جی ہاں …!! وہی ماضی کے عالمی طاقتوں کے یاروں اور نائن الیون کے ذمہ داران جو میری پُرامن دھرتی سرزمینِ پاکستان کے بھی مخالف ہیں آج اِن کی نظر میں میرے پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور امن و سکون ایک آنکھ بھی نہیں بہارہاہے، اِنہی مُلک دُشمن عناصر نے 16 دسمبر کی صبح پشاور کے کینٹ ایریا میں ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول میں حملہ کرکے میرے مُلک کے معصو م پھول جیسے 132 بچوں سمیت 142 نہتے لوگوں کو شہید اور 124 سے زائد کو زخمی کردیا
پورامُلک سُوگ میں ڈوب گیا، جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم طالبان نے قبول کرلی،پاک فوج کی بروقت کارروائی سے اسکول پر حملہ کرنے والے طالبان کے دہشت گرد پاک فوج کے ہاتھوں خود بھی واصلِ جہنم سِدھارگئے، آج کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بٹے ہوئے ہیں ہم کمزورنہیں ہیں، ہم سانحات کو آزمائش سمجھتے ہیں ، یہ تو میری اورمیری قوم کا حوصلہ بڑھا دیتے ہیں، آج ہم پہلے سے زیادہ متحد اور منظم ہیں،بس آج پاکستانی قوم کا ہر فرد اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہان سے یہ کہہ رہاہے کہ خداکے واسطے اغیارکا ہاتھ چھوڑدواور اپناسہاراخود بنواور اپنا فیصلہ خود کرو۔
بہر کیف …!!آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ پشاور جِسے میرے ملک ِپاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑاسانحہ قراردیاجارہاہے جس میں دہشت گردوں نے میرے دیس کے مستقبل اور میری قوم کے ہر افرادکے دل پرحملہ کرکے ہمارے حوصلے پست کرنے کی کو شش کی ہے آج اِس المنا ک اور دل سوز سانحہ پرساری پاکستانی قوم غم سے نڈھال اور افسردہ ضرور ہے، مگر آج پشاور میں قیامت صغریٰ برپا ہونے کے باوجود بھی مُلک میں دہشت گردی کے خلاف جاری پاک فوج کے آپریشن ضرب غضب پر قوم کا ہر فرد ایک پیچ پر نظرآرہاہے اورمُلک سے دہشت گردوں کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قوم کا ہر فرد تن من دھن سے پاک فوج کے شانہ سے بشانہ کھڑاہے
طاقت سے دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کرنے کے لئے پاک فوج کے حوصلے بلندکرنے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک پیش کرنے کے لئے تیار ہے،اَب قوم کے اِن نیک جذبات کو سمجھنا میرے مُلک کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان سمیت اُن سب کی بھی ذمہ داری ہے جو مُلک کے کرتا دھرتا ہیں یہ لوگ قوم کے جذبات کو سمجھتے ہوئے آنے والے دِنوں، ہفتوں، مہینوںاور سالوں میں ایسے اقدامات کریں کہ جنہیں کرنے سے مُلک سے دہشت گرد اور اِن کی دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہوجائے اور مُلک امن آشتی کا گہوارہ بن کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن ہوجائے۔
اگرچہ سانحہ پشاوربرپاہوااور گزرگیا،اَب اقتدارانِ وقت کانفرنسز منعقد کر رہے ہیں،تواُدھرہی اِس اندہولناک سانحہ پر میرے مُلک کے(ذاتی اور سیاسی مفادا ت کی گُھٹی پیئے مفاد پرست اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے بہر وپیئے سیاستدان اُچھل اُچھل کر مذمت ، مذمت ، مذمت اور بس صرف مذمت ..؟؟کی رٹ لگاتے سرکاری و نجی اور غیرمُلکی ٹی وی چینلز پرنظر آرہے ہیں اور یہ سب مُلکی اور غیرمُلکی پرنٹ میڈیا پرایسے طرح طرح کے بیانات داغ رہے ہیں کہ بس …!اَب اِس سانحہ کے بعدکوئی (چھوٹایا بڑا)سانحہ مُلک کی سرزمین پر رونما ہی نہیں ہوگا
کیوں کہ اِنہوںنے انتہائی سخت ترین الفاظ میں مذمت جو کردی ہے قوم خاطر جمع رکھے اور ہم دہشت گردی کے خلاف متحداور منظم ہیں(جبکہ ایسانہیںہے جیساکہ یہ کہتے ہیں کیوںکہ ایک طرف تو ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کے لیڈران ہیں جو مُلک سے دہشت گردی کاخاتمہ طاقت کے زریعے چاہتے ہیں تو اُدھر ہی میرے مُلک کی مذہبی جماعتوں جن میں جماعت اسلامی اورجمعیت علماءاسلام(ف) والے ہیں جو سانحہ پشاور ہوجانے کے بعد بھی بضدہیںکہ حکومت دہشت گردوں سے مذاکرات کی راہ اپنائے اِن سے طاقت کے استعمال سے کوئی فائدہ نہیں ہوگاجیسا کہ ابتک حکومت کو طاقت کے استعمال سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے یعنی کہ اِس حوالے سے بالخصوص جے یو آئی کے سربراہ مولانافضل الرحمان کا یہ اٹل موقف ہے
ہمیںاب بھی دہشت گردوں سے مذاکرات کے راستے بند نہیں کرنے چاہئیں اور اِنہیں طاقت کے استعمال سے رام نہیں کیاجاسکتاہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرے مُلک کی مذہبی جماعتوں خاص طور پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے دل میں سانحہ پشاور برپاہوجانے کے بعد بھی دہشت گردوں کے لئے کہیں نرم گوشہ ہے، جس پر راقم الحرف کو ایسامحسوس ہواکہ جیسے مولانا فضل الرحمان شیش ناگ کو مارنے کے بجائے ، اِس کے سامنے بین بجا کر مست کرکے اپنے قابو میں رکھنے کے زیادہ قائل نظرآتے ہیں، اگر اِس موقعے پر بھی مولانافضل الرحمان کا شیش ناک کے بارے میں ایساخیال ہے تو پھر یہ بہت غلط ہے
Maulana Fazlur Rahman
کیونکہ شیش ناگ کو بین بجاکر قابو میں رکھنے سے تو بہتریہی ہے کہ اِسے ڈنڈوں اور گولیوں سے مار دیا جائے، اِس کے لئے جب کبھی بھی شیش ناگ کو موقع ملے گایہ پہلے اُسی کو ہی ڈس لے گا جس نے اِسے پِٹاری میں قید کیا تھا یہ بات مولا نافضل الرحمان سمیت جن جیسے دوسروں کو بھی سمجھ آجانی چاہئے بہرحال….!)اور ہم نے مُلک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کررکھاہے، ہمارے خون کے آخری قطرے تک دہشت گردوں سے جنگ جاری رہے گی وغیرہ وغیرہ …اوریوں یہ لوگ ایسا دوچار روزتک کریں گے
جب یہ سانحہ بغیر عملی اقدامات کئے ذراساپرانا ہوجائے گا تو پھر میرے مُلک کے حکمران الوقت اور بڑے بڑے اور سخت ترین مذمتی بیانات دے کر قوم کو سبز باغات دِکھانے والے سیاستدان اور اداروں کے سربراہان وقت اُسی ڈگر پر اپنا اپنا سیاسی قداُونچاکرنے کے لئے چل پڑیں گے آج جس پر یہ سب چل کر قوم کو ایسے سانحاتی المیے سے دوچارکروارہے ہیں جس سے میرے مُلک کے معصوم بچوں کی درس گاہیں، مساجد، امام بارگاہیں، گرجاگھر، بازار، شاہرا ہیںاور پبلک مقامات پر بچے، خواتین اور نوجوان تک محفوظ نہیں ہیں۔
آج اگرسانحہ پشاور کے بعد میرے مُلک کے حاکم الوقت اور سیاستدان اقتدار کی لالچ سے ہٹ کراور اپنے سیاسی وذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مُلک سے حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور اِن کے ٹھکانوں کاقلع قمع کرنے کے لئے سنجیدہ ہیںتو پھر اِنہیں چاہئے کہ اِس سانحہ پر وفا ق اور صوبے پر الزامات لگنے سے قطعاََ اجتناب کریںاوراَب سانحہ پشاور کے بعد بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں کئے جانے والے فیصلوں پر صحیح معنوں میں عمل کرکے بھی دکھائیں اور اپنی اُن کوتاہیوں اور خامیوں کو بھی دور کرنا ہو گا جن کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسیز کے حوالوں سے ماضی میںا پنے پرائے کے کئے گئے
فیصلوں پر بھی نظرثانی کرنی ہوگی اور اِس تناظر میں اپنی نئے پالیسیاں بھی بنانی ہوں گیں کہ جن پر عمل پیراہوکر مُلک کو دہشت گردوں کی دہشت گردی سے پاک کردیں اوروزیراعظم نوازشریف نے جن عملی اقدامات کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی اور اِس میں جو فیصلے کئے تھے اَب اِس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف اور مُلک کی تما م سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کو بھی چاہئے کہ وہ مُلک سے دہشت گردوں اور اِن کی دہشت گردی کے خاتمے تک پاک فوج کو مکمل طور پر فری ہینڈدے دیں، تاکہ مُلک سے حقیقی معنوں سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوسکے ، اَب میرے مُلک کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اداروںکے سربراہان کو سوچنا چاہئے
یہ اِنہیں خدانے آخری موقع دیاہے کہ وہ سانحہ پشاورکے بعد اپنی بقاءو سالمیت کی خاطر حقیقی معنوں میں اقدامات کریں اور مُلک سے دہشت گرد اور دہشت گردی کا خاتمہ کردیں اور اگراَب بھی میرے مُلک کے حاکم الوقت اور سیاستدانوں نے کبوتر کی طرح بلی کے سامنے آنکھیں بند کرلیں اوربیٹھے رہ گئے اور صرف مذمت ، مذمت ، مذمت کی ہی رٹ لگانے میں ہی اپنی عافیت جانی تو اَب یہ ہم سب کی سب سے بڑی بھول اور غلطی ہوگی کیوںکہ اَب سانحہ پشاور کے بعدمُلک اور قوم کی بقاءکے خاطرغلطی اور مذمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے بس۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com