تحریر : تنویر احمد، ڈیرہ غازی خان پاکستان کی 67 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کے دنیا میں اگر کوئی قابل اعتماد ترین دوست رہے ہیں جو ہر مشکل اور آزمائش میں اس کے کام آئے تو وہ سعودی عرب اور چین ہیں۔ کسی بھی دوستی کو پرکھنے کے لئے اس کے ساتھ ماضی کا گزرا ہوا وقت اور باہمی معاملات کا تجربہ ہی سب سے بڑی کسوٹی ہوتی ہے.
حضرت عمر کے پاس آکر کسی نے ایک شخص کی بابت شہادت دینے کی کوشش کی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ تمہارا ہمسایہ رہا ہے؟اس کے ساتھ کوئی سفر کیا ہے یااس کے ساتھ کوئی کاروباری لین دین وغیرہ کیا ہے؟ اس نے سب کا جواب نفی میں دیا تو آپ نے کہا کہ پھر تم اس کے بارے کیسے شہادت دے سکتے ہو۔یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ معیار قائم کر دیا کہ کسی کو پرکھنا ہو تو ان حوالوں سے پرکھو۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے یہ دو عظیم دوست پاکستان کے ساتھ ہر حوالے سے صاف و شفاف کردار کے حامل ہیں۔
چین اگرچہ ایک غیر مسلم ملک ہے، اس کا نظام حکومت بھی ہم سے مختلف ہے لیکن دو ملکوں کے تعلقات میں ایک دوسرے کے نظامِ انتخاب یا ایک دوسرے کے ملکی دستور کو کم ہی دیکھا جاتا ہے. دونوں کا اصل تعلق ایک دوسرے کے باہمی دوستانہ و تجارتی تعلقات اور مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔
Kashmir Issue
چین سے اگرچہ نظریاتی طور پر اختلافات ہیں لیکن ملکی مفادات کے لحاظ سے پاکستان اور چین کی دوستی ہمیشہ دو ملکوں کی دوستی کے تمام تقاضوں پر پوری اتری ہے۔ ملکی مفادات کے حوالے سے دیکھا جائے تو چین کئی معاملات میں ہمارے مفادات کا ہم سے بھی زیادہ داعی اور محافظ ہے۔ صرف مسئلہ کشمیر کی ہی مثال لے لیں. چین نے بھارت کے ساتھ 1963ء کی جنگ میں پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں فوجیں اتارنے کا کھلا اشارہ کیا. یہ بھارت جیسے ہٹ دھرم ملک کو گھیرنے اور اس طرح مسئلہ کشمیر حل کرنے کا سنہری موقع تھا۔
آج کشمیر کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ وہاں پر پچھلے دو ماہ سے کرفیو نافذ ہے اور یہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مسلمان وہاں اس مرتبہ عید کی نماز بھی ادا نہ کر سکے.حق خودارادیت اس کے نزدیک قصہ پارینہ بن چکے لیکن افسوس کہ وہ سنہری موقع ہماری اس وقت کی حکمران قیادت نے ضائع کر دیا.
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر توآج تک حل نہ کر سکا، الٹا یہ ملک بالآخر ہماری نا اہلیوں کے سبب دولخت ہو گیا. اسی طرح چین نے آج سے چند سال پہلے کشمیریوں کے لیے بھارتی ویزہ ماننے سے انکار کر دیا اور اس کی بجائے وہ خود انہیں سادہ کاغذ پر ویزہ جاری کرنے لگا. یہ دلیرانہ اقدام آج تک پاکستان بھی نہ کر سکا۔
Pak-China Relations
آج چین کے پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے خطیر منصوبے جاری ہیں جو یقیناً پاک چائنہ تعلقات میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری تاریخ کی ایک سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے جس پر پاکستان کی ترقی کے حاسد ممالک بری طرح تڑپ اٹھے ہیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو چین نے اپنی دوستی کی بال مکمل طور پر ہماری کورٹ میں پھینک دی ہے۔
اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہم اس سرمایہ کا دیانت داری اور پوری شفافیت سے استعمال کرتے ہیں اور جن مقاصد کے لیے یہ سرمایہ دیا گیا ان مقاصد اور منصوبوں کو پوری ایمانداری سے مکمل کرتے ہیں یا نہیں۔ بجلی، توانائی اور نقل و حمل کے ان عظیم منصوبوں میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے شفافیت کا مکمل مظاہرہ نہ کیا تو یقیناً اس سے دو دوستوں کی دوستی اور ان کے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور بسا اوقات یہ بداعتمادی بد تر نتائج بھی پیدا کر سکتی ہے جس سے بچنے کی دعا ہی کرنی چاہیے۔
خاص کر ایسے حالات میں کہ دشمن پاکستان کے خلاف اکٹھے ہو چکے ہوں۔اللہ کرے یہ دوستی پوری دنیا کے لیے امن کا باعث بنے۔بس ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ یہود و ہنود جیسے دشمنوں کی سازشوں سے ہوشیار رہا جائے جو ان دونوں دوستوں کی دوستی کو قطعاً برداشت کرنے کو تیار نہیں۔