفے میں پیش کی۔ آپ نے مسلمانوں کے بیت المال میں دے دی۔ جب حضرت علی شہید کر دیے گئے تو اُن کے بیٹے نے عوام سے کہا کہ کل جو آپ کاخلیفہ شہید ہو گیا ہے۔ اس کے ترکہ میںیہ چند درم ہیں۔ الحمد اللہ کرپشن نام کی کوئی چڑیا اسلام کے اُس سنہری دور میں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے خسارے والے بجٹ بھی نہیں ہوتے تھے۔
اگر مسلم حکمران اپنے آئیڈیئلز پر عمل کر تے تو ملک قرضوں کے بوچھ تلے دبے ہوئے نہ ہوتے۔کیا پاکستانی حکمرانوں کو بانی ِپاکستان کا وہ واقعہ بھی یاد نہیں، جوکابینہ کی پہلی میٹینگ کے موقعہ ہو اتھا ۔ اے ڈی سی نے حضرت قائد اعظم سے معلوم کیا۔ کابینہ کے ممبران کے لیے چائے یا کافی کا انتظام کیا جائے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا ”کیا یہ لوگ اپنے گھروں سے چائے پی کر نہیں آئیں گے؟کیا حکمرانوں تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی شہادت کے وقت ان کی بنیان پھٹی ہوئی تھی۔کیا یہی پاکستان کبھی بیرون ملک قرضے نہیں دیتا تھا۔ جب فاضل بجٹ ہو تو کسی کو قرض دیا جاتا ہے نا!
پاکستان کی فوجی حکومتوں کو فی الوقت ایک طرف رکھ کر، اگر پچھلے ادوار میں ایک لمبے وقفے کے لیے اقتدار کے مزے لوٹنے والی دو بڑی سیاسی پار ٹیوں کے سربراہوں کے بارے بات کی جائے، تو پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو کے بیانیہ کے مطابق غریب عوام کو نہ روٹی کپڑا مکان ملا اور نہ ہی پاکستان میں غربت کم ہوئی؟ نون لیگ کے بانی نواز شریف کے بیانیہ، پاکستان کو ایشیا کا معاشی ٹائیگر بنانے کے آثار بھی نظر نہیںآئے؟ ہاں ہر آنے والے نے جانے والوں پر الزام لگایا کہ ہمیں پاکستان کا خزانہ خالی ملا، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ہمارے تبصرہ نگار بھی بھول بلیوں میں غرق، بجٹ پر اپنی ما ہرانہ رائے کا اظہار تو کرتے رہتے ہیں مگر ان کے تبصروں میں ان دونوںسیاسی پارٹیوں کی طرف جکائو ہوتا ہے۔ عوام پہلے سے زیادہ غربت میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مقتدر حلقے امیر سے امیر ترین ہوتے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی بات کی جائے تو اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ یہ دیہاتوںمیں واکی ٹکی سینیما چلاتے تھے۔ کراچی صدر میں بھیبینو سینیما کے ٹکٹ بلیک میں فروخت کیا کرتے تھے۔بے نظیر کے دور میں مرد اوّل نے کرپشن کر کے خوب مال
٢ بنایا۔ اندرون اور بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔ مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوئے۔ اولاد باہر ملکوں سے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔نواز شریف جب سیاست میںآئے تو ان کے خاندان کی ایک اتفاق فائنڈری تھی۔ اب عمران خان کے کہنے کے مطابق بڑھ کر گیارہ ملیں بن گئیں۔لندن اور دوسرے ملکوں میں کئی جائیدادیں ہیں۔ بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔باہر تجارت کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے خاندانوں کا علاج باہر ہوتا ہے۔ ان کے حواریوں نے کشتیوں بھر بھر کے پیسے باہر منتقل کیے۔پانی کی زیر زمین ٹنکیوں سے کرپشن کے پیسے ڈھونڈے گئے۔ماڈل گرل ،فالودے، ریڑھی، پان والے کے نام جعلی اکائونٹ کے ذریعے منی لانڈرنینگ کرتے رہے۔اپنے لگائے ہوئے بندوں کے ذریعے کرپشن کا ریکارڈ جلا دیا جاتا ہے۔ نیب نے یہ کہتے ہوئے زرداری کے میگا کرپشن کے مقدمے داخل دفتر کر دیتی ہے کہ فوٹو اسٹیٹ پر کرپشن کے مقدمے نہیں چلائے جا سکتے؟لندن سرے محل کے کاغذات پیپلز پارٹی کا سفیر ٹکانے لگاتے ہوئے ویڈیو کے ذریعے منظر عام پر آیا۔ نواز شریف فرماتے تھے کی کرپشن کر نے والے کرپشن کے نشان کہاں چھوڑتے ہیں؟ واقعی نیب کو کرپشن پکڑنے میں کافی محنت کرنی پڑی، تب ہی سزا ہوئی۔
مقتدار لوگوں کی کرپشن کی وجہ سے بجٹ خسارہ اور ملک قرضوں تلے دبتا گیا۔نواز شریف ٣٢ کروڑ قرضہ چھوڑ گئے تو عمران خان نے انہیں ٤٢ کروڑ تک پہنچا دیا۔ سود در سود نے پاکستان کو گھیرا ہوا ہے پھر ملک کا سالانہ بجٹ بچارہ کیا کرے؟ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مقتدر حلقوں کی کرپشن ہے ۔سب سے پہلے ملک میں کرپشن کو ختم کیا جائے۔ اس بات کو مدِنظر رکھا جائے کہ کرپٹ حکمران کرپشن کا نشان نہیں چھوڑتے ہیں۔ کرپشن کاریکارڈ جلا دیتے ہیں۔رشوت دے کر کرپشن پکڑنے والے اداروں سے اپنے حق میں فیصلہ لیتے ہیں۔ کرپشن کرنے والے سیاستدان خود قانون بناتے ہیں۔ لمبی عدالتی کا روائی کے دوران کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ہاں عوام کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ صرف عوام کو دکھاوے اور ایک دوسرے کوسیاست میں نیچا دکھانے کے کرپشن پکڑنے والے اداروں کو استعمال کرتے ہیں۔
اس کا ایک ہی حل ہے۔ مدنیہ کی اسلامی ریاست کا نظام حکومت نافذ کر دیا جائے۔ انگریزی قانون کو ختم کرکے اسلام کے قاضی کورٹس کا نظام بحال کیا جائے، تاکہ فیصلے جلد ہوں۔ سود ی بنک کاری اورسودی معاشی نظام کو ختم کیا جائے۔ احتساب کا نظام سخت ترین ہو۔ عام شہری اور حکمرانوں کا ایک جیسا احتساب ہو۔ کسی کو استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست کا دعویٰ کرنے والے اور عدالت سے صادق و امین کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو صرف زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے فوراً پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون پاس کرانا چاہیے، جس بھی شخص کے اثاثے اس کی آمدنی سے زیادہ ہیں۔ اس کو چھ ماہ کا وقت دیا جائے کہ وہ عدالت میں ثبوت پیش کرے۔ مقررہ وقت تک ثبوت نہ پیش کرنے والے کے اثاثے ضبط کر کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کیے جائیں۔ الیکشن پر فضول قسم کے اخراجات بچانے کے لیے، سب سے پہلے ملک میں عام الیکشن کے لیے الیکٹرونک پولینگ کا انتظام کیا جائے ۔جیسے دنیا کے دوسرے ملکوں میں رائج ہے۔ بہتر ہے فرانس کی طرح کے متناسب نمائندگی کانظام ہو۔ہر شناختی کارڈ رکھنے والے کا خود بخود ووٹر فہرست میں نام درج ہو جائے۔
اس سے الیکشن میں الزامات لگانے کا کلچر ختم ہو جائے گا۔ جیتنے والی پارٹی آرام سے اپنے منشور پر عمل کر کے عوام کی بہتری کے لیے مصروف ہو جائے گی۔ سیاست کو عبادت سمجھ کر عوام کی خدمت کرنے والے سیاست دان سامنے لائے جائیں۔جلسے،جلوس، ریلیاں،بینر اور لوگوں کو بسوں میںبھر بھر کر لانا، سب فضول قسم کی باتیں، یک سر ختم کر دیںجائیں ۔ الیکشن میں حصہ لینے والے کسی بھی شخص کو خرچہ نہیں کرنے دیا جائے۔ الیکشن کا خرچہ حکومت خود برداشت کرے۔ سیاست دان ایک سیٹ پرالیکشن لڑنے کے ارب لگا تا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد کھرب کی کرپشن کرتا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے ہر والی پارٹی کے منشور کو اس کا سربراہ حکومتی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے عوام میں پیش کرے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے پورے پاکستان میںعام مقامات پر پولینگ کیمپ قائم کئے جائیں۔ جس میںایک دن صبح سے شام تک عوام اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ آزاد الیکشن کمیشن ووٹوں کے شمار کرنے کے بعد نتا ئج کا اعلان کرے۔ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کابینہ میں فوج سفر موج کی بجائے اس میں سے پچھتر فی صد کمی کی جائے۔ پارلیمنٹ میں ممبران کی مراہات بڑھانے کے لئے کوئی بل پیش کیا جائے تو فوراً بغیر بحث کے بل منظور کر لیتے ہیں۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ سیاست کوعبادت سمجھ کر میدان میں آئیں تو ان ممبران کو اپنی مراہات خود منظور کر لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔کوئی ایساعدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو ممبران پارلیمنٹ کی مراہات منظور کرے۔عوامی تقریبات میں حکومتی یا کسی طرح بھی اسراف کی اجازت نہیں ہونے چاہیے۔ ذرائع نواز شریف کی طرف سے رائے ونڈ جاتی امرا محل میں زرداری کے لیے ستر(٧٠) قسم کے کھانے پر اعتراض کیا کرتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کے لاڑکانہ کے دورے کے موقعہ پر ایک سو تیس(١٣٠) قسم کے کھانوں کی خبر میڈیا میں آئی۔ کہا گیا کہ تیس قسم کے کھانے تھے۔ میڈیا نے بڑھاچڑھا کر ایک سو تیس کر دیے۔ اگر تیس قسم کھانے بھی ہوں تو پاکستان جیسے غریب ملک میں مناسب نہیں۔ غریب عوام جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہوں ۔ حکمران کا کئی قسم کے کھانے کھانا مناسب نہیں۔قومی اسمبلی کے ممبران کو ترقیاتی فنڈجاری نہیں ہونے چاہیے ۔ممبران قومی اسمبلی کا کام قانون سازی ہوتا ہے نہ کہ عوام کے ندی نالے اور سڑکیاں بنانا۔ یہ کام بلدیاتی اداروں کا ہے، انہی کے سپرد ہونا چاہیے۔اس سے کرپشن رکھی گی۔ملک کا سب سے بڑے سلطانہ
٢ ڈاکو ،پراپرٹی ٹائیکون صدرزرداری کو لاہور میں اربوں روپے کا محل تحفے میں پیش کرے۔ میڈیا میں سب کے سامنے اعلان کرے کہ پاکستان میں ہرچھوٹے بڑے کے ضمیر کی ایک قیمت ہے۔ایک دفعہ اس کے دفتر سے بنک کے چیکوں کی فہرست جاری ہوئی، جو صحافیوں کو پیش کیے گئے تھے۔ کھری بات پروگرام کے اینکر اور خاتون اینکر کی پراپرٹی ٹائیکون کی ایسی ہی باتوں پر مشتمل ویڈیو ایک بہادر صحافی نے لیک کی تھی۔ میڈیا میں ایک اینکر نے سلطانہ ڈاکو سے سوال کیا آپ کے کام فوراً کیسے ہوجاتے ہیں۔ جواب میں کہا کہ میں فائلوں کو پیے لگا دیتا ہوں ۔ اس لیے میرے سارے کام جلد از جلد ہو جاتے ہیں۔یعنی رشوت سے کام نکالتا ہوں۔ چڑیا والے اینکر نے بھی ایک دفعہ کہا تھاکہ چڑیا انہی سے خاص خبریں لاتی ہے۔ اگر کسی شخص کے ایسے بیانات اور عمل ریکارڈ پر موجود ہوں تو پاکستان میں رشوت عام ہونے میں شہ اور سند نہیں ملتی؟ کیا ملک کی معزز عدلیہ یا کسی احتساب ادارے نے اس شخص کے خلاف اس غلط کاموں کی گرفت کی ؟ اس کلچر کو ضرور ختم ہونا چاہیے۔ خود کار احتساب کاایسا نظام ہو ۔ جو کرپشن کرنے والوں کو قرار وقعی سزا دے۔ اسی طرح پاکستان میں کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ اکر کرپشن کلچر ختم ہو جائے تو خسارے کے سالانہ بجٹ کے بجائے ، عوام کا معیار بلند کرنے والا معیاری بجٹ بھی بن سکتا ہے۔
سیاست دانوں نے سیاست کو انڈسٹری کی شکل دی ہوئی ہے۔ ایکشن جیتنے میںاربوں لگائو ۔ جیت کرکھربوں کی کرپشن کرو۔ چاہے ملک کا بیڑا غرق ہو جائے۔ جب تک اس کلچر کو ختم کر کے سیاست کو عبادت کا درجہ نہ دیا جائے۔ اصلاح کا کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ اگر سیاست کو عبادت سمجھ کر سیاست کرنے والوں کی عوام کو تلاش ہے تو عوام کی گلی کوچوں کے اندر موجود ہیں۔ وہ تھوڑے بہت اقتدار میں بھی رہ چکے ہیں۔ان کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے صاق اور امین ہونیکا سرٹیفیکیٹ دیا ہے۔ عوام کو سیاست دانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر منتخب کرنا چاہیے۔ اپنے اپنے تعصب کے چشمے اُتار کر ایک انصاف کا چشمہ پہن کرسیاست دانوں کو پرکھنا چاہیے۔ تاکہ اقتدار میں آکر یہود و نصارا سے نہیں، اللہ کی ہدایات پر پاکستان کے عوام کی خوشحالی کا ، مدینہ کی اسلامی ریاست جیسا مثالی بجٹ بنائیں ۔ جب ایسا ہو گا تو آسمان سے رزق نازل ہو گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ترقی اور خوشحالی کا راستہ کھولے گا۔ آمین۔
پاکستانی بجٹ ٢٠٢٠ئ۔ ٢٠٢١ء پر تبصرے
Posted on June 21, 2020 By Majid Khan کالم
Shortlink:
Budget
تحریر : میر افسر امان
آجکل دنیا میں یہود و نصارا کا غلبہ ہے۔ عیسائیوں کاامریکا اور یہودیوں کا اسرائیل سرغنہ ہے۔ باقی عیسائی سلطنتیں ان کا دِم چھلا ہیں۔دونوں پیسے اور اسلحہ کے زور پر دنیا پر حکومتیں کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ، مالیتی ادارے اور میڈیا ان کی لونڈیاں ہیں۔یہ جیسا چاہتے ہیں حکومتیں حکم بجا لاتیں ہیں۔ان ہی کے وضع کرد ہ احکامات پر دنیا کی حکومتیں عمل کرتی ہیں، جن میں سالانہ بجٹ بھی شامل ہے۔حکومتیں بجٹ پیش کرتیں ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں بجٹ پر بحث مباحثہ کرتے ہیں، صحافی اور معاشیات کے ماہر تبصرے کرتے ہیں۔ اس لے دے کے بعد پھر اگلی مدت کے لیے حکومتی کاروبارجاری و ساری ہو جاتا ہے۔ ہر سال یہ مشق غالب قوتوں کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عمران خان حکومت نے تو اس سال کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی ہدایات پر بنایا۔ملک کے مالیاتی اداروں میں آئی ایم ایف کے لوگوں کو لگایا ہوا ہے۔
اے کاش! کہ مسلم حکومتیں مسلمانوں کی آئیڈیئل مدینہ کی اسلامی ریاست کے بجٹ اور پھر خلفائے راشدین کے بجٹ کے طریقہ پر اپنا بجٹ بناتیں۔ تو خسارے کے سارے اشاریے ختم ہو جاتے۔حکومتوں میں خوش حالی ہوتی۔ سود خور اداروں سے قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ مدنیہ کی اسلامی ریاست میں جو بھی آمدنی ہوتی ۔وہ اسی دن حکومت اورعوام کے کاموں میں خرچ ہو جاتی تھی۔حضرت عمر ایک دن مدینہ کی اسلامی ریاست کے حکمران سے ملنے آئے۔ دیکھا کہ چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ جب آپۖ ۖملاقات کے لیے اُٹھے تو جسم پر چٹائی کے نشان تھے۔حضرت عمر بے ساختہ رونے لگے۔ کہا کہ عمر کیوں روتے ہو؟ بولے کہ روم و ایران کے بادشاہ تو نرم گداز بستروں پر آرام کرتے ہیں
۔اسلامی ریاست کے حکمران اور اللہ کے رسولۖ ایک معمولی چٹائی پر سوتے ہیں۔ جسم پر چٹائی کے نشان دیکھ کربے ساختہ آنسو نکل آئے ہیں۔ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر کپڑے کے بڑے تاجر تھے۔حکومت میں آئے تو ذاتی کاروبار چھوڑ دیا۔ ایک مزدور کی آمدنی جتنا وظیفہ لے کر سلطنت کا کاروبار چلاتے رہے۔اہلیہ نے کچھ دن کا آٹا بچا کر سویٹ ڈش بنا دی۔ خلیفہ نے مسلمانوں کے بیت المال کے انچارج کو حکم کیا کہ سویٹ ڈش جتنا آٹا ہمارے کوٹے میں کم کردو۔ہمارا گزارہ ہو سکتا ہے۔حضرت عمر خلافت کے کام کے بعد ذاتی کام کرتے، تو بیت المال کا دیا بجا کر ذاتی دیا جلاتے تھے۔کپڑوں میںپے پیوند لگے ہوتے تھے۔ جب شہید ہوئے تو مقروض تھے۔ حضرت عثمان نے کسی کوجواب دیتے ہوئے فرمایا تھا۔ جب میں خلیفہ نہیں بنا تھا، میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریاں کا مالک تھا۔ اب جب میں مسلمانوں کا خلیفہ ہوں تو ایک اونٹ سواری کے لیے اور ایک بکری دودھ پینے کے لیے رکھتا ہوں۔ حضرت علی کو کسی نے خوش بو تحفے میں پیش کی۔ آپ نے مسلمانوں کے بیت المال میں دے دی۔ جب حضرت علی شہید کر دیے گئے تو اُن کے بیٹے نے عوام سے کہا کہ کل جو آپ کاخلیفہ شہید ہو گیا ہے۔ اس کے ترکہ میںیہ چند درم ہیں۔ الحمد اللہ کرپشن نام کی کوئی چڑیا اسلام کے اُس سنہری دور میں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے خسارے والے بجٹ بھی نہیں ہوتے تھے۔
اگر مسلم حکمران اپنے آئیڈیئلز پر عمل کر تے تو ملک قرضوں کے بوچھ تلے دبے ہوئے نہ ہوتے۔کیا پاکستانی حکمرانوں کو بانی ِپاکستان کا وہ واقعہ بھی یاد نہیں، جوکابینہ کی پہلی میٹینگ کے موقعہ ہو اتھا ۔ اے ڈی سی نے حضرت قائد اعظم سے معلوم کیا۔ کابینہ کے ممبران کے لیے چائے یا کافی کا انتظام کیا جائے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا ”کیا یہ لوگ اپنے گھروں سے چائے پی کر نہیں آئیں گے؟کیا حکمرانوں تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی شہادت کے وقت ان کی بنیان پھٹی ہوئی تھی۔کیا یہی پاکستان کبھی بیرون ملک قرضے نہیں دیتا تھا۔ جب فاضل بجٹ ہو تو کسی کو قرض دیا جاتا ہے نا!
پاکستان کی فوجی حکومتوں کو فی الوقت ایک طرف رکھ کر، اگر پچھلے ادوار میں ایک لمبے وقفے کے لیے اقتدار کے مزے لوٹنے والی دو بڑی سیاسی پار ٹیوں کے سربراہوں کے بارے بات کی جائے، تو پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو کے بیانیہ کے مطابق غریب عوام کو نہ روٹی کپڑا مکان ملا اور نہ ہی پاکستان میں غربت کم ہوئی؟ نون لیگ کے بانی نواز شریف کے بیانیہ، پاکستان کو ایشیا کا معاشی ٹائیگر بنانے کے آثار بھی نظر نہیںآئے؟ ہاں ہر آنے والے نے جانے والوں پر الزام لگایا کہ ہمیں پاکستان کا خزانہ خالی ملا، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ہمارے تبصرہ نگار بھی بھول بلیوں میں غرق، بجٹ پر اپنی ما ہرانہ رائے کا اظہار تو کرتے رہتے ہیں مگر ان کے تبصروں میں ان دونوںسیاسی پارٹیوں کی طرف جکائو ہوتا ہے۔ عوام پہلے سے زیادہ غربت میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مقتدر حلقے امیر سے امیر ترین ہوتے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی بات کی جائے تو اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ یہ دیہاتوںمیں واکی ٹکی سینیما چلاتے تھے۔ کراچی صدر میں بھیبینو سینیما کے ٹکٹ بلیک میں فروخت کیا کرتے تھے۔بے نظیر کے دور میں مرد اوّل نے کرپشن کر کے خوب مال
٢
بنایا۔ اندرون اور بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔ مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوئے۔ اولاد باہر ملکوں سے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔نواز شریف جب سیاست میںآئے تو ان کے خاندان کی ایک اتفاق فائنڈری تھی۔ اب عمران خان کے کہنے کے مطابق بڑھ کر گیارہ ملیں بن گئیں۔لندن اور دوسرے ملکوں میں کئی جائیدادیں ہیں۔ بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔باہر تجارت کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے خاندانوں کا علاج باہر ہوتا ہے۔ ان کے حواریوں نے کشتیوں بھر بھر کے پیسے باہر منتقل کیے۔پانی کی زیر زمین ٹنکیوں سے کرپشن کے پیسے ڈھونڈے گئے۔ماڈل گرل ،فالودے، ریڑھی، پان والے کے نام جعلی اکائونٹ کے ذریعے منی لانڈرنینگ کرتے رہے۔اپنے لگائے ہوئے بندوں کے ذریعے کرپشن کا ریکارڈ جلا دیا جاتا ہے۔ نیب نے یہ کہتے ہوئے زرداری کے میگا کرپشن کے مقدمے داخل دفتر کر دیتی ہے کہ فوٹو اسٹیٹ پر کرپشن کے مقدمے نہیں چلائے جا سکتے؟لندن سرے محل کے کاغذات پیپلز پارٹی کا سفیر ٹکانے لگاتے ہوئے ویڈیو کے ذریعے منظر عام پر آیا۔ نواز شریف فرماتے تھے کی کرپشن کر نے والے کرپشن کے نشان کہاں چھوڑتے ہیں؟ واقعی نیب کو کرپشن پکڑنے میں کافی محنت کرنی پڑی، تب ہی سزا ہوئی۔
مقتدار لوگوں کی کرپشن کی وجہ سے بجٹ خسارہ اور ملک قرضوں تلے دبتا گیا۔نواز شریف ٣٢ کروڑ قرضہ چھوڑ گئے تو عمران خان نے انہیں ٤٢ کروڑ تک پہنچا دیا۔ سود در سود نے پاکستان کو گھیرا ہوا ہے پھر ملک کا سالانہ بجٹ بچارہ کیا کرے؟ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مقتدر حلقوں کی کرپشن ہے ۔سب سے پہلے ملک میں کرپشن کو ختم کیا جائے۔ اس بات کو مدِنظر رکھا جائے کہ کرپٹ حکمران کرپشن کا نشان نہیں چھوڑتے ہیں۔ کرپشن کاریکارڈ جلا دیتے ہیں۔رشوت دے کر کرپشن پکڑنے والے اداروں سے اپنے حق میں فیصلہ لیتے ہیں۔ کرپشن کرنے والے سیاستدان خود قانون بناتے ہیں۔ لمبی عدالتی کا روائی کے دوران کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ہاں عوام کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ صرف عوام کو دکھاوے اور ایک دوسرے کوسیاست میں نیچا دکھانے کے کرپشن پکڑنے والے اداروں کو استعمال کرتے ہیں۔
