تحریر: سالار سلیمان کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلیٹی (سی ایس آر) کو کارپوریٹ سماجی ذمہ داری بھی کہتے ہیں۔ اکیسوی صدی میں کاروباری اداروں کی وضع بیسوی صدی کے کاروباری اداروں سے کافی مختلف ہے ۔ آج بہت سے مستحکم کاروباری ادارے سی ایس آر کی سرگرمیوں کے ذریعے سے معاشرتی فلاح کی سرگرمیاں کرتے ہیں ۔ ایسی سرگرمیوں سے ناصرف معاشرے میں اُن اداروں کی مثبت تصویر سامنے آتی ہے بلکہ دیگر اداروں میں بھی ایسی سرگرمیاں کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اس کا اختتامی نتیجہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کی صورت میں برآمد ہوتاہے ۔مختلف ادارے مختلف ہی طریقوں کے ساتھ ایسی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں اور یہ سرگرمیاں اُن کے اپنے تجربے اور سوچ پر منحصر ہوتی ہیں تاہم بعض اوقات اُن میں قدر مشترک بھی ہوتی ہے پاکستان میں بھی بڑی کمپنیاں وقتاً فوقتاً ایسی سرگرمیاں منعقد کرتی ہیں اور بعض اوقات دو یا تین بڑی کمپنیاں مل کر ایسی کوئی سرگرمی کرتی ہیں جس سے معاشرے میں موجود ایسے طبقے کو فائدہ حاصل ہوتا ہے جو کہ عام حالات میں اُس فائدے کو حاصل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتاہے ۔ عموماً اس قسم کی سرگرمیاں رمضان المبارک کے مہینوں میں دیکھنے میں آتی ہیں۔
یونی لیور پاکستان اس حوالے سے خاصی پہچانی جاتی ہے ۔یہ کمپنی عرصہ دراز سے پاکستان میں کاروبار کر رہی ہے اور سی ایس آر کی سرگرمیاں بھی کرتی ہے ۔ ابھی حال ہی میں ڈبلیو ڈبلیو ایف( پاکستان ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر ) اور یونی لیور پاکستان کی جانب سے کراچی میں دو ہزار درخت لگائے گئے تھے جس کا مقصد عوام الناس میں اس شعور کی آگاہی تھا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ایک حد میں رکھنے کا بہترین عمل شجر کاری ہے۔ درجہ حرارت کا بڑھنا ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کیلئے ترقی یافتہ ممالک سنجیدگی سے سوچ بھی رہے ہیں اور اپنی سطح پر کام بھی کر رہے ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا کا درجہ حرارت جس تیزی سے بڑھ رہا ہے’ وہ بنیادی طور پر زمین کیلئے فائدہ مند نہیں ہے اور اس کا توازن خراب کر رہا ہے ۔ پاکستان بھی اُن خطوں میں شامل ہے جہاں پر موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے ۔ یونی لیور پاکستان ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کے ساتھ بھی کام کر رہا ہے جس کا مقصدکراچی کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے حوالے سے بذریعہ شجر کاری اُس کا حل تلاش کرنا ہے ۔
Unilever Pakistan
یونی لیور پاکستان کی جانب سے ‘سسٹین ایبل لیونگ پلان ‘ کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے ۔ اس منصوبے کے مطابق کمپنی اپنے نتائج 2020ء تک حاصل کرے گی ۔اس منصوبے کامقصد دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع بڑھانا’ گرین ہاوس گیس کی کمی’ پانی کی بچت اور ا سکا درست استعمال’ فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا بہترین انتظام اور لوگوں کو صحت او ر صفائی کے فوائد کے بارے میں تعلیم اور آگاہی دینا ہے ۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ کسی بابت آگاہی ہونا ایک الگ بات ہے اور اُس کی تعلیم ہونا ایک الگ بات ہے۔ جب تک شعور کی سطح بلند نہیں ہوگی تب تک معاشرے میں مثبت تبدیلی کا رونما ہونا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے متعلقہ تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
اسی طرح سے پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی پورٹل زمین ڈاٹ کام کی جانب سے بھی سی ایس آر سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں اس ادارے نے کلین یور زمین کی سرگرمی شروع کی تھی ۔ اس سرگرمی کا مقصد کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے بہترین ذرائع کے استعمال کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کی صفائی تھا۔ مختلف وجوہات کی بنا پر ہمارے ماحول میں آلودگی کی شرح بڑھ رہی ہے ۔اس ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔زمین ڈاٹ کام کی جانب سے یہ مہم چودہ اگست کو یوم آزادی کے موقع پر اُس کے سوشل میڈیا پیج پر لانچ کی گئی تھی ۔
اسی طرح سے پی ایس او یعنی پاکستان اسٹیٹ آئل کی بھی ایسے مقاصد کی ایک تاریخ ہے۔پی ایس اواکثر ایسے کام سر انجام بھی دیتا ہے اور اُن کی حمایت بھی کرتا ہے جن سے واقعی معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔ اس کمپنی کی جانب سے صحت’تعلیم’ خواتین کی فلاح و بہبود’ کمیونٹی بلڈنگ’ خصوصی بچوں کی ویلفیئر ‘ کھیلوں کا فروغ سمیت دیگر کئی اقدامات شامل ہیں۔
NGO
ماضی میں پی ایس او نے ‘بہبود ایسوسی ایشن ‘ کو سپورٹ کیا تھا۔ یہ ایک پاکستانی این جی او ہے جو کہ تولیدی صحت’ کمیونٹی کی ترقی ‘ پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت کے میدان میں سرگرم رہتی ہے بالخصوص کم مراعات یافتہ طبقے کیلئے یہ زیادہ کام کر رہی ہے ۔مزید براں’ پی ایس او نے ‘راشد میموریل ویلیفیئر آرگنائزئشن ‘ کی حمایت بھی کی تھی جس کی سرگرمیاں تعلیم ‘ صحت اور پیشہ وارانہ تربیت سے متعلق تھی ۔پی ایس او نے انسٹیٹیوٹ آف اسپیشل چلڈرن کوئٹہ کو بھی سپورٹ کیا تھا ۔ یہ بلوچستان میں وہ واحد ادارہ ہے کہ جس نے خصوصی بچوں کیلئے اپنے ادارے کو اپ گریڈ کیا تاکہ اُن کی تعلیم و تربیت میں آسانی پیدا کی جا سکے۔ اس کے علاوہ پی ایس او کی جانب سے پاکستان نیشنل انسٹیٹوٹ فارڈیف اینڈ مینٹلی ڈس ایبل چلڈرن ‘ کامونکی کی مالی امداد بھی کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ بھی ایسی کمپنیاں موجود ہیں جنہوںنے پاکستان کی معاشرتی بہتری کیلئے اقدامات کئے تھے ‘ جگہ کی کمی کے سبب سب کے نام اور کام لکھنا تو ممکن نہیں ہے۔تاہم سب کچھ دوسروں پر تو نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ کچھ خود بھی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ مزید پاکستانی کمپنیاں سی ایس آر کی سرگرمیاں منعقد کریں تاکہ عام لوگوںمیں معاشرے کی فلاح کیلئے کچھ کرنے کی تحریک جاگتی رہے ۔جب مزید ادارے کار خیر کے کاموں میں آئیں گے تو کل نتیجہ میں اس ملک کا فائدہ ہی ہوگا۔ بچپن نے یہی پڑھا ہے کہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ دریا کو بننے اور بہنے میں وقت لیتا ہے لیکن اس کیلئے کسی کو تو پہلا قطرہ بننا ہی ہوگا۔