پھر الفاظ کی جادو گری

Budget

Budget

تحریر : ایم سرور صدیقی

پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتاہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بہرحال پی ٹی آئی حکومت نے اپنا تیسرا اور تاریخ کا سب سے بڑ ابجٹ پیش کردیا ہے اسے 900 ارب کے ترقیاتی بجٹ کا نام دیا گیاہے ویسے تو حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک عام آدمی کا بجٹ ہے لیکن وزیراعظم کو آئندہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 24 لاکھ 41 ہزار روپے تنخواہ ملے گی۔ وفاقی بجٹ 2021ـ22 کی دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم آفس کے اخراجات کے لئے 40 کروڑ 10 لاکھ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کے لئے 21 کروڑ 80 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔

مشیروں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کے لئے 3 کروڑ روپے مختص اور معاونین خصوصی کے لئے 2 کروڑ 90 لاکھ روپے مختص کئے جارہے ہیں۔3منٹ سے زائد دورانیئے کی موبائل فون کالز، اور ایس ایم ایس پیغامات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ۔ یکم جولائی 2021 سے تمام وفاقی ملازمین کے لئے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف کا اعلان کیاگیاہے۔ تمام ملازمین کی پینشن میں 10 فیصد اضافہ۔ کم از کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے کردی گئی اس بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ مقامی سطح پر بنائی جانے والی 850 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ اور سیلز ٹیکس میں کمی کردی گئی ہے۔ آئی ٹی کی خدمات کی بر آمدات کیلئے زیرو ریٹنگ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گاہے۔ پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ۔ قر آن پاک کی پرنٹنگ اور اشاعت میں استعمال ہونے والے آرٹ اور پرنٹنگ پیپرز کی درآمد پر چھوٹ دے دی گئی ہے۔

وفاقی پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 40 فیصد اضافے سے 900 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ زراعت کے شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص۔ بجلی کی ترسیل کے لیے 118 ارب روپے مختص۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے تخفیف کے منصوبوں کے لیے 14 ارب روپے مختص۔کرونا ویکسین کی خریداری کے لئے ایک ارب 10 کروڑ روپے،کووڈ 19 ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100 ارب روپے اور سندھ کو خصوصی گرانٹ کے لئے 12 ارب روپے مختص کردئیے ہیں۔ یہ تو تھیں حکومتی ترجیحات لیکن اپوزیشن رہنمائوں نے مولاجٹ کے انداز میں للکارا ہے کہ ہم اس عوام دشمن بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر خزانہ نے جو بجٹ پیش کیا لگتا ہے کسی اور ملک کا بجٹ ہے، کسی اور ملک کی معیشت کی بات کررہے تھے۔ ایسا ملک جہاں تاریخی غربت، تاریخی مہنگائی اور تاریخی بے روزگاری کا عوام کو سامنا ہو اس ملک کا وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اٹھ کر معاشی ترقی کی جو بات کرتے ہیں اس میں زیادہ وزن نہیں ہوتا۔ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے برابر ہے شہبازشریف کا کہنا تھا ایک طرف معاشی بربادی ہے، بے روزگاری اور بدترین مہنگائی ہے اقتصادی سروے حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ اس سے صرف مایوسی اورناکامی نکلی۔ اپوزیشن کے ساتھ مل کر عوام دشمن بجٹ کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔ مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ ملک میں گدھوں کی تعداد میں اضافے کا ذمہ دار عمران خان ہیں۔ چالیس سال پارلیمنٹ میں گزارے معیشت جمود کا شکار ہے۔

یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ معیشت کو بہتر کر سکیں ، خرم نواز گنڈا پور نے تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کوآٹے میں نمک کے برابر قراردے دیا۔ اسفندر یار ولی نے کہا الفاظ کے ہیر پھیر سے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضہ پی ٹی آئی حکومت نے لیا۔ قرضوں میں ڈوبے ملک کا بجٹ کس طرح عوام کو ریلیف دے گا؟۔ اپوزیشن رہنمائوںکی یہ ساری باتیں اپنی جگہ پرلیکن عوام نے دیکھا ہردورمیں اپوزیشن رہنما ہمیشہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں بہرحال ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیںپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخوں میں تو سال بھر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے کمی کیا ہونی ہے اکثر ریٹ بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔

حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوں کو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیںہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے۔بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اتارچڑھائو کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے۔

عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز، ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں ویسے ایک دانشورنے سچ کہا تھا جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں جھوٹ۔سفید جھوٹ اور اعدادوشمار اور اس سال پھر حکومت اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر عوام کو الفاظ کے ہیرپھیر سے مات دیدے گی یہی عام پاکستانی کا مقدرہے عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔یہ ایسا بجٹ ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اللہ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں موجودہ حکومت کا یہ انکشاف کہ ٹیکسزگذشتہ سال کے مقابلے میں کم وصول ہوئے ہیں یہی حکومتی نااہلی کا بین ثبوت ہے وزیر ِ خزانہ اپنی ناکامیوں اور اپنی ٹیم کی نااہلی کا انتقام عام آدمی سے کیوں لینے کی کوشش کررہے ہیں وہ کچھ کرکے دکھائیں کیونکہ میں اعدادو شمار کا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری زیادہ دیرتک نہیں چل سکتی۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی