تحریر : سید توقیر زیدی انسداد دہشت گردی کیلئے پاکستان، چین، افغانستان اور تاجکستان پر مشتمل چارملکی مشاورتی میکنزم تشکیل دینے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس میکنزم کی تشکیل کیلئے ہونیوالے اجلاس میں یہ اتفاق بھی کیا گیا کہ چاروں ممالک کی علاقائی خود مختاری اور سلامتی کو یقینی بنایا جائیگا۔ چار ملکی ”کوآپریشن اینڈ کوآرڈینیشن میکنزم” کے قیام کا مقصد، دہشت گردی کے مشترکہ دشمن کو مل کر شکست دینا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ میکنزم اقوام متحدہ کے منشور کے تحت کام کریگا۔ اس میکنزم کی تشکیل کسی دوسرے ملک یا ادارے کیخلاف نہیں ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ چین کے دوران ارمچی میں پاکستان، چین، افغانستان اور تاجکستان کی فوجی قیادت کا اجلاس ہوا۔ جس میں افغان آرمی کے سربراہ شاہ شاہیم،چینی افواج کے سربراہ جنرل فینگ، تاجکستان کے ڈپٹی ڈیفنس منسٹر میجر جنرل کبدیر زادہ شریک ہوئے جبکہ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ خطے میں امن کے قیام اور استحکام کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں گی، چاروں ممالک کی افواج دہشت گردی کیخلاف ایک دوسرے سے تعاون کرینگی۔ چار ملکی کوآپریشن اینڈ کوآرڈینیشن میکنزم میں افغانستان ،چین ،پاکستان اور تاجکستان کی افواج شامل ہونگی، چاروں ممالک فورسز کے اہلکاروں کی مشترکہ تربیت کا اہتمام کرینگے، تمام فیصلے اور اقدامات باہمی اتفاق اور اعتماد کے ذریعے کیے جائینگے، بیان میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ میکنزم کے قیام کا مقصد مشترکہ دشمن دہشت گردی کو زیرکرنا ہے۔
Afghanistan General
افغانستان کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل شاہیم نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے، افغانستان خطے میں انسداد دہشت گردی میں تعاون کے حوالے سے چین کی جانب سے تجویز کردہ چار ملکی میکنزم کی مکمل حمایت کرتا ہے۔دہشت گردی کا دائرہ اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ اسکے خاتمے کیلئے عالمی سطح پر کوششوں اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں’ کئی ممالک خود کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کیلئے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرتے ہیں۔ اس کا اظہار روسی صدر پیوٹن نے کیا ہے۔ انہوں نے تو اعداد و شمار بھی پیش کر دیئے کہ جی20ـ کے بعض ارکان سمیت 40 ممالک داعش کی فنڈنگ کرتے ہیں۔ ان ممالک کو مصلحتوں سے نکلنا ہوگا۔
دہشت گرد آسمان سے ٹپکتے ہیں نہ زمین سے نکلے ہیں’ یہ کسی کی پشت پناہی اور سہولت کاری کے بغیر انسانیت سوز کارروائیاں نہیں کر سکتے۔ ہر ملک اور شہری انکے خاتمے کیلئے کمربستہ ہو جائے تو دہشت گردوں کا ناپاک وجود روئے زمین سے ختم ہو جائےآج پاکستان اور افغانستان بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ چین اور تاجکستان کو گو ایسی دہشت گردی کا سامنا نہیں ہے تاہم چین کے صوبے سنکیانگ اور تاجکستان میں دہشت گرد تنظیمیں ان علاقوں میں عدم استحکام کیلئے کوشاں ہیں۔
پاکستان’ چین’ افغانستان اور تاجکستان کے مشاورتی میکینزم تشکیل دینے کا ایک خصوصی پس منظر بھی ہے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ایسٹ ترکستان مومنٹ کے لوگوں کوکالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پناہ دی۔سنکیانگ رقبے کے لحاظ سے چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں اوغر مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ان میں ایک طبقہ حکومتی پالیسیوں کا ناقد ہے اور ایسٹ ترکستان مومنٹ انکی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلے یہاں پر ایسٹ ترکستان کے نام سے ایک اسلامی ملک قائم تھا جس پر چین نے قبضہ کر لیا۔وہ کہتے ہیں کہ چین نے انہیں برابری کے حقوق نہیں دئیے اور انکے ساتھ زیادتی ہو رہی ہےافغان جہاد کے دوران یہ لوگ افغانستان آگئے تھے اور طالبان نے انہیں پناہ دی۔طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ لوگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے جہاں ان کا الحاق القاعدہ اور اسلامک مومنٹ آف ازبکستان سے ہوا۔
China and Tajikistan
چین اور تاجکستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں’ افغانستان اور پاکستان پڑوسی ہیں۔ تاجکستان کو پاکستان سے واخاں کی 20 کلو میٹر چوڑی پٹی الگ کرتی ہے۔ جغرافیائی محل وقوع شدت پسندوں کیلئے افغانستان’ پاکستان اور چین میں داخلے اور سرگرمیوں کیلئے آسانی فراہم کرتا ہے۔ ایسٹ ترکستان تحریک کے دہشت گردوں نے مئی 2004ء میں ارمچی میں ریلوے سٹیشن پر دھماکے کئے جن میں موقع پر 3 افراد ہلاک اور 79 زخمی ہوگئے تھے۔ حملہ آوروں نے دھماکوں سے قبل وہاں موجود افراد پر چاقوئوں سے حملہ کیا تھا’ اس سے قبل مارچ میں چار چاقو بردار دہشت گردوں نے ایک ریلوے سٹیشن پر اپنی بربریت سے 29 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
اس ہلاکت خیز حملوں کے بعد چینی حکام نے پاکستان کی سرحد پر کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرنے کی بات کی تھی تاہم پاک فوج کے تعاون سے شمالی علاقہ جات میں موجود اسٹیٹ ترکستان موومنٹ کے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کردیا گیا۔پاکستان نے جس طرح چین کے ساتھ تعاون کرکے پاکستان میں موجود ایک تنظیم کا خاتمہ کیا اور چین میں دہشت گردی کے ایک سبب کو دور کرنے میں معاونت کی’ اگر تاجکستان اور افغانستان بھی پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے خاتمے میں اسی سوچ اور جذبے سے کام لیں تو دہشت گردوں کو چھپنے کو جگہ نہیں ملے گی۔ چین اور پاکستان تو یقیناً اس حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔
تاجکستان کی جانب سے بھی معاہدے کے مطابق تعاون اور اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی توقع ہے مگر افغان انتظامیہ جس طرح بھارت اور اسکی بدنام زمانہ ایجنسی ”را” کے ہاتھوں کھیل رہی ہے’ اسکی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تعاون کی توقع عبث ہے۔ افغانستان کی خودمختاری امریکہ کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے۔ حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی بھی امریکہ کی کٹھ پتلی ہیں اور بھارت کے مفادات کو عزیز رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے اقتدار اور مفادات ہی سے غرض ہوتی ہے۔ جو انکے امریکہ اور بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں۔
China and Pakistan
امریکہ پاکستان اور چین میں دوستی اور استحکام نہیں دیکھنا چاہتا۔ بھارت پاکستان میں مداخلت کیلئے افغان سرزمین استعمال کررہا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے’ ان کو پاکستان میں حملوں کیلئے ترغیب’ تربیت اور سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان کے بار بار مطالبات پر بھارت کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکا گیا نہ پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کیخلاف کوئی ایکشن لیا گیا تو پاکستان نے بارڈر پر انٹری پوائنس پر گیٹ لگانے کا فیصلہ کیا’ اس پر افغان انتظامیہ شدید اشتعال میں دکھائی دی طورخم کے زیر تعمیر گیٹ پر تو تین دن فائرنگ ہوتی رہی جس میں ایک میجر شہید اور بیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
افغان انتظامیہ کی طرف سے گیٹ لگانے کی مخالفت بھارت کے ایمائ پر کی جا رہی ہے۔ افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی شکایت ہے’ وہ عموماً شکوہ کرتا ہے کہ پاکستان سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہوتے ہیںمگر ان کا اپنے ہاں داخلہ روکنے کیلئے وہ گیٹوں کی مخالفت کرتا ہے جو اسکی بدنیتی اور بھارت کو پاکستان میں مداخلت کیلئے اپنی سرزمین فراہم کرنے کی فطرت کا شاخسانہ ہے۔
افغانستان اخلاص کا مظاہرہ کرے تو پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل اور افغانستان سے کافی حد تک خاتمہ ممکن ہے۔ پاکستان’ چین’ افغانستان اور تاجکستان کے دہشت گردی کیخلاف عسکری میکنزم کی کامیابی کی کلید افغانستان کے ہاتھ میں ہے۔