اس کا ایک ہی حل ہے۔ مدنیہ کی اسلامی ریاست کا نظام حکومت نافذ کر دیا جائے۔ انگریزی قانون کو ختم کرکے اسلام کے قاضی کورٹس کا نظام بحال کیا جائے، تاکہ فیصلے جلد ہوں۔ سود ی بنک کاری اورسودی معاشی نظام کو ختم کیا جائے۔ احتساب کا نظام سخت ترین ہو۔ عام شہری اور حکمرانوں کا ایک جیسا احتساب ہو۔ کسی کو استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ مدینہ کی اسلامی ریاست کا دعویٰ کرنے والے اور عدالت سے صادق و امین کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو صرف زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے فوراً پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون پاس کرانا چاہیے، جس بھی شخص کے اثاثے اس کی آمدنی سے زیادہ ہیں۔ اس کو چھ ماہ کا وقت دیا جائے کہ وہ عدالت میں ثبوت پیش کرے۔ مقررہ وقت تک ثبوت نہ پیش کرنے والے کے اثاثے ضبط کر کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کیے جائیں۔ الیکشن پر فضول قسم کے اخراجات بچانے کے لیے، سب سے پہلے ملک میں عام الیکشن کے لیے الیکٹرونک پولینگ کا انتظام کیا جائے ۔جیسے دنیا کے دوسرے ملکوں میں رائج ہے۔ بہتر ہے فرانس کی طرح کے متناسب نمائندگی کانظام ہو۔ہر شناختی کارڈ رکھنے والے کا خود بخود ووٹر فہرست میں نام درج ہو جائے۔
اس سے الیکشن میں الزامات لگانے کا کلچر ختم ہو جائے گا۔ جیتنے والی پارٹی آرام سے اپنے منشور پر عمل کر کے عوام کی بہتری کے لیے مصروف ہو جائے گی۔ سیاست کو عبادت سمجھ کر عوام کی خدمت کرنے والے سیاست دان سامنے لائے جائیں۔جلسے،جلوس، ریلیاں،بینر اور لوگوں کو بسوں میںبھر بھر کر لانا، سب فضول قسم کی باتیں، یک سر ختم کر دیںجائیں ۔ الیکشن میں حصہ لینے والے کسی بھی شخص کو خرچہ نہیں کرنے دیا جائے۔ الیکشن کا خرچہ حکومت خود برداشت کرے۔ سیاست دان ایک سیٹ پرالیکشن لڑنے کے ارب لگا تا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد کھرب کی کرپشن کرتا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے ہر والی پارٹی کے منشور کو اس کا سربراہ حکومتی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے عوام میں پیش کرے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے پورے پاکستان میںعام مقامات پر پولینگ کیمپ قائم کئے جائیں۔ جس میںایک دن صبح سے شام تک عوام اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ آزاد الیکشن کمیشن ووٹوں کے شمار کرنے کے بعد نتا ئج کا اعلان کرے۔ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کابینہ میں فوج سفر موج کی بجائے اس میں سے پچھتر فی صد کمی کی جائے۔ پارلیمنٹ میں ممبران کی مراہات بڑھانے کے لئے کوئی بل پیش کیا جائے تو فوراً بغیر بحث کے بل منظور کر لیتے ہیں۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ سیاست کوعبادت سمجھ کر میدان میں آئیں تو ان ممبران کو اپنی مراہات خود منظور کر لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔کوئی ایساعدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو ممبران پارلیمنٹ کی مراہات منظور کرے۔عوامی تقریبات میں حکومتی یا کسی طرح بھی اسراف کی اجازت نہیں ہونے چاہیے۔ ذرائع نواز شریف کی طرف سے رائے ونڈ جاتی امرا محل میں زرداری کے لیے ستر(٧٠) قسم کے کھانے پر اعتراض کیا کرتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کے لاڑکانہ کے دورے کے موقعہ پر ایک سو تیس(١٣٠) قسم کے کھانوں کی خبر میڈیا میں آئی۔ کہا گیا کہ تیس قسم کے کھانے تھے۔ میڈیا نے بڑھاچڑھا کر ایک سو تیس کر دیے۔ اگر تیس قسم کھانے بھی ہوں تو پاکستان جیسے غریب ملک میں مناسب نہیں۔ غریب عوام جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہوں ۔ حکمران کا کئی قسم کے کھانے کھانا مناسب نہیں۔قومی اسمبلی کے ممبران کو ترقیاتی فنڈجاری نہیں ہونے چاہیے ۔ممبران قومی اسمبلی کا کام قانون سازی ہوتا ہے نہ کہ عوام کے ندی نالے اور سڑکیاں بنانا۔ یہ کام بلدیاتی اداروں کا ہے، انہی کے سپرد ہونا چاہیے۔اس سے کرپشن رکھی گی۔ملک کا سب سے بڑے سلطانہ
٢
ڈاکو ،پراپرٹی ٹائیکون صدرزرداری کو لاہور میں اربوں روپے کا محل تحفے میں پیش کرے۔ میڈیا میں سب کے سامنے اعلان کرے کہ پاکستان میں ہرچھوٹے بڑے کے ضمیر کی ایک قیمت ہے۔ایک دفعہ اس کے دفتر سے بنک کے چیکوں کی فہرست جاری ہوئی، جو صحافیوں کو پیش کیے گئے تھے۔ کھری بات پروگرام کے اینکر اور خاتون اینکر کی پراپرٹی ٹائیکون کی ایسی ہی باتوں پر مشتمل ویڈیو ایک بہادر صحافی نے لیک کی تھی۔ میڈیا میں ایک اینکر نے سلطانہ ڈاکو سے سوال کیا آپ کے کام فوراً کیسے ہوجاتے ہیں۔ جواب میں کہا کہ میں فائلوں کو پیے لگا دیتا ہوں ۔ اس لیے میرے سارے کام جلد از جلد ہو جاتے ہیں۔یعنی رشوت سے کام نکالتا ہوں۔ چڑیا والے اینکر نے بھی ایک دفعہ کہا تھاکہ چڑیا انہی سے خاص خبریں لاتی ہے۔ اگر کسی شخص کے ایسے بیانات اور عمل ریکارڈ پر موجود ہوں تو پاکستان میں رشوت عام ہونے میں شہ اور سند نہیں ملتی؟ کیا ملک کی معزز عدلیہ یا کسی احتساب ادارے نے اس شخص کے خلاف اس غلط کاموں کی گرفت کی ؟ اس کلچر کو ضرور ختم ہونا چاہیے۔ خود کار احتساب کاایسا نظام ہو ۔ جو کرپشن کرنے والوں کو قرار وقعی سزا دے۔ اسی طرح پاکستان میں کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ اکر کرپشن کلچر ختم ہو جائے تو خسارے کے سالانہ بجٹ کے بجائے ، عوام کا معیار بلند کرنے والا معیاری بجٹ بھی بن سکتا ہے۔
سیاست دانوں نے سیاست کو انڈسٹری کی شکل دی ہوئی ہے۔ ایکشن جیتنے میںاربوں لگائو ۔ جیت کرکھربوں کی کرپشن کرو۔ چاہے ملک کا بیڑا غرق ہو جائے۔ جب تک اس کلچر کو ختم کر کے سیاست کو عبادت کا درجہ نہ دیا جائے۔ اصلاح کا کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ اگر سیاست کو عبادت سمجھ کر سیاست کرنے والوں کی عوام کو تلاش ہے تو عوام کی گلی کوچوں کے اندر موجود ہیں۔ وہ تھوڑے بہت اقتدار میں بھی رہ چکے ہیں۔ان کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے صاق اور امین ہونیکا سرٹیفیکیٹ دیا ہے۔ عوام کو سیاست دانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر منتخب کرنا چاہیے۔ اپنے اپنے تعصب کے چشمے اُتار کر ایک انصاف کا چشمہ پہن کرسیاست دانوں کو پرکھنا چاہیے۔ تاکہ اقتدار میں آکر یہود و نصارا سے نہیں، اللہ کی ہدایات پر پاکستان کے عوام کی خوشحالی کا ، مدینہ کی اسلامی ریاست جیسا مثالی بجٹ بنائیں ۔ جب ایسا ہو گا تو آسمان سے رزق نازل ہو گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ترقی اور خوشحالی کا راستہ کھولے گا۔ آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com