تحریر: میاں وقاص ظہیر عالمی اعداد وشمار کی رپورٹ 2014-15 کے مطابق پاکستان میں ایک مختاط اندازے کے مطابق تقریباََ کل آبادی کا 80 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ،جبکہ برسر روز گار افراد میں ہر تیسر افرد 2 ڈالر یومیہ کما رہا ہے ، جس سے روح اور جسم کا تعلق رکھنا بھی مشکل ہے ،غربت کی یہ شرح دن بہ دن کم ہونے کی بجائے خطرناک اہداف کو بھی عبورکررہی ہیں ،جس سے بہت سے سماجی اور معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں ،روزگار کے بحران نے بہت سے افراد کو گھناؤ نی سرگرمیوں میں ملوث کردیا ہے ، حکومتی ناقص پالیسیوں سے جہاں پاکستانی عوام بنیادی زندگی کی سہولیات سے محروم ہیں، وہیں چائلڈ لیبر (یعینی بچوں سے مزدوری ) کا رحجان بھی معاشرے میں ناسور کی طرح بڑھ رہاہے ، ملک میں ابھی بھی تقریباََ 2 کروڑ سکول جانیوالے بچے مختلف اداروں ،ورکشاپ ،چواہروں ،دکانوں ،بھٹوں اور گھروں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
ہر دور حکومت میں چائلڈ لیبر کیخلاف قانون سازی تو ہوتی رہی ہیں ،لیکن ہر دور میںزبانی جمع خرچ اور کاغذی کارروائی سے ہی بات اگلے نہیں نکل سکی ،آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم گزشتہ کئی سالوں سے اپنے تمام تر وسائل اور دعوؤں کے باوجود خواندگی کی شرح میںکوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کرسکے،بلکہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں اگر موزانہ کیا جائے تو ایسا محسو س ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عام آدمی کے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل سے مشکل ہوتا جارہاہے ، نتیجے کے طور پر جب بہت سے روشن ذہن حالات کے ہاتھوں شکست کھا کر ضائع ہورہے ہیں ،ہمار ا یہی ملکی مستقبل پیٹ کا دوزح بھرنے کیلئے معمولی سی تنخواہ پر بھی طویل ڈیوٹی کرنے آمادہ ہو جاتا ہے ،استحصالی معاشرہ خونی بھیڑوں سے بھرا پڑا ہے متعدد بار ایسی خبریں پڑھنے کو ملی ہیں کہ سماج میں رہنے والے درندہ صفت انہیں اپنے جائز اور ناجائز مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
Sexual Violence
ان میں سے بہت سے بچے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوکر نفیساتی طور پر اپنے اندر چھپے ٹیلنٹ کو ساری زندگی ڈھونڈ نہیں پاتے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کئے کوئی منظم اور صاف وشفاف نظام موجود ہے ،ہم معاشرے افراد سے بناتے ہیں اور افراد کیلئے بچوں کی تعلیم وتربیت ضروری ہے ،لیکن کیا کبھی میرے ملک کے کسی سیٹھ کسی نام نہاد این جی اوز ملکی وغیر ملکی کروڑوں کے فنڈز وصول کرنے کے باوجود بھی نہ تو چائلڈ لیبر پر قابو پاسکی نہ ہی ان پر جسمانی اور جنسی تشدد کو روک سکی ہیں۔
تشہیر، ایجنڈے کا پرچار ،نعرے تو اپنی جگہ لیکن کبھی ہم نے اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا ہے کہ ہمارے ہی درمیان میں رہنے والے یہ کمسن غریب ،یتیم ،مسکین اور بے سہارا بچے جن کی عمریں سکول جانے کی، شرارتیں کرنے کی ،والدین سے ضد کرکے کھلونے لینے کی ہیں اور اہم نے نہیں کتابوں کے بجائے چند روپوں کی خاطر درندہ صف افراد کے رحم وکرم پر چھوڑا ہوا ہے۔
Criminal
جو انہیں ہر طرح سے استعمال کرکے معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کی ایسی کھپت تیار کررہے ہیں ،جنہیں خود کش دھماکوں،جیب تراشی، گداگری ،چوریاں اور دیگر سنگین جرائم کروائے جارہے ہیں ،ایسی صورتحال میں کہاںہیں ہماری نام نہاد انسانی حقوق کی این جی اوز۔۔۔؟؟؟؟ گڈ گورننس کے نعرے لگانے والی حکومت جوصبح وشام اپنے ترقیاتی منصوبوں گنواتے نہیں تھکتی، یہ ہماری بھی نااہلی ہے کہ ہم نے من حیث القوم نہ اپنی ا صلاح کی اور نہ ہی اپنی آنے والی نسلو ں کے بارے میں مثبت فیصلے کئے اور آج ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ جو نسلیں بڑھاپے میں ہمارا سہارا بن سکتی ہیں۔
ہمیں سکون دے سکتی ہیں آج کم عمر ی میں پلید نظام کی بھیت چڑھا کر ہم ان سے انکی حقیقی خوشیوں کو تباہ کررہے ہیں ،ہم مسکرانے کی عمر میں انہیں گالیاں ،تانے ،تشدد اور معاشرتی عتاب بنا رہے ہیں ، جس سے جہاں ان کی نشوونما متاثر ہور ہی ہے وہاں پر ان کے اندر احساس محرومیاں جنم لے رہی ہیں، کم عمری میں انہیں اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ کل کلاں جب وہ جوان ہو ں گے اور اس معاشرے کا مقابلہ کیسے کریں گے۔
انہوں تو اس بات کی فکر جینے نہیں دیتی کہ وہ کس طرح اپنا اوراپنے والدین کا پیٹ روکھی سوکھی کھا کر بھریں ،معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنا ہے تو ہمیں ان بچوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھ کر ا نہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کیلئے پنا اپنا کردار اداکرنا ہوگا ،اگر آج ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہمیںگھر کی دہلیز پر لٹتے ہوئے،دہشتگردی کے واقعات میںاپنے پیاروں کی جانیںگنواتے ہوئے یہ ملامت کبھی نہیں ہونی چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں کیا ہورہاہے ،کہیں نا کہیں تو اس صورتحال کے ہم بھی ذمہ دار ہیں۔