تحریر: شہزاد سلیم عباسی ایک نجی ٹی وی چینل میں تقریباََ پچھلے دو ماہ سے قوم کی بیٹی مریم نواز کیلئے سکولوں کی عدم دستیابی اورخستہ حالی سے متعلق سٹوری چلائی جارہی ہے جسمیں پاکستان بھر کے ریموٹ علاقوں سے کلی طور پر سکولوں سے محروم بچے یا سکولو ں کی بنیادی سہولیات سے محروم بچے مریم نواز کو پیار بھرے انداز میں کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک بھر کے طلبہ کی ایک آواز ۔ ہماری بھی حالت سنوارو مریم نواز!دوسری طرف زرداری صاحب کی بیٹیاں اپنی پالتوں بلیوں کو نئے ماڈل کی مہنگی گاڑیوں میں ڈال کر مہنگے ترین ہسپتالوں میں بڑے ڈاکٹروں کی ٹیم کے زیرِنگرانی چیک کرانے لے جاتیں ہیں جبکہ راستے میں انسانی بچے گدھ اور آوارہ جانوروں کیطرح گندھ میں ہاتھ اور منہ ڈال ڈال کر خوراک کی تلاش میں سرکرداں نظر آتے ہیں ، یہی حال باقی پارٹیوں کے فیوڈلز کا بھی ہے۔خیر میکی لیکس، پیکی لیکس ،وکی لیکس کے بعد حاضر ہے پانامہ لیکس کا 1کروڑ 15 لاکھ دستاویزات کا نیا شوشہ،12 ریاستی سربراہان مملکت سمیت 140 ہم شخصیات کا سکینڈل،500 افراد کے 200 کھرب ڈالر اور 70 فیصد خفیہ معاشی سرگرمیاں، اس پر دنیا بھر کے طاقتور لوگوں کا کچا چھٹا ، ہمارے بے ضمیر حکمرانوں کا رچایا ڈراما اور عمران خان صاحب کی پوائنٹ سکورنگ، پیپلز پارٹی کی دُکھتی رگ یعنی مفاہمتی پالیسی، پیپلز پارٹی کے پانامہ لیکس پر متضاد بیانات ،مولانا فضل الرحمان کا حکومتی ایوانوں میں چمٹے رہنے کا خواب اور اس پر ڈھٹائی سے جمے رہنے کا راگ اور سراج الحق کے لیے صحیح وقت پر صحیح وار کا وقت آن پہنچا ہے۔
پانامہ لیکس میں الزاما ت کی بوچھاڑ کی زد میں آنے والے روس کے صدر کو تحقیقات کا سامناکرنا پڑھ رہا ہے ،بھارتی صدر نریندر مودی نے500 لوگوں کے خلاف تحقیقات کاحکم دیا ۔ڈیوڈ کمیرون نے پاکستان میں کرپشن کے اعتبارسے صر ف ایک یوسی لیول کے بندے جتنی کرپشن کی اور اپنے باپ کی آف شور کمپنی کا چالیس لاکھ روپے کا ٹیکس معاف کرایا تو اسکے خلاف تحقیقات کے دروازے کھل گئے ، ایوان میں چکر لگا لگا کر بیچارا خود کو بے گناہ ثابت کر رہا ہے ۔لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ حکومت نے پانامہ لیکس سامنے آنے پر پہلے تو الزامات کو یکسر مسترد کر دیا ، میڈیا اور عوام کے شور پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا کہا اور اسکا اختیار سمدھی کو دے دیا۔عمران خان کہتے ہیں کہ نوازشریف صاحب نے کس قانون کے تحت آف شور کمپنیاں کھولیں ؟ان میں سرمایہ کاری کتنی کی اور کہاں سے آئی؟ عمران خان نے نواز شریف پر چار بڑے الزامات لگائے منی لانڈرنگ، کرپشن، ٹیکس معاف کرانااوراثاثے ظاہر نہ کرنا وغیرہ۔ عمران خان کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میںروزانہ کی بنیاد پر 12 ارب روپے اور سالانہ 450 ارب روپے کرپشن ہو رہی ہے ۔جبکہ پاکستانی قوم روزانہ 6 ارب روپے اورسالانہ 21 ہزار ارب روپے کے قرضے تلے دبتی جارہی ہے اور نواز شریف کے بیٹوں کے دبئی میں 23 ارب کے ٹاوز ہیں جبکہ صرف دبئی کے اندر پاکستانی مگرمچھوں اور ٹیکس چوروں نے 750 ارب ڈالر انوسٹ کر رکھے ہیں۔یہ سب الزامات سراج الحق نے بھی لگائے ہیں اور سراج الحق کرپشن کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی کرپشن پر رپورٹ بھی شائع کرچکے ہیں اور سراج الحق نے پچھلے دنوں اپنے کالم میں اسی طرح کے بے شمار فگرز دیے ہیں۔
Imran Khan
عمران خان چونکہ پارٹی لیڈر ہیںجو کہ خیبر پختواہ میں2013 کے جنرل انتخابات میں35 فیصد ووٹ لیکر اکثریتی جماعت کے ہیرو کے طور پر سامنے آئے اگرچے ضمنی انتخابات میں 20 فیصد ووٹ بھی نہ لے سکے ۔حکومتی یاسرکاری لیڈر نہ ہونے کیوجہ سے انہیں پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کی اجازت نہیں ملی۔ ویسے یہ کافی مضحکہ خیز بات تھی جو عمران صاحب نے کی کہ مجھے پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کی اجازت دے جائے ۔ عمران خان نے کہا کہ میری تقریر کو برائے راست نشر نہ کر کے حکومت نے اپنی بد نیتی کا بھانڈا پھوڑا ہے۔خیر بعض میڈیا کے دوستوں نے بھی عمران خان کے سرکاری ٹی وی پر خطاب کی نہ صرف ببانگ دہل حمایت کی بلکہ دیوانگی میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ یہاں تک کہہ ڈالا کہ ہر پاکستانی شہری 35 روپے ٹی وی فیس ادا کرتا ہے اس لیے ہر شہری پی ٹی وی کا اسٹیک ہولڈر ہے اس لئے اگر عمران خان بھی اگر چاہیں تو انہیں پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کی اجازت ہونی چاہیے ۔ وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے ہم سب کو اجازت دینا شروع کردیںتو پھر 400 کے قریب ممبروں کو بھی اجازت دینا ہو گی ۔
خان صاحب نے 10 اپریل کو 6 بجے بنی گالہ میں قوم سے خطاب کیا ، انہوں نے کہا کہ اب قوم فیصلہ کن وقت “Defining Moment پر کھڑی ہے ، اب قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ ظالم کے ہاتھ مضبو ط کرنے ہیں یا مظلوم کا ساتھ دینا ہے ؟غریب ، مفلوک الحال لوگوں کے مسائل حل کرنے والوں کو سپورٹ کرنا ہے یا مردہ ضمیر اشرافیہ کا ساتھ دینا ہے ؟لیڈ مافیا ، چائنہ کٹنگ، بینک ڈیفالٹرز، ٹیکس چوروں، انسان نما بھیڑیوں ، ہر قسم کے جرائم پر پردہ ڈالنے والوں اور امریکہ اور بھارت کے سامنے ملکی و قومی سلامتی کی پالیسیوں کو دائو پر لگانے والوں کا ساتھ دینا ہے یا غیریب پرور ، بے سہارا و بے آسرا عوام کے مال کا تحفظ کرنے والوں ، ملک وقوم کو خود پر فوقیت دینے والوں ، اور انسانیت نواز لوگوں کا ساتھ دینا ہے ؟عمران خان نے چوہدری نثار صاحب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ اور بول کے روح رواں شعیب شیخ کو تو حکومتی اداروں نیب اور ایف آئی اے نے گھنٹوں میں اٹھا لیا اور انکا تما م کاروبار منٹوں میں زمین بوس کر دیا لیکن چوہدری صاحب نے نوازشریف فیملی کے خلاف پانامہ سکینڈل پر ایک لفظ تک نہیں بولا ؟عمران خان نے کہا کہ میرے مطابق پاکستان سے اگر میرٹ پر ٹیکس اکٹھا کرنے کا عمل اور کرپٹ لوگوں کو پکڑے کا مسئلہ شفافیت پر مبنی ہو جائے تو ہمارے ملک کا مستقبل روشن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ججز یا من پسند افراد سے عدالتی تحقیقات کرا نے سے کام نہیں چلے گا بلکہ شعیب سڈل یا چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کی سربراہی کریں تو قبول ہے ۔یہی تمام باتیں سراج الحق بھی مختلف جلسوں ، پروگراموں اور ریلیوں میں عوام الناس سے خطاب کے دوران کر رہے ہیں ۔
Sirajul-Haq AND Imran-Khan
عمران خان کہتے ہیں کہ ہم اب کرپشن کے خلاف ڈی چوک اور ضرورت پڑھنے پر رائیونڈ کا گھیرائو کرینگے اوردمادم مست قلندر کرینگے۔ دوسری طرف سراج الحق نے بھی کرپشن کے خلاف پاکستان بھر میں پچھلے دو ماہ سے کرپشن فری پاکستان مہم شروع کر رکھی ہے انکا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ٹیکس کا نظام بہتربنایا جائے ، باہر کے بینکوں میں پڑا پیسا واپس لایا جائے اور جو قانون مظلوم کے لیے ہے وہی ظالم کے لئے بھی ہو۔ اب عمران خا ن اور سراج الحق دونوں کے صبر کاپیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور انہوں نے پانامہ لیکس پرنواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کر کر خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کا مشور ہ دیا ہے ۔ اگر سراج الحق اور عمران خان کے مطالبات ایک جیسے ہیں تو دونوں سوچ سمجھ کے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیوں نہیں کر پا رہے جبکہ یہ ان دونوں کے پاس آخری چانس ہے ۔
عمران خان جو کہ سراج الحق کی ہر چیز کو کاپی کرنے کے ماہر ہیںکو خیبر پی کے اور دوسرے صوبوں میں بھی جماعت اسلامی سے سیٹ ٹو سیٹ اتحا د کی بات چلانی چاہیے۔ ویسے بھی نواز زرداری اور عمران سراج کی مفاہمت خوب جچتی ہے۔ میرے خیال میں عمران خا ن کو اب اسٹیبلشمنٹ یا کسی غیر مرئی قوت کو اپنی پارٹی سے کھلواڑ کا موقع نہیں دینا چاہیے اور سراج الحق کو بھی ادھر ادھر کی نہیں مارنی چاہیے بلکہ جے یو آئی (ف) سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ایسا ممکن نہ ہوا تو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بری طرح پٹ جائیں گی اور طفلِ مکتب اور پرانے گروں ہی فائدے اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔تاریخ بتاتی ہے کہ عمران خان ،سراج الحق کو ساتھ ملا کے چلے تو حکومت کا باآسانی دھڑام تختہ کر سکتی ہے ۔بہرحال عقلمندی دونوں پارٹیوں کیطرف سے یہ ہوگی کہ اپنے صوبے میںکارگردگی کو بہتر بنائیں کیونکہ بقول مولانا فضل الرحمان کہ کئی لیکس آئیں اور چلی گئیں تو یہ پانامہ بھی اُڑن شو ہو جائے گی ۔