23 مارچ کو ہم نے ”یومِ پاکستان”بھرپور قومی جوش وجذبے سے منایا۔ برادر اسلامی ملک ملائیشیا کے وزیرِاعظم مہاتیر محمد یومِ پاکستان کی مرکزی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے ۔ یہ دِن زیادہ جوش وجذبے سے منانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم نے تازہ تازہ بھارت کی ریشہ دوانیوں کا مُنہ توڑ جواب دے کر اُسے یہ پیغام دے دیا کہ ہم تیار ہیں، امن کے لیے اور جنگ کے لیے بھی۔ ہماری بہادر افواج جذبۂ شوقِ شہادت سے سرشار، مادرِوطن کی آبرو پر کَٹ مرنے کو تیار۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی بھارت نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا، پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ 26 فروری کوجب بھارت نے پلوانا حملے کا بہانہ بنا کر پاکستان میں دَراندازی کی مذموم کوشش کی تو ہماری بہادر افواج نے 28 فروری کواُسے نہ صرف مُنہ توڑ جواب دیا بلکہ اُس کے 2 مِگ 21 بھی مار گرائے۔ اِس جوابی حملے سے بھارت پر عیاں ہوگیا کہ پاکستان اینٹ کا جواب پتھر سے دے گا۔ اِس لیے اُس کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اِس جواب سے اقوامِ عالم پر بھی عیاں ہو گیا کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا نہ صرف جواب دے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ دونوں ممالک ایٹمی تصادم پر اتر آئیں۔ اِسی لیے بھارت کو ”ہلاشیری” دینے والے ممالک بھی امن کی فاختائیں اُڑانے لگے کیونکہ سبھی جانتے تھے کہ اگر پاک بھارت ایٹمی جنگ چھِڑ گئی تو دنیا کی ستّر فیصد سے زائد آبادی ملیامیٹ ہو جائے گی۔
یہ وہ وقت تھا جب حکومت اور اپوزیشن باہم شیروشکر اور ایک صفحے پر۔ پوری قوم اِس جذبے سے سرشار کہ ”اے دشمنِ دیں تو نے کِس قوم کو للکارا، لے ہم بھی ہیں صف آرا”۔ لیکن جونہی کچھ سکون ملا، ہم اپنی پرانی ڈگر پہ لوٹ آئے اور اب ”وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے”۔ دونوں طرف سے الزامات کی بارش اور چور چور، ڈاکو ڈاکو کی للکار۔ احتساب کے نام پر انتقام کی بُو چاروں طرف پھیل چکی۔ کپتان نے کہا کہ وہ مودی سے تو بات کر سکتے ہیںلیکن کرپشن کرنے والوں سے نہیں۔ یہ الگ بات کہ سپریم کورٹ جسے مسلمہ کرپٹ قرار دے چکی، وہ کپتان کی کابینہ کے اجلاس میں بیٹھا نظر آیا۔ سیانے کہتے ہیں کہ گھر کی بات گھر میں رہے تو اچھا، باہر نکل جائے تو بدنامی، محض بدنامی لیکن ہمارے وزیرِاعظم ملک میں ہوں یا بیرونی ممالک کے دورے پر، ہر جگہ ملکی کرپشن کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسٔلہ کرپشن ہے اور جب تک کرپشن کرنے والوں کو نشانِ عبرت نہیں بنایا جاتا، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ بجا! مگر چین کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن جس تیزی سے چین نے ترقی کی منازل طے کیںاُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
کرپشن ملکی ترقی کی راہ کی ایک رکاوٹ ضرور مگر کئی بڑی رکاوٹیں اور بھی۔ دراصل عمران خاں نے عام انتخابات سے پہلے کرپشن کا جو بیانیہ قوم کے سامنے رکھا، وہ بہت مقبول ہوا اور اِسی بیانیے کی مقبولیت نے خاں صاحب کو مسندِ اقتدار تک پہنچایا (اِس بیانیے کو مقتدر حلقوںمیں بھی پذیرائی ملی)۔ یہی بیانیہ لے کر عمران خاں اب بھی چل رہے ہیں حالانکہ اب وہ اِس مملکتِ خُداداد کے وزیرِاعظم ہیں۔ شاید اُنہیں یاد ہی نہیں کہ اب وہ اپوزیشن لیڈر نہیں، وزیرِاعظم ہیں، جس کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کپتان اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے لیکن ساتھ لے کر چلنا تو دور کی بات وہ تو اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں۔ کپتان اور حواریوں کا یہی رویہ اندرونی خلفشار میں روزبروز اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یہی اندرونی خلفشار ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ، جس کا الزام خود تحریکِ انصاف پر آتا ہے۔ وزیرِاعظم صاحب کہتے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کی چیخیں تو نکلیں گی۔ جب وہ تھَر کے دورے پر گئے تو فرمایا ”اب سندھ سے بھی چیخیں آنا شروع ہو گئی ہیں”۔ خاں صاحب کے ایسے ہی بیانات ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، صرف کرپشن نہیں۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ قابلِ تحسین ہرگز نہیں۔ رَبّ ِ لَم یَزل نے تو ارضِ وطن کو معدنی دولت سے مالامال کر رکھا ہے، صرف ”تھَرکول” میں اتنی توانائی جو سعودی عرب اور عراق کے تیل کی مجموعی توانائی سے بھی زیادہ لیکن قائد کی جیب کے کھوٹے سکّوںنے ستّر سالوں میں اِس کا یہ حال کر دیا کہ ہم کشکولِ گدائی لیے دَردَر کے بھکاری۔ کہنے کو تو وزیرِاعظم عمران خاں نے کہہ دیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے تو بہتر ہے خودکشی لیکن پھر اُسی آئی ایم ایف کی منتیں اور ترلے۔ اب قوم کو آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔
حقیقت یہی کہ یہاں جو بھی آیااُس کی اپنی ڈفلی اپنا راگ۔ چھتیس سالہ دَورِآمریت سے اگر قوم کا بھلا نہیں ہوا تو جمہوری ناخداؤں نے بھی مجبوروں کی راہ کے کانٹے نہیں چُنے۔ ہر کسی نے حصولِ اقتدار ہی کی تگ ودَورکی۔ اِس کشمکش میں قوم کا کتنا بھلا ہوا، سب کے سامنے۔ پرویز مشرف کے 10 سالہ دَورِآمریت کو نکال کر 1988ء سے 2018ء تک پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کی حکومت رہی۔ اِس پورے دَور میں دونوں سیاسی جماعتیں باہم دست وگریباں، ایک دوسرے کو سکیورٹی رِسک قرار دیتی رہیں۔ مشرف کے دَورِآمریت میں دونوں جماعتوں کے مابین ”میثاقِ جمہوریت” ہوا جو ”مذاقِ جمہوریت بن کے رہ گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اِدھر میثاقِ جمہوریت کیا اور اُدھر پرویزمشرف کے ساتھ این آر او کی ڈیل بھی کر لی۔ محترمہ کی شہادت کے بعد آصف زرداری پیپلزپارٹی کے کرتادھرتا بنے۔ محترمہ کی شہادت پر نوازلیگ نے تو عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا لیکن آصف زرداری نے مخدوم امین فہیم کے ذریعے پرویزمشرف سے ڈیل کرکے عام انتخابات میں حصّہ لینے کا عندیہ دے دیا جس پر نوازلیگ کو بھی مجبوراََ انتخابات میں حصّہ لینا پڑا البتہ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف انتخابات سے باہر رہیں۔ 2008ء کے عام انتخابات میں اقتدار کا ہما پیپلزپارٹی کے سَرپر بیٹھا۔ دوسری بڑی سیاسی جماعت نوازلیگ بھی عدلیہ بحالی کی شرط پر حکومت کا حصّہ بنی۔ ایوانِ صدارت کے مکین بننے کے بعد آصف زرداری نے عدلیہ بحالی پر لیت ولعل سے کام لینا شروع کیا تو نوازلیگ حکومت سے الگ ہوگئی۔ پھر 2013ء کے عام انتخابات تک دونوں جماعتیں جوتم پیزار رہیں۔ بلاشبہ اِس باہمی چپقلش کا فائدہ تحریکِ انصاف نے اُٹھایا اور عمران خاں قومی لیڈر کے روپ میں سامنے آئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف نہ صرف تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری بلکہ اُسے خیبرپختونخوا کا حقِ حکمرانی بھی مل گیا لیکن کپتان کو یہ منظور نہ تھا۔
بجائے اِس کے کہ عمران خاں خیبرپختونخوا کو مثالی صوبہ بنا کر قوم ک سامنے پیش کرتے اُنہوں نے سڑکوں پر نکلنے کی ٹھانی۔ سب کچھ نظروں کے سامنے تھا، ہر کَس وناقص پر عیاں مگر سونامی کی پیداوار ”یوتھیوں” پر نہیں۔ اُنہیں وہی لیڈر پسند تھا جو اُن کے لیے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام کرے اور اُنہیں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرے۔ صرف ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں” سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک اعمال اُس کی گواہی نہ دیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے اعمال اُس کے اقوال کی ہرگز گواہی نہیں دیتے۔اُس کا ڈی چوک اسلام آباد پر دھرنا گواہ کہ نیت کچھ اور تھی۔ ڈی چوک کے دھرنے میں ”کزنز” (عمران خاںاور مولانا طاہرالقادری) نے باہم مل کر جو اودھم مچایا، وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ کوئی مورّخ یہ نہیں بھول سکتا کہ موجودہ وزیرِاعظم عمران خاں نے ڈی چوک اسلام آباد میں ”سول نافرمانی” کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایسا اعلانِ بغاوت تھا جس کا جواب کپتان کو کبھی نہ کبھی دینا ہوگا کیونکہ یہ جواب اُن پر قرض ہے۔ ابھی تک تو اقتدار کے ”اصل” ایوانوں” میں ”مائنس ٹو” پر عمل ہو رہا ہے لیکن جب ”مائنس تھری” پر عمل درآمد کی باری آئے گی تو ماضی کی سب فائلیں کھُل جائیں گی اور ”حساب کتاب” شروع ہو جائے گا۔ تب پنچھی پھُر سے اُڑ جائیں گے اور کچھ پنچھی تو ایسے بھی ہوںگے جن کے بارے میں کپتان یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی