نئے پاکستان ۔۔۔کے کپتان کے نام خط

Letter

Letter

تحریر: محمد فاروق خان

پرانے پاکستان کی حیرت انگیز داستان۔۔۔نئے پاکستان کے نام۔۔۔وزیراعظم ہاوس، گورنر ہاوسز تو پرانی بات۔۔نئے دل ہلا دینے والے عجب انکشافات۔۔۔ جسے پڑھ کر پرانے پاکستان والے بھی ۔۔۔نئے پاکستان میں ہجرت کرنا پسند کرلیں۔۔۔نئے پاکستان کے شہری کا پہلا پہلا خط۔۔۔ بے گھر اور کرائے کے ماہانہ عذ اب میں مبتلا پاکستانی۔۔۔ ان گھروں کے مکینوں کے متعلق کیا سوچتے ہوں گے؟؟؟یہ ساری جائیدادیں سکولوں اور ہسپتالوں میں بدلنے پر راضی ہیں۔۔۔ ان جائیدادوں کو بے گھر افراد کے لیئے کالونیوں میں بدلنے کا بھی سوچا جا سکتا ہے۔۔۔ نئے پاکستان کے ہنی مون پیریڈ میں ہی۔۔۔تبدیلی آ جانی چاہیئے۔۔۔نئے پاکستان میں سفارش مصلحت اور جواز ناقابل قبول ہوں گے۔۔۔ان سرکاری محلات اور فارم ہاوسزسے آگاہی کے بعد ۔۔۔ سرکاری گھروں کے زیادہ سے زیادہ رقبے کا تعین کرنا لازم ہو گیا ہے۔

کراچی سے پیر سید محمد ضیاالحق ہمدانی کا سوشل میڈیا پر نئے منتخب ہونے والے وزیراعظم عمران خان کے نام خط پڑھنے کو ملا

۔۔۔جس نے مجھے تو حیرت زدہ کیا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اہل وطن بھی اس سے حیرت زدہ ہوں۔۔۔ ان سرکاری جائیدادوں کے مکینوں کے۔۔۔ طرز زندگی اور رہن سہن کی عیاشیاں دیکھیں۔۔۔اوران بے بسوں اور بے گھروںکے درد کو محسوس کریں۔۔۔نئے پاکستان میں انہیں حصہ دینے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔۔۔عمران خان کے نئے پاکستان کا خواب میرے لیئے بڑا مبہم اور سیاسی نعرہ تھا۔۔۔لیکن یہ خط پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ۔۔۔نیا پاکستان انتہائی لازمی ہے۔۔۔خواب تعبیر مانگتے ہیں۔۔۔تعبیر وعدوں میں ڈھلے گی تو۔۔۔نیا پاکستان کرچی کرچی بکھر جائے گا۔۔۔خط من و عن پیش خدمت ہے۔۔۔ عمران خان ان لگژر ی محلات اور ان کے رقبوں کو چیک کراکر۔۔۔ انقلابی فیصلے کرے۔

محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب۔۔۔اپ کی تقریر سنی۔۔۔سن کر یقین کریں کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔خصوصا وزیر اعظم ہاوس۔۔۔گورنر ہاوس اور سادگی سے متعلق سن کر لگا۔۔۔آپ میرے دل کی بات کر رہے ہیں۔۔۔میں آپ کی توجہ کچھ بہت ہی اہم معلومات کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔۔۔ جسے پڑھ کر میں خود بھی کچھ دیر کے لیئے۔۔۔ششدر رہ گیا تھا۔۔۔اپ جس سادگی کو اپنانے کی بات کر رہے ہیں اس وقت۔۔۔کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ١٠٤مندرجہ بالا تفصیلات جناب مشتاق عباسی کی تحقیق سے لی گئی ہیں۔

کنال پر محیط ہے۔یہ پاکستان میں کسی سرکاری ملازم کی سب سے بڑی رہائش گاہ ہے۔اس کی نگہداشت ،مرممت اور حفاظت کے لیئے٣٣ ملازم ہیں۔۔۔دوسے نمبر پر ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی آتی ہے۔اس کا رقبہ ٩٨ کنال ہے۔۔۔ ڈی سی او میانوالی کی کوٹھی کا سائیز ٩٥ کنال۔۔۔ڈی سی اوفیصل اباد کی رہائش٩٢ کنال پرتعمیر شدہ ہے ۔۔۔صرف پنجاب پولیس کے٧ ڈی آئی جیزاور٣٢ ایس ایس پیز کی رہائش گاہیں٨٦٠ کنال پر مشتمل ہیں۔۔۔ڈی آئی جی گوجرانوالہ٧٠ کنال۔۔۔ڈی آئی جی سرگودھا٤٠ کنال۔۔۔ڈی آئی جی راولپنڈی٢٠ کنال۔۔۔ڈی آئی جی فیصل آباد٢٠ کنال۔۔۔ڈی آئی جی ڈیرہ غازی خان٢٠ کنال۔۔۔ڈی آئی جی ملتان١٨

کنال۔۔۔ڈی آئی جی لاہور ١٥ کنال کے محلات میں رہتے ہیں۔۔۔ایس ایس پی میانوالی کا گھر٧٠ کنال۔۔۔ایس ایس پی قصور٢٠ کنال۔۔۔ایس ایس پی شیخوپورہ٣٢ کنال۔۔۔ایس ایس پی گوجرانوالہ٢٥ کنال۔۔۔ایس ایس پی گجرات ٨ کنال۔۔۔ایس ایس پی حافظ آباد١٠ کنال۔۔۔ایس ایس پی سیالکوٹ٩ کنال۔۔۔ایس ایس پی جھنگ١٨ کنال۔۔۔ایس ایس پی ٹوبہ ٹیک سنگھ٥ کنال۔۔۔ایس ایس پی ملتان ١٣ کنال۔۔۔ایس ایس پی وہاڑی ٢٠ کنال۔۔۔ایس ایس پی خانیوال ١٥ کنال۔۔۔ایس ایس پی پاکپتن١٤ کنال۔۔۔ایس ایس پی بہاولپور١٥ کنال۔۔۔ایس ایس پی بہاولنگر٣٢ کنال۔۔۔ ایس ایس پی رحیم یار خان ٢٢ کنال۔۔۔ایس ایس پی لیہ٦ کنال۔۔۔ایس ایس پی راولپنڈی ٥ کنال۔۔۔ایس ایس پی چکوال١٠ کنال۔۔۔ایس ایس پی جہلم ٦ کنال۔۔۔ایس ایس پی اٹک ٢٩ کنال۔۔۔ایس ایس پی خوشاب٦ کنال۔۔۔ایس ایس پی بھکر٨ کنال۔۔۔ایس ایس پی راجن پور٣٧ کنال۔۔۔ایس ایس پی نارووال ١٠ کنال کی سرکاری عمارت میں رہائش پزیر ہیں۔۔۔

صرف پولیس کے ان سرکاری محلات کی حفاظت مرمت اور تزئین و آرائش پر ہر سال ٨٠ کروڑ سے اوپر خرچ ہوتے ہیں۔۔۔جو لاہور کے تین بڑے ہسپتالوں کے سالانہ بجٹ کے برابر ہیں۔۔٢٦٠٦کنالوں پر مشتمل رہائش گاہوں کی نگہداشت کے لیئے ٣٠٠٠٠ ڈاریکٹ اور ان ڈاریکٹ ملازمین ہیں۔۔۔صرف ان کے لانوں پر ١٨ سے ٢٠ کروڑ سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔۔۔ایک سرکاری اندازے کے مطابق یہ تتمام رہائش گاہیں شہروں کے اُن مرکزی علاقوں میں ہیں جہاں زمین کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔۔۔لہذا آگر یہ تمام رہائش گاہیں بیچ دی جائیں ۔۔۔یا انہیں بھی عوامی فوائد کے لیئے مختص کر دیں تو۔۔۔٧٠ سے ٨٠ ارب حاصل ہو سکتے ہیں۔۔۔یہ رقم واپڈا کے مجموئی خسارے سے دوگنی ہے۔۔۔واپڈا کو چار سال تک بجلی کی قیمت بڑھانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔۔۔اگر یہ رقم ہائی وے کو دے دی جائے تو وئہ موٹر وے جیسی دو سڑکیںاور کراچی سے پشاور تک نیشنل ہائی وے جیسی مزید ایک سڑک بنائی جا سکتی ہے۔۔۔اگر یہ رقم محکمہ صحت کے حوالے کر دی جائے تو یہ محکمہ پاکستان میں پاکستان انسٹیٹیوٹ اف میڈیکل سائنسز جیسے ٧٠ ہسپتال بنا سکتا ہے۔۔۔اگر یہ رقم وارسا کے حوالے کر دی جائے تو وئہ اس رقم سے سمندرکا پانی صاف کرنے کے١٢ پلانٹ لگا سکتا ہے۔ جس سے ملک کے ٤٥ فیصد لوگوں کو پینے کا پانی مل سکتا ہے۔۔۔دنیا بھر میں سرکاری رہائش گاہیں سکڑ رہی ہیں۔۔۔

آپ برطانیہ چلے جائیں اپ کو ١٠ ڈاوئنگ اسٹریٹ وزیراعظم سے لیکر چیف کمشنر تک اور ڈپٹی سیکرٹری سے ڈپٹی وزیر اعظم تک سب افسر اور عہدیدار دو دو تین تین کمروں کے فلیٹس میں رہتے دکھائی دیں گے ۔۔۔آپ امریکہ چلے جائیں وہائیٹ ہاوس دیکھیں،صدارتی محل پنجاب کے گورنر ہاوس سے چھوٹا ہے۔۔۔جاپان میں تو وزیراعظم ہاوس سرے سے ہے ہی نہیں۔۔۔یہ بڑی بڑی مملکتوں کے سربراہان کی صورتحال ہے۔۔۔رہے سرکاری ملازم بیوروکریٹ،اعلی افسر اور عہدیداران۔۔۔اپ پورا یورپ پھریں اپ کو یہ لوگ۔۔۔عام بستیوں کے عام فلیٹوں میں عام شہریوں کی طرح رہتے نظر آئیں گے۔۔۔ان کے گھروں میں لان ہوں گے ڈرائیو وے اور نہ ہی لمبے چوڑے نوکر۔۔۔لیکن یہاں اپ ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا دورہ کرلیں۔اپ کو تمام بڑی عمارتوں۔۔۔تمام بڑے محلات میں ضلع کے خادمین فروکش نظر آئیں گے۔۔۔ خلقتِ خدا مر رہی ہے۔۔۔اور ان کے افسرٹیکسوں کی کمائی پر پلنے والے باغوں میں جھولے ڈال کر بیٹھے ہیں۔۔۔ کیونکہ اپ نے خود شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔تو مجھے امید ہے کہ ان صاحبان کو بھی اعتراض کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیئے۔۔۔امید کرتا ہوںکہ نیا پاکستان سب کے لیے بر ابر اور عوام دوست ہوگا۔

شکریہ منجانب
رہائشی نیا پاکستان
پیر سید محمد ضیاالحق ہمدانی
مندرجہ بالا تفصیلات جناب مشتاق عباسی کی تحقیق سے لی گئی ہیں۔

M.Farooq Khan

M.Farooq Khan

تحریر: محمد فاروق خان