پاکستان کے حالات پر میڈیا کا کردار

Pakistan

Pakistan

امریکہ میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات جس کو نائین الیون کا نام دیا گیا بہت سا جانی اور مالی نقصان ہوا۔ قیمتی جانوں کے اس ضیاع کے بعد امریکہ نے خاطر خواہ حفاظتی اقدامات اٹھا کر اپنے عوام کو تحفظ کا احساس دلا دیا۔ ساتھ ہی آئیفل ٹاور کی جگہ ایک نئی بلند و بالا عمارت بھی کھڑی کر دی۔ ادھر پاکستان پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے۔پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگ میں خود کو جھونکنا پڑا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پاکستان اقتصادی معاشی اور معاشرتی طور پر پستی کی جانب گامزن ہے اور امریکہ کا جو صدمہ پاکستان کو لاحق ہوا تھا آج خود اسی صدمے سے دوچار ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ پرائی آگ میں کودنے سے پہلے اپنے آپ کو اچھی طرح جانچ لینا چاہیے۔

جس طرح امریکہ نے اس خوفناک حادثے کے بعد خود کو محفوظ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ،مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نائین الیون جیسے ایک نہیں بلکہ کئی حادثات رونما ہوئے مگر کسی ایک سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا نہ حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے اور نہ ہی انسانی جانوں کے قیمتی ضیاع کو روکنے کی کوئی موثر منصوبہ بندی سامنے آئی ۔ پاکستانی شہدا کی جو تعداد ایک وقت میں بیس ہزار تھی بڑہتی ہوئی ساٹھ ہزار تک جا پہنچی۔

ان قیمتی انسانی جانوں میں سے بہت سے ڈاکٹر وکیل مذہبی سکالر کرنل جرنل سپاہی فوجی الغرض پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ساتھ بہت سے غریب بچے بوڑھے جوان اور عورتیں بھی شامل ہیں ۔ اگر ایک اوسط اندازہ لگایا جائے تو پاکستان کا تقریبا ہر گھر ہی بلواسطہ یا بلا واسطہ دہشت گردی سے متاثر ہے اور شاید ہی کوئی ایسا گھر بچا ہو کہ جہاں صف ماتم نہ بچھی ہو۔ ان تمام حالات میں سیاست دانوں نے موثر اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنے اور عوام کی جان و مال کو محفوظ بنانے کے لئے کسی قسم کی سنجیدہ حکمت عملی تشکیل دینے کے لیئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ بلکہ اس کی بجائے اپنے اور اہل خانہ کے تحفظ کے لئے مہنگی سے مہنگی بلڈ پروف گاڑیاں امپورٹ کیں ۔۔۔ اور عوام کو دہشت گردوں کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔اور ساتھ ہی ستم بالائے ستم یہ کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ جب کسی بھی فرقہ کی اہم شخصیت دہشت گردی کا شکار ہوتی تو بجائے اس کے کہ دہشت گردوں کو پکڑا جاتا الزام اس فرقے یا تنظیم پر لگا دیا جاتا کہ یہ بھیانک قتل انہوں نے خود کروایا۔ جبکہ نفرت انگیز پروپگینڈہ اس بات کا گواہ ہے کہ مخصوص فرقے کوکس طرح نفرت تعصب اور ظلم کا نشانہ بنانے کی ترغیب دی جارہی ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ بیرونی خطروں سے زیادہ ہمیں اندرونی خطرات کا سامنا ہے آپس کی نفرتیں مسلمل بڑھائی جارہی ہیں خواہ یہ صوبائی ،لسانی نسلی فرقہ وارنہ یا پھر سیاسی ہوں ۔نفرتوں کا جال پورے ملک میں پھلایا جاچکا ہے۔ ایسے میں سیاست دانوںاور میڈیا کا کردار انتہائی منفی ہے۔اے آر وائی نے جیو کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع کی جس کا انجام اس کی پندرہ روزہ بندش پر ہوا ۔ جبکہ اس معاملے میں جیو کا کردار بھی انتہائی قابل نفرت رہا ہے ۔ اس چینل سے ایک فرقے کے خلاف باقائدہ قتل کے فتوے تک جاری کئے گئے۔

Terrorist

Terrorist

ہم طالبان کو کیا کہیں کہ ہمارے تو خود معاشرے میں ہر دوسرا شخص طالبان بنا پھرتا ہے۔ باپ اور بھائی غیرت کے نام پر قتل کر کے اپنی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔دولت کے لالچ میں خاندانی قتل وغارت کی خبریں روزانہ ہی اخبارات کی زینت بنتی ہیں ۔پھر ناگہانی واقعات اور حادثات اس کے علاوہ ہیں کہ جو لاپراوہی ناقص منصوبہ بندی اورغفلت کا نتیجہ ہیں۔۔ ابھی حال ہی میں کراچی کے کولڈ سٹورج میں ہونے والا دلخراش واقعہ انتہائی عبرت ناک اور بے حسی کی اعلی مثال ہے پاکستان کے سیاست دانوں کی یہ بے حسی اور پاکستان کے عوام کے دکھ اور تکلیف سے لاعلمی اب تو ناقابل بیاں ہوتی جارہی ہے۔ کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ جہاں اسلامی طرز زندگی کا فقدان ہے۔شدید گرمی کے موسم میں کی جانے والی طویل غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھی عوام کے لئے وبال جان بنی ہوئی ہے ۔مگر حکمران ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے خلاف مضحکہ خیز بیانات داغنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ شیخ رشید، رانا ثنا اللہ تو اپنے بیانات سے ہی عوا م کو محظوظ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔۔ شہباز شریف کو عوامی جان و مال اور بہتر طرز زندگی عوام کو دینے کی بجائے میٹرو زیادہ بھاتی ہے۔ اگر ایک بھوکا بے روزگار پاکستانی میڑو پر سفر کرے گا تو کچھ دیر کے لئے ہی سہی اس عوامی سہولت سے خوب لطف اٹھا سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے گھر تک پہنچنے کی ضمانت حکومت بھی نہیں دیتی۔

کسی بھی ترقی پزیریا ترقی یافتہ ملک کی حکمت عملی میں سب سے پہلے عوامی تحفظ پھر زندگی کی بنیادی سہولیات اور اس کے بعد کہیں جاکر تعیشات جن میں میڑو بس بھی شامل ہے دینا فرض ہے۔۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ مگر ان حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ یہ اندھے بہرے اور گونگے ہیں اور سمجھتے نہیں۔۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مزید قیمتی جانیں نام نہاد انقلاب کی نظر ہو رہی ہیں جو اس ملک میں آنا مشکل ہے۔۔ اگر انقلاب ہی لانا ہے تو حکمران ایسے دور رس منصوبے تشکیل دیں جو عوام اور ملک کی بہتری کے لئے ہوں اور طالبان اگر اسلامی نظام چاہتے ہیں تو ہتھیار پھینک کر عوامی فلاح بہبود کے کاموں کی طرف توجہ دیں، اس طرح اس ملک میں ایسا انقلاب آئے گا کہ برسوں نہیں بلکہ دنوں میں بہترین نتائج ملنا شروع ہو جائیں گے۔۔ مگر اصل بات تو یہ ہی ہے کہ کوئی بھی عوام کی بہتری کے لئے کام کرنے کو تیا ر نہیں ہے۔ہر کسی کو بس اپنا ہی مفاد عزیز ہے جب ایسی صورتحال ہو تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Maryam Samaar

Maryam Samaar

تحریر : مریم ثمر