پاکستان کے خلاف ممکنہ رد عمل میں احتیاط سے کام لیا جائے

Car Bomb Blast in Kashmir

Car Bomb Blast in Kashmir

ممبئی (جیوڈیسک) بھارت کے ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل نے پلوامہ حملے کے رد عمل میں پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کے رد عمل میں احتیاط برتنے کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے مصالحت کی راہ اختیار کی جائے۔

بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرچہ پاکستان کے خلاف کسی نہ کسی قسم کی فوجی کارروائی کے اس وقت امکانات کافی زیادہ ہیں تاہم وہ امید کرتے ہیں کہ کشمیری تنازعے سے منسلک تمام فریقین سوچ بچار کے ساتھ اور مصالحت سے کام لیں۔

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا پاکستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی علاقے کے قریب بھارتی فوج کی شمالی کمان اور اس علاقے میں انسداد دہشت گردی کے آپریشنز سنبھالتے تھے۔ یہ وہی جنرل ہیں، جنہوں نے لائن آف کنٹرول کے پاس اڑی کے علاقے میں ایک حملے میں انیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ستمبر سن 2016 میں پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیکس کرنے کا دعویی کیا تھا۔

کمانڈر ڈی ایس ہودا نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی جب بھارتی زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے علاقے میں اسی ہفتے ہونے والے ایک حملے کے بعد روایتی حریف ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک میں ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بھارت، پاکستان کے خلاف ممکنہ کارروائی پر غور کر رہا ہے۔

ایک کشمیری لڑکے نے جمعرات چودہ فروری کو بارود سے لدی ایک وین بھارتی نیم فوجی دستوں کے ایک قافلے سے جا ٹکرائی۔ اس حملے میں اکتالیس فوجی ہلاک و درجنوں دیگر زخمی ہو گئے اور اسے کشمیر میں بھارتی فوج پر ہونے والا اب تک کا سب سے خونریزا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ نئی دہلی حکومت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے جبکہ اسلام آباد حکومت نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس سے ہفتے کے روز بات چیت کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ریٹائرڈ جنرل ڈی ایس ہودا نے کہا، کشمیر میں حالات دیکھتے ہوئے مجھے اس دھماکے پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ ان کے بقول وہ امید کرتے ہیں کہ اس حملے کے بعد گہری سوچ بچار کے ساتھ تمام حقائق کا جائزہ لیا جائے اور اس پر غور کیا جائے کہ کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔

بھارتی زیر اتظام کشمیر میں عوامی سطح پر کافی مقبول ایک علیحدگی پسند رہنما کی سن 2016 ہلاکت کے بعد جب عوام میں خاصی برہمی پائی جاتی تھی، اس وقت کمانڈر ڈی ایس ہودا نے تمام فریقین پر زور دیا تھا کہ تصادم کی راہ سے ہٹ کر اس مسئلے کا سیاسی سطح پر حل تلاش کیا جائے۔ یہ کسی اعلی سطحی فوجی کمانڈر کی جانب سے ایک انتہائی غیر معمولی بیان تھا۔ بعد ازاں اڑی میں علیحدگی پسندوں کے حملے کے بعد ہودا نے ہی اس آپریشن کی نگرانی کی تھی، جس میں نئی دہلی حکومت دعوی کرتی ہے کہ پاکستان میں داخل ہو کر سرجیکل اسٹرئیکس کی گئیں جبکہ اسلام آباد حکومت ایسے دعوے مسترد کرتی ہے۔