تحریر : چوہدری ناصر گجر پاکستان کو معرض وجود میں آئے 68سال بیت چکے ہیں ان تمام سالوں میں کچھ جملے بہت کثرت سے استعمال ہوتے رہیں ہیں اور ہو رہے ہیں جیسے کہ اس وقت ہمارا ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے،اس مُلک سے غربت کا خاتمہ کر کے رہیں گے،اس مُلک کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اتنے عرصے میں نازک دور اور غربت کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا ؟اس کی ایک وجہ تو میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ حکمران طبقہ میں بہت ہی کم لوگ ایسے آئے جنہیں پاکستان کی ترقی اپنی ترقی سے زیادہ عزیز تھی ورنہ تو زیادہ تر لوگ اپنی دوکانداری چمکانے اور پیسہ کمانے کی غرض سے سیاست میں آکر مُلکی باگ دوڑ میں حصہ لیتے ہیںیہاں سیاست کاروباری نقطہ نظر سے کی جاتی ہے اگر ہم نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملکی سیاست کاروباری لوگوں اور جاگیرداروں سے بھری پڑی ہے ایک کاروباری شخص کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ میں ایسی جگہ اپنا پیسہ لگائوں جہاں سے کم سے کم دس گنا زیادہ منافع حاصل ہو۔ اسی سوچ کو مد نظر رکھ کر الیکشن میںکھلے دل سے پیسہ خرچ کیا جاتا ہے کہ آج الیکشن میںکروڑوں روپے خرچ کر کے کل اربوں کمائیں گے۔
لیکن ماضی میں جلد حکومتیں گرنے کے باعث اس کاروبار سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو رہا تھا تو ان کاروباری لوگوں نے اپنے مشترکہ نقصان کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مل جُل کر دولت کمائی جائے اس معاہدے کے تحت صرف عوامی دکھاوے کے لیے اپوزیشن ہلکی پھلکی شعبدہ بازی کرتی رہی ۔جب سابقہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور اپنے خزانے خوب بھر لیے تو منافع کو دیکھتے ہوئے اس کام میں انویسٹمنٹ بھی بڑھ گئی جس کی مثال حالیہ بلدیاتی الیکشن ہیں جن میں فی کونسلراوسطاً پانچ لاکھ روپے خرچا ہوا۔اب میئر اور چیئرمین کے الیکشن کے لیے بے دریغ پیسہ لگایا جا رہا ہے۔ کاروباری شخص دانستہ طور پر کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتااور صرف عوام کی خدمت کی خاطر اربوں روپے دائو پر لگا دینا تو انتہائی بیوقوفی والی بات ہے عوام کو سبز باغ دکھانا،مُلکی ترقی کی باتیں کرنا یہ سب مارکیٹنگ ہے۔
اگر تمام عوامی مسائل حل ہو جائیں تو پھر ان کا تو کاروبار ٹھپ ہو جائے گااور ان کے ساتھ ساتھ انکے ایریا منیجرز، سیلز مین وغیرہ بھوکے مرنے لگیں گے لوگوں کی زمینوں پرقبضے بند ہو جائیں گے،مکمل ٹیکس دینے پڑیں گے ،ایفیڈرین ،حج، اوگرا، نندی پور ،رینٹل پاور، منی لانڈرنگ جیسے سکینڈلز کی شفاف انکوئری ہو گی اور جیل کا منہ دیکھنا پڑے گا۔اس وقت کئی سرکاری ادارے ایسے ہیں جو خسارے میں جا رہے ہیںجن کی نجکاری زیر بحث ہے یہ ادارے کبھی خسارے میں نہ ہوتے اگر یہ ان کاروباری لوگوں کی ذاتی ملکیت ہوتے ۔ہمارے مُلک کے سیاستدانوںکے ذاتی کاروبار تو کبھی خسارے میں نہیں جاتے وہ تو دن دوگنی اور رات چوگنی کی بجائے رات سو گنی ترقی کی راہ پرگامزن ہیںچونکہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر ہی بلیک منی کمائی جاتی ہے کیونکہ اس فن میں یہ لوگ ماہر ہیں۔
Pakistani Politicians
ہمارے سیاستدانوں کے اربوں ڈالرز کے اثاثے ایسے ہی تو نہیں بن گئے ۔اگر یہ لوگ سرکاری دوروں کا خرچ سرکاری خزانے پر ڈالنے کی بجائے اپنے ذاتی خزانے پر ڈالیں آپ دیکھیں گے کہ اپنی جیب سے کیے گئے دورے کا خرچہ آدھے سے بھی کم رہ جائے گا۔اپنے مال کی ایمانداری سے یہ لوگ سالانہ زکوة نکال کر بھی غریبوں میں تقسیم کریں تو بھی غربت میں نمایاں کمی ہو جائے گی غریبوں کو نہ بھی دیں تو ان کی زکوة کی رقم سے ہی میٹرو بس،اورنج ٹرین جیسے منصوبے مکمل ہو سکتے ہیںلیکن ایسا کرنا ان کے کاروباری اصولوں کے خلاف ہیں الیکشن پر تو ایک ایم این اے کروڑوں روپے خرچ دیتا ہے جب کہ کسی حادثے کی صورت میں ایک روپیہ بھی خود سے نہیں خرچ کرتا ۔قدرتی آفات کی وجہ سے ملنے والی بیرونی امداد سے بھی اپنے خزانے بھرنے کی ہی کوششیں کی جاتی ہیںاقتصادی راہداری جو کہ پاکستان کی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اُس پر بھی سیاستدانوں کو تحفظات عوام یا پاکستان کی بھلائی کی خاطرنہیں بلکہ ذاتی مفادات یا اقربا کے مفادات کی خاطر ہیں۔
دہشتگردی پر کب کا قابو پا لیا جاتا اگر شہید ہونے والے بچے زبانی طور پر اپنے بچوں کی بجائے ان کے حقیقی بچے ہوتے،تعلیمی اداروں کی حالت بہتر ہوتی اگر ان کے اپنے بچے اُن میں پڑھتے،سرکاری ہسپتال بہترین ہوتے اگر انکا اپنا علاج وہاں ہوتا،پولیس کا نظام بہتر ہوتا اگر انہیں یا انکے بچوں کی بلاوجہ چھترول ہوتی،پٹواری کلچر درست ہو جاتا اگر ان کی اپنی جائداد خرد برد کر دی گئی ہوتی۔ہر مشکل کام کو پاک فوج کے سپرد کر کے اپنی جان چُھڑا لیتے ہیں لیکن جب وہی فوج مُلک کی باگ دوڑ سنبھال لے تو ان کے دلوںپر چُھریاں چلتی ہیں۔
پھر یہ لوگ عوام کو اسی فوج کے خلاف بھڑکاتے نظر آتے ہیں جو ہر مشکل گھڑی میں عوام کی مدد کو پہنچ جاتی ہے۔قصہ مختصر یہ ہے کہ یہ کاروباری لوگ اپنے مفاد کے سامنے کسی کو ترجیح نہیں دیں گے اور اپنی دوکانداری چمکانے کی خاطر آپس میںمفاد والی محبت اور عوام کو اُنہی جملوں سے مطمئن اورکھوکھلے نعروں سے سبز باغ دکھاتے رہیں گے۔جب تک ان کاروباری لوگوں کی جگہ عام لوگ اس مُلک کی باگ دوڑ نہیں سنبھالیں گے تب تک یہ مُلک ترقی نہیں کرے گا اورعوام کی حالت بھی نہیں بدلے گی۔