تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری بنگلہ دیش بننے اوربنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمن کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اسی کی تابعدار فوجوں میں سے ایک میجر اٹھا اور فوجی ٹینک مجیب کی رہائش گاہ پر چڑ ھا ڈالا۔مجیب اوراس کے تمام موجود عزیز و اقارب کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا اس کی لاش کئی روز تک سیڑھیوں پر اوندھی پڑی گلتی سڑتی رہی۔بھلا اس میں ہم پاکستانیوں یا بنگلہ دیشیوں کا کیا قصور ہے؟ اب مجیب کی بیٹی اقتدار میں آکر دوبارہ بھارتی آقائوں سے پینگھیں بڑ ھا رہی ہے۔اور اس نے وہاں کے محب وطن بنگالیوں کا ناک میں دم ہی نہیں کررکھا بلکہ انھیں پاکستانی افواج کی مدد کرنے کے جرم میں چن چن کر خود ساختہ ٹریبو نل کے ذریعے پھانسیوں کے گھاٹ تک پہنچا رہی ہے۔
ہمار ا ملک دولخت ہوا توبنگلہ دیش 1971میں بنا۔اب تقریباً چالیس سال بعد 2010میں حسینہ واجد نے جنگی جرائم کی تفتیش و تحقیق کرنے اور اس کے نام نہاد مجرموں کو سزائیں دینے کے لیے خصوصی ٹریبونل بنادیا جس کی کوئی اخلاقی ،قانونی،آئینی حیثیت نہ ہے اوردنیا کی با ضمیر اقوام نے کبھی اسے پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا۔حالانکہ 1974میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا تھاکہ1971 میں تمام رو نما ہونے والے واقعات کے بارے میں افہام و تفہیم سے کام لیا جائے گا۔اس دور کی دکھ بھری داستانوں کی پردہ پوشی کی جائے گی۔ اور پرانا پنڈورا باکس نہ کھولنے کا عہد کیا گیا تھا۔
مگر چونکہ ہندوستانی راء اور مکتی باہنی نے ملکر پاکستانی سپاہ کے خلاف1971میں جنگ لڑی تھی۔(حالانکہ مجیب اس وقت مغربی پاکستان کی جیل میں بندتھا) اس لیے 45سالہ پرانے بدلے چکانے کے لیے پھر نام نہاد ٹریبونلز کے ذریعے اس وقت کے قربانیاں دینے والے پاکستانی حب الوطنوں کو مزا چکھا نے کے لیے پھانسیوں پر لٹکایا جارہا ہے ۔حال ہی میں مطیع الرحمٰن نظامی کو پھانسی دینے جانے کے خلاف کی گئی اپیل بھی مسترد کرڈالی ہے اور اب کسی بھی وقت انھیں پھانسی پر لٹکایا جائے گا اور وہ شہادت پاکر امر ہو جائیں گے۔ اب دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ،اسلامی ممالک لاکھ اپیلیں کریں مجیب کی بیٹی ہٹ دھرمی کی آخری حدیں بھی پھلانگ چکی ہے ۔ اور وہ سا بق مشرقی پاکستان ( حال بنگلہ دیش ) کے مظلوم راہنمائوں کی طرح اس پھانسی پر بھی عمل در آمد جلد از جلد کرنا چاہتی ہے۔
Jamaat e Islami
چونکہ وہ ان کی حکمرانی کے آگے روڑے اٹکانے والے گروہ جماعت اسلامی کے قائد ہیں۔مجیب کو اگر تلا سازش کیس کے تحت ایوبی دور میں پکڑا گیا تھا اور اس میں واقعی سازشی عناصر ملک دشمن کاروائیوں کے مرتکب ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ سازش بے نقاب ہوگئی اور مجیب سمیت دیگر افراد دھرلیے گئے تھے ۔مگر ہمارے سیاسی راہنمائوں نے جب ایوب حکومت سے گو ل میز کانفرنس کی تو مجیب کوچھوڑنا بھی ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی(ڈیک) کے مطالبات میں شامل تھا۔ایوب خان کو بہت ناگوار گزرا اور اس نے ان راہنمائوں کویہ بھی بتادیا کہ آ پ ایک سنپولیے کوچھڑوارہے ہیں جس پر جرم بھی ثابت ہو چکا ہے اور یہ کہ مجیب اژدھا بن کر آپ کے ملک کی سا لمیت پر لازماً حملہ آور ہو کراسے بھاری نقصان پہنچائے گا ۔مگر ہمارے لیڈران کرام اپوزیشنی جذبات سے مغلوب تھے اور اسے چھڑوا بیٹھے۔
بعد میں ایوب خان کی رائے کے عین مطابق اسی مجیب نے1970 کے انتخاب میں چھ نکات پیش کرڈالے۔جو کہ واضح طور پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوتے تھے۔آج بھی1971کی جنگ کے بعد سے ہزاروں محب وطن بہاری ایسے کیمپوں میں زندگیاں گزارنے میں مجبور ہیں جہاں پر بنیادی انسانی سہولتوں کا مکمل فقدان ہے۔جرم ان کا یہ ہے کہ وہ حب الوطنی سے سرشار پاکستانی افواج کا ساتھ دیتے رہے تھے۔
جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیموں البدر ،الشمس اور اسلامی جمعیت طلباء کے سرفروشوں کا کردار تو کسی صورت بھی جھٹلایا اور بھلایا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے تک ہندوستانی افواج ،راء اور مکتی باہنی سے برسر پیکار ر ہے وہ تو98ہزار فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی پاکستانی دشمنوں کے خلاف جہاں بھی ممکن ہوا دست پنجہ رہے۔تقریباً سبھی شہادتیں پاگئے مگر آخری سانس تک ہتھیار نہ ڈال کر پاکستانی پرچم کو سر بلند رکھا ۔ آج دنیا جو کچھ بھی کہتی ہے۔
Pakistan and Bangladesh
مگر1971میں پاکستان کو توڑنے کی سازش کو ناکام بنانے میں ان کی جدوجہد عظیم اور ان کا کردار مثالی تھا۔مشرقی پاکستان کی سرزمین کا چپہ چپہ ان کے مجاہدانہ خون سے رنگین ہوا۔ آج وقت آن پہنچا ہے کہ پورا عالم اسلام اور اس کے راہنما بنگلہ دیشی وزیر اعظم پر دبائو ڈال کراسے روکیں کہ وہ مخالفین کے ساتھ یہ پھانسی پھانسی کا مکروہ کھیل بند کردیں ۔اس نے توقبل ازیں ملک کے کئی ممبران ا سمبلی اور وزراء تک کوپھانسیوں پر لٹکا ڈالا ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہی نہیں بلکہ1974کے دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ کی سراسر خلاف ورزی بھی ہے ۔بھٹو صاحب اگر1971 میں مشرقی پاکستانی مسلمان بھائیوں اور ان کے اسلامی ملک بنگلہ دیش سے ہمدردی نہ رکھتے ہوتے تو مجیب الرحمٰن کو کیوں رہا کردیتے۔
ہماری حکومت نے تو ان کے قائد تک کو جیل سے باحفاظت نکال کرڈھاکہ بھجوایا تھا مگر آج اس کی بیٹی قتل و غارت گری اور پھانسیوں کے گھاٹ کھولے بیٹھی ہے ۔انسانی ضمیر کب جاگے گا اور یہ جو حشر بر پا کردیا گیا ہے وہ کب اور کیسے ختم بالخیر ہوگا بہر حال یہ تو واضح ہے ہی کہ جس زمین پرباضمیر انسانوں کا خون اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے بہہ جائے وہاں سیکولر مقتدر حکمرانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور محمد عربیۖ کے غلاموں کی حکومت قائم ہو کر رہتی ہے۔
انشاء اللہ۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ اخوان المسلمون کے راہنما شہادتیں پاتے گئے بالآخر انہی اسلامی ممالک میں بادشا ہتیں اور آمریتیں تخت و تاراج ہو گئیں اورا خوان ہی حکمران بنے کہ قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