پاکستان کے حالات اور ہماری حکمت عملی

Pakistan

Pakistan

تحریر : رقیہ غزل
اگر پاکستان کو درپیش خطرات کے تناظر میں بات کی جائے تو پاکستان کو صرف بھارت ہی سے نہیں بلکہ افغانستان اور ایران سے بھی کسی حد تک خطرہ لاحق ہے بھارتی عزائم تو کسی سے بھی چھپے ہوئے نہیں ہیں جو کہ اب کشمیر کاز کو جوازبنا کر جارحیت، ہرزہ سرائی اور اشتعال انگیزی کا کھلا مظاہرہ کر رہا ہے بغل میں چھری اور منہ میں رام رام اس کے پالیسی سازوں کا روز اول سے وطیرہ رہا ہے جبکہ امریکہ پاکستان کے ذریعے افغانستان کی ہاری ہوئی جنگ جیتنا چاہتا ہے اور ایران ویسے ہی در پردہ کاروائیوں میں مشغول ہے کیونکہ وہ فرقہ وارانہ جنگ کا شکار ہے اور گاہے بگاہے اس کے بیج بھی بو رہا ہوتا ہے بشمول سعودی عرب وہ ہر ممکن علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان نہ امریکہ کی مدد کر سکتا ہے اور نہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتیوں کے جاری ظلم و ستم پر آنکھیں بند کر سکتا ہے دوسری طرف دوستانہ راہداریوں پر مئوثر اور معقول نظر نہ رکھنے کی وجہ سے دشمن پاکستان میں نقب لگا چکا ہے۔

ہم دوستی کے جذباتی نعروں کے جال میں پھنس چکے ہیں اس پر طرہ یہ کہ پاکستان پہلے ہی سے دہشت گردی کی جنگ جیسے عفریت سے نبردآزما ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ دونوں ہی الزام بھی پاکستان کو دیتے ہیں الگ یہ بات کہ ہر حملہ جو کہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے اس کی تحقیقات میں بھارتی ایجینسی ”را” کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملتے ہیں یہاں تک کہ فاٹا اور بلوچستان بھارتی ایجنسی ”را” کا آسان ہدف بن چکے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق بھارت پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی مثبت کاروائی کبھی نہیں کی ہے اور مذموم عناصر پاک دھرتی میں پناہ گزین ہیں حالانکہ ”ضرب عضب ” کی بدولت ہم یقینی حد تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکے ہیںاور اگراس میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی ہے تو اس کی ذمہ دار بھارتی خفیہ ایجنسی ”را ” ہے جو کہ پاکستان میں مسلسل کاروائیوں میںمشغول ہے تاکہ پاکستان دہشت کے خوفناک عفریت سے کبھی نہ نکل سکے اور کمزور ہو کر ناکام ریاست بن جائے۔

یہ طے ہے کہ ہم چاہ کر بھی بھارتیوں ،امریکیوں اور افغانیوں کو مطمئن نہیں کر سکتے ،امریکیوں کی خواہش ہے کہ پاکستان افغانی طالبان اور ان کی قوتوں کا خاتمہ کرنے میں ہماری مدد کرے جنھیں گذشتہ کئی برس سے اپنی تمام عسکری قوت کے استعمال کے باوجود وہ ختم نہیں کر پایا تا حال بھی افغانی طالبان ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں ،بھارت سیکولرازم اورایران فرقہ واریت اور تعصب پھیلاکر وطن عزیز کو کمزور کر نے کے در پہ ہے اس پر دوہرا ستم یہ ہے کہ بھارت پیدائشی اور دیرینہ ہندو مسلم دشمنی کی آڑ میں اندھا ہو چکا ہے وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو تحریک ہی نہیں مانتا اور کشمیری بھائیوں کو حق خود ارادی دینے کو تیار ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل اس نے کشمیریوں پر کشت و خون کا بازار گرم کررکھا ہے اور یہ سب کس کی ایما پر ہو رہا ہے فی الحال واضح نہیں ہے کیونکہ کچھ بیرونی طاقتیں بھی انڈیا سے روابط بڑھانے کے چکروں میں ہیں چونکہ انھیں ایشیا سے ہمیشہ سے خاص رغبت رہی ہے اور وہ ماضی کو دہرانا چاہتی ہیں دوسری طرف ہندو وہ قوم ہے جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور وہ نادان ہیں اس لیے بھی موجودہ حالات کس حد تک کشیدگی کی طرف جا سکتے ہیں۔

Narendra Modi

Narendra Modi

یہ کہنا نا ممکن ہے ویسے نریندر مودی کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ سینکڑوں مسلمانوں کا قتل و خون کر کے بر سر اقتدار آئے تھے اور ان کے ایجنڈوں اور مقدرمیں یہ کشت و خون اور تباہی و بر بادی شامل ہے اس لیے وہ نہ صرف مسلمانوں کا اس خطے پر جینا دو بھر کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ پاکستان کو (خاکم بدہن )توڑ کر تاریخ میں سیاہ حروف میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں اسی لیے عید پر اپنی تقریر جو کہ سرا سر جھوٹ ،منافقت اور ریاکاری کا پلندہ تھی اس میں یہ اعتراف بھی تھا کہ وہ پاکستان میں مذموم کاروائیوں اور مداخلت میں مشغول ہیں اور وہ یہ سب پاکستان کے چند مخصوص علاقوں کی بد نیتی اور بد دیانتی سے مدد کرنے کے لیے کر رہے ہیں جوکہ ان کے خیال میں پاکستانی حکومت سے نا خوش ہیں جبکہ انہی علاقوں میں نریندر مودی کے پتلے جلائے گئے اور اس کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں تھیں حقیتاً ”لفظی جنگ ”کا آغاز آج سے دو ماہ قبل ہو گیا تھا جس کی پہل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کی تھی مگر ہماری طرف سے ہنوز خاموشی اور بہتر حکمت عملی دیکھی گئی جس کا نتیجہ ہے کہ تلواریں میانوں سے باہر نکال کر دکھائی جا رہی ہیں مگر در حقیقت یہ سب کچھ دکھاوا اور نمائشی کھیل بن چکا ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ کہنا کہ حالیہ صورتحال وزیراعظم پاکستان کے کشمیر کاز کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے سے پیدا ہوئی ہے چونکہ یہ ممکنہ امکانات میں سے ہے اس لیے بھی یہ حیران کن ہے کہ جب پانامہ ہنگامہ کے زیر اثر تمام سیاسی جماعتیں رائیونڈ پر دھاوا بولنے کا اعلان کر چکی تھیں تو ایسے میں وزیراعظم پاکستان کا ایک ہاٹ اور اہم ترین ضروری ایشو کو اٹھانا اور اس کے لیے استقامت کا مظاہرہ کرنا حالانکہ دونوں عہداران میں دوستی کا یہ عالم کہ ہارٹ سرجری سے پہلے نریندر مودی کو فون کرنا وغیرہ بریں وجہ عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ تعلق جو دو ماہ پہلے اتنا مضبوط تھا اس میں ”جنگ ” کی نوبت کیسے آسکتی ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ حکمران جماعت پر بین الاقوامی سطح پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات جاننے کے لیے عوام بیقرار ہیں جبکہ اب اکثریت یہ کہتی دکھائی دے رہی ہے کہ ایسے وقت میں سب بھول کر حکومت اور فوج کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے الغرض یہ وہ سیاسی تار عنکبوت ہے جس میں داخل ہونے والا کھو کر رہ جائے گا۔

ویسے یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر سبھی خوش ہیں کہ کشمیر کاز کو اٹھایا گیاہے وہیں پر یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک بہت بڑی تعداد جنھیں صحافی کہا گیاان کو لے کر جانے کی ضرورت کیا تھی اور کیا یہ سبھی اس قابل تھے کہ اس مسئلہ کو بیان کر سکتے تھے اور ان پر اخراجات ۔۔۔اخراجات کا ہی تو جھگڑا تھا ۔۔عوامی پیسے کا ہی تو مسئلہ تھاکہ جو پیسہ باہر جا چکا ہے اس کا حساب دیا جائے! مگر ستم یہ بھی ہے کہ عدل