تحریر : انجینئر افتخار چودھری انجینئر افتخار چودھری پاکستان کے نامور کالم نویسوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا بچپن جوانی اسی شہر میں گزرا۔ غضب کے مقرر اور بلا کے لکھاری ہیں۔ قومی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ قومی چینیلز پر پارٹی کا بھر پور دفاع کرتے ہیں۔ادارہ ان کی تحریروں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ یقینا گجرانوالہ کے لوگ ان کی تحریروں میں پچاس سالہ پرانا کلچر دیکھ کر خوش ہوں گے کہتے ہیں غالب کسی کام سے گھر سے باہر گئے واپسی پر آ کر چلانا شروع کیا کہ میرے کمرے کا سوا ستیا ناس کیوں کیا گیا۔بیگم نے کہا مرزا چلاتے کیوں ہو بڑی محنت سے کمرہ صاف کر دیا ہے۔
مرزا بولے یہ کمرہ مجھے کاٹ کھا رہا ہے مجھے وہی الٹا پلٹا اور گند اکمرہ چاہئے۔مجھے اس وقت تو سمجھ نہ آئی مگر گزشتہ ہفتے گجرانوالہ میں وقت گزارا۔پہلوانوں اور ہنر مندوں کے اس شہر میں اب سگنل بھی ہیں بائی پاسز اور پل بھی۔شہر کی ہر سڑک پکی۔ میں عمر بٹ کو ملنے دسگیر پلازہ گیا عالم چوک پیپلز کالونی سیٹلائیٹ ٹائون واپڈا ٹائون گارڈن ٹائون ڈی سی کالونی ،جی مگنولیا،باغبانپورہ،پرانا قبرستان غرض پورا شہر چھان مارا مجھے میرا گجرانوالہ نہیں ملا۔اس شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر وقت گزرا ہے۔
ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ باغبانپورے میں اگر کسی چڑیا کو آبی اخراج کرنا پڑے تو گوڈے گوڈے پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔اس بار یہ سب کچھ نہ تھا۔جناح روڈ چوک پر ایک خوبصورت اعلامیہ نصب تھا گرچہ عید میلاد کے دن تھے عاشقان رسولۖ نے خانہ کعبہ کا ماڈل اس گول سے دائرے پر لگا دیا تھا کسی کی نیت پر شک نہیں کرتا لیکن اس گول چکر میں مربع کعبہ کچھ اچھا نہیں لگا۔میں کٹر سنی اور بریلوی ہو مولانا رحمت اللہ نوری کا شاگرد لکھے دیتا ہوں شائد کسی کی سمجھ میں آ جائے۔اس شہر نامدار کی گلیوں اور کوچوں میں سب کچھ تھا مگر میرا اپنا بچپن اور جوانی نہ تھی۔شہر کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ گئی ہے۔اس شہر کے لوگ کھاتے بھی بہت ہیں اور کھلاتے بھی بھی بہت ہیں آپ سال بھر ڈائٹنگ کریں گجرانوالہ جا کر دوستوں عزیزوں سے لڑائی ہو جائے گی اگر آپ نے فلاں کے پائے اس کی سری فلاں کی مچھلی اور کسی اور کی کلیجی نہ کھائی غرض جانور کے ہر حصے کا ایکسپرٹ وہاں ملتا ہے۔پیپلز کالونی میں اکرم منہاس صاحب جو میرے عزیز ہیں کہنے لگے اسی سڑک پر آپ کو ٣٠ روپے کا شاورمہ بھی مل جائے گا اور ١٥٠ کا بھی پوچھا وہ کیسے؟جواب دیا ٹھنڈی مرغی کا ٣٠ روپے کا اور گرم کا ١٠٠ سے اوپر ٹھنڈی مرغی کی اصطلاح پہلی بار سنی پتی چلا ایسی مرغی جو قصاب کے اللہ اکبر کہنے سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر جائے اسے ٹھنڈی کہتے ہیں۔
دوستو! جس ملک میں ہزاروں گدھے پاکستانیوں کے شکم میں چلے جائیں جن کا علم بھی کھالوں کی ایکسپورٹ سے حاصل ہو اس ملک میں ٹھنڈی مرغی بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔روزنامہ پریس کانفرنس کے دفتر میں عمر بٹ نے روائتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا پیار سے جب وہ بھائی آن کہتا ہے تو تھاں مر جانے کو جی چاہتا ہے۔کہتے ہیں لاہور میں ایک مہمان گیا تو ایک لڑکی نے پیار سے کہا پاین ایپل کھائی گے تو جوان نے کہا پائین ایپل کھا ہی لینا چاہئے اس لئے کہ وہ پنجاب میں کم کم ہی ملتا ہے۔تھوڑی دیر میں اس کے سامنے سیب کٹا ہوا آیا تو اسے سمجھ آ گئی کہ لڑکی کہہ رہی تھی کہ بھائی جان ایپل کھائیں گے۔بٹ بھائی جان بھی اسی سٹائل میں کہہ گئے۔پریس کانفرنس کی کامیابی میں اس نوجوان کا بڑا ہاتھ ہے ۔جناب خوشنود علی خان کو اپنا استاد مانتے ہیں۔اس لحاظ سے عقیل ترین عمر بٹ اور انجینئر افتخار چودھری بھی پیر بھائی ہیں۔
Gujranwala
مجھے بھی خبریں جدہ کا نمائیندہ خوشنود صاحب ہی نے بنایا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ یہ اعزاز انہوں نے ہی چھین کر کسی اور کو دے دیا تھا۔بہر حال ان کی شفقت ابھی تک حاصل ہے۔ٹرسٹ پلازہ میں اخبار کے دفتر کے لوگ ایسے لگے جیسے اپنے سے ہوں ان کے ڈرائیور سے لے کر دیگر عملے کے لوگ بڑے پیار سے ملے۔ان کے کہنے پر سوچا کہ جس شہر نے مجھے پیار دیا محبت دی اس کی باتیں اس شہر کی اس نسل کے گوش گزار کروں۔کہ میں اس دور کا گجرانوالوی ہوں جب اس شہر کی ایک آدھ سڑک تھی۔گاڑی شاز و ناذر ہی ہوا کرتی تھی۔بسوں کا خاص وقت ہوا کرتا تھا۔اس زمانے میں لوگ اپنی آنکھوں سے سڑکوں پر کمیٹی کا چھڑکائو دیکھا کرتے تھے۔گلیاں نالیاں صاف کر کے اس پر چونا ڈلتا ہوا دیکھا کرتے تھے۔ میں نے عمر بٹ سے وعدہ کیا کہ میں لکھوں گا اور لوگوں کو ایوب خان دور کا گجرانوالہ دکھائوں گا۔
میرے گجرانوالہ کے قیام کے دوران بابائے شہر اسلم بٹ کا انتقال ہو گیا۔بٹ صاحب تین بار اس شہر کے میئر رہے تھے۔مرحوم کے بڑے بھائی غلام محمد بٹ ہماری ساتھ والی گلی میں رہتے تھے۔اسلم بٹ کو میں نے ساٹھ کی دہائی میں سوٹڈ بوٹڈ دیکھا ہے۔بعد میں انہوں نے اس شہر کی سیاست میں بڑا نام کمایا۔غلام محمد بٹ رسول پورہ سے بی ڈی ممبر بھی بنے تھے۔میرے والد صاحب بھی مسجد صدیقیہ والی گلی سے ممبر منتحب ہوئے تھے۔یہ ان دنوں ایک مضافاتی محلہ تھا کچی نالیاں کچی گلیاں کچے چھت مگر لوگ خالصتا پکے تھے ہم محلہ باغبانپورہ کی مسجد صدیقیہ والی گلی میں رہتے تھے۔بنیادی طور پر ہم پہاڑوں سے اترے وہ پنچھی تھے جو تلاش رزق میں پنجاب کے میدانوں میں آئے تھے۔گجرانوالہ کے کشمیری بھی کشمیر کے حسین مرغزارون سے مزدوری کرنے یہاں آئے تھے ڈوگرہ راج کے ستائے ہوئے لوگ جب پنجاب کے میدانوں سے محنت مزدوری کرکے کشمیر واپس جایا کرتے تو ٹیکسوں کے نام پر انہیںلوٹ لیا جاتا۔لوگو!کوئی بھی اپنے گائوں نہیں چھوڑتا کسی کو بھائی ساتھ لے آتا ہے کسی کو راجے مہاراجے جینے نہیں دیتے۔یہ شہر گجروں کا تھا اسی لئے تو گجرانوالہ تھا۔میرا بڑا دل کر رہا تھا کہ اقبال گجر صاحب کے ساتھ بیٹھوں گپ شپ لگائوں حال احوال دوں مگر ممکن نہ ہو سکا حتی کے وقت بھی طے ہوا مگر میں دوستوں کا مارا وقت نہ نکال سکا۔
میں نے ایک پلاٹ ایک دوست کی معرفت کوئی ٢٠٠٤ میں خریدا تھا وہ ہاتھ سے نکلے جا رہا تھا اسے نام کراتے کراتے دس دن لگ گئے۔ڈاکٹر نبیل کی گاڑی کے مریدکے اور گجرانوالہ کے درمیان پھیرے ہی پھیرے لگتے رہے۔میں نے کالم کے شروع میں کہا تھا کہ میں آپ کو اپنے دور کا گجرانوالہ دکھائوں گا۔ہم کہیں ١٩٥٠ کے قریب اس شہر میں آئے میں اس دنیا میں ١٩٥٥ میں آیا۔میری پیدائیش آبائی گائوں نلہ میں ہوئی جو یو سی جبری ضلع ہری پور کا ایک انتہائی خوبصورت گائوں ہے۔والد صاحب بڑے بھائی چودھری عبدالغفار گجر جو پولیس میں انپکٹر تھے ان کے ساتھ اس شہر میں براستہ قلعہ دیدار سنگھ،کامونکی پہنچے۔تایا جان محلہ بختے والہ میں رہا کرتے تھے گلی لوہاراں والی میں چوبارہ تھا اس زمانے میں چوبارے محلوں کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔میں نے کچی جماعت کا داخلہ گورنمنٹ پرائمری اسکول نمبر ٥ گلی سلکو ملز باغبانپورہ میں لیا۔کچی پکی پہلی دوسری جماعتیں ہوا کرتی تھیں۔جاری ہے۔۔۔