دورِ جدید کو الیکٹرانک دور سے تشبیح دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ الیکٹرانک دور نے پوری دنیا کو گلوبلائزڈ کر دیا ہے۔ ہم ایک منٹ میں دنیا کی ہر بڑی چھوٹی ایجادات ، اطلاعات سے آشنا ہو جاتے ہیں، یہ دورِ جدید کی برق رفتاری کا نتیجہ ہے کہ ساری دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور اس تبدیلی سے ہم بھی پیچھے نہیں ہیں، ہماری بھی زندگی اس نئے دور کی برق رفتاری کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے، موبائیل(ہر ماہ نئی جدتوں کے ساتھ )کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ اور اب تھری جی، فور جی، کے استعمال میں ہم کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں ہیں، بلکہ موبائیل کے استعمال میں تو ہم دنیا میں کافی آگے ہیں۔
پاکستان کی صلاحیت خوبی اور قابلیت کا لوہا آج دنیا کا ہر ملک مانتا ہے، دنیا کے ہر شعبہ میں ہم نے اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔ اس ملک کی اقتصادی حالت کا اندازہ یہاں موجود بڑے بڑے شاپنگ مالز، سڑکوں پر دوڑتی مہنگی ترین گاڑیاں ، کشادہ سڑکیں، انڈر پاسز اور اونچی اونچی عمارتوں سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ خاص کر کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسے میٹرو پولیٹن سٹی میں تو اس الیکٹرانک دور نے کافی تیزی سے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس الیکٹرانک دور کا سب سے زیادہ اثر آج کی نوجوان نسل پر ہوا ہے ۔اس دورِ جدید کو انہوں نے خود پر حاوی کر لیا ہے۔ ان کی زندگی آج صرف اور صرف کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ، اور نئی جدید موبائل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
ویسے تو اس نئے دور نے ہماری زندگی کو کافی سہل بنا دیا ہے ہم چند سکینڈ میں خود سے ہزاروں میل دور لوگوں کے حالات آسانی سے جان لیتے ہیں، پہلے خط و کتابت ڈاکیہ کے ذریعے ہوا کرتا تھا مگر آج کمپیوٹر کی ایک کِلک سے ای میل کی فوری رسائی ممکن ہے۔نئے جدید دور کے جہاں بہت سے مثبت اثرات ہیں وہیں ان کے منفی اثرات کی بات کریں تو وہ بھی کچھ کم نہیں۔ اس ترقی یافتہ دور نے یوں تو بہت کچھ دیا لیکن اس کے بدلے جو کچھ لیا اگر اسے سوچنے بیٹھتے ہیں تو صرف اور صرف خسارہ ہمارے حصے میں آتا ہے۔ اس الیکٹرانک دور نے ہمیں برق رفتاریاں تو بخش دی ہیں، لیکن خلوص و محبت سے بے بہرہ کر دیا ہے
پوری دنیا کی خبر ہوتی ہے لیکن اپنے گھر کے حالات سے بے خبر ہوتے ہیں، ہر روز نئی تکنیک کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین رہتے ہیں آج کے نوجوان ، لیکن ان کے والدین ان کے سرپرست کس مشکل سے ان کی خوشیوں کا انتظام کرتے ہیں اس سے وہ مکمل طور پر بے خبر ہوتے ہیں۔ دوستوں کی ہر حرکت پر ان کی نظر رہتی ہے لیکن والدین کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا، دوستوں کی باتیں ان کے لئے اتنی اہمیت کی حامت ہوتی ہیں کہ وہ اس کے لئے اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں اور انہیں اس بات کا خیال بھی نہیں آتا کہ وقتی غصہ میں وہ اپنی زندگی کے اہم لوگوں کو درکنار کرتے جا رہے ہیں۔ اتنی ترقی کرنے کے باوجود آج کے نوجوان میں بڑھتی خود کشی کی واردات نے ہمیں اس کے پیچھے چھپی وجوہات کو جاننے کے لئے مجبور کر دیا ہے، وہ کون سی وجوہات ہیں جو نوجوانوں کو یہ اور اس سے ملتی جلتی دوسری وجوہات پر اُکساتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات کے مطابق اپنی ناکام خواہشوں کا بوجھ آج کی نئی نسل برداشت نہیں کر پاتی ہے،
خاص کر نوجوان جو یہ چاہتے ہیں کہ وہ جب جس وقت اور جو چاہیں انہیں ہر حال میں دستیاب ہوں اور اگر ان کی خواہشات وقتی طور پر پوری نہیں ہو پاتی ہیں تو وہ خود کشی کی طرف یا پھر بے راہ روی کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ آج کی برق رفتار زندگی جہاں ہر جگہ Compatitionہے اس میں ممکن ہے کہ آپ کو ہر جگہ کامیابیاں نصیب نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ خود کشی کر لیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ والدین کا اضافی دبائو بھی نوجوانوں اور بچوں میں بڑھتی بے راہ روی کی وجہ بن رہا ہے۔ لگژری زندگی گزارنے کی اتنی بُری عادت پڑ گئی ہے۔
Computer
وہ کسی اور طرف سوچتے ہی نہیں۔ آج یہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، نئی جدتوں کے ساتھ پیش کئے جانے والے موبائل فونز ہماری ضرورت بن چکے ہیں ، ہم چاہ کر بھی ان سے کنارا کش نہیں ہو سکتے۔ ہم دوستوں سے بھی الگ نہیں رہ سکتے کیونکہ دوست ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ کہیں ہم اپنی خوشیوں میں اپنوں کو فراموش تو نہیں کر رہے ہیں؟ والدین کی آمدنی کے حساب سے بچے اگر اپنا شوق پورا کریں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ کسی بے راہ روی کی طرف جائیں۔ اگر اس طرف آ ج کی نوجوان نسل توجہ دے تو ان کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی سرخرو ہونگے۔
ویسے تو تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی صارفین کی جیب پر بہت بھار مارنے والی ہے اس کی وجہ تو صاف ہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں نے بھاری لائسنس فیس دے کر یہ سہولت حاصل کی ہے ، جس کا سارا بوجھ براہ راست وہ صارفین پر منتقل کریں گے۔ اخبارات میں موبائل فون آپریٹرز نے اس بات کا بھی عندیہ دے دیا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے عام ہوتے ہی ٹیرف میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ تھری جی ٹیکنالوجی پڑوسی ملک میں بھی خاصی مہنگی ہے، ایسی صورت میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے آنے پر موبائل آپریٹرز کس طرح صارفین کی جیبیں خالی کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہونگے ، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ وقت کے ساتھ اس کی قیمت میں کمی متوقع ہے مگر اس میں یقینا کافی دیر لگے گی۔اس ٹیکنالوجی کی کئی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ کمپیوٹر کا کام اب موبائل فون پرہوگا۔ طالب علموں کے لئے موبائل فون پر ویڈیا لیکچر اور ٹی وی بھی دیکھا جا سکے گا۔جدید ٹیکنالوجی تعلیمی و کاروباری سرگرمیوں اور انٹر ٹینمنٹ مقاصد کے لئے استعمال کی جا سکے گی۔
ہینڈ سیٹس کی طلب بڑھنے اور مقامی سطح پر تیاری سے موبائل فونز کی قیمتوں میں بھی کمی کا امکان ہے۔ تھری جی و فور جی ٹیکنالوجی متعارف ہونے سے آئی ٹی کے شعبے میں کاروباری لاگت میں کمی آئے گی۔ ویڈیو کالز کی سہولت بھی با اصانی میسر ہوگی۔ ای کامرس، ای بینکنگ، ای لرننگ اور ای سروسز کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوگا۔ طلباء و طالبات اور آئی ٹی ماہرین کے ساتھ ساتھ ملک کے شہریوں کو بھی جدید سہولیات میسر ہوں گی۔ ترقی یافتہ ممالک اب تھری جی کو چھوڑ کر فور جی کی طرف مائل ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ہمارے متعلقہ اداروں کی نااہلی کہہ لیں یا کمزوری جس کے باعث پاکستان میں تاحل ٹو جی نظام ہی راء ہے یا چند مزید سہولیات متعارف کرا دینے کے بعد 2.5جی ہو چکا ہے غالباً۔
پاکستان کا موجودہ سیلولر طریقۂ کار جی ایس ایم پر مشتمل ہے جس پر انٹر نیٹ صارفین کا دبائو بڑھنے سے انٹر نیٹ کی رفتار محدود ہوتی چلی جا رہی ہے۔بہرحال خدا خدا کرکے اس نئی تیز رفتار ٹیکنالوجی کا ہمارے ملک میں بھی نیلامی مکمل کر لیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ عنقریب یہ ٹیکنالوجی صارفین کے لئے کارآمد ہو جائے گا۔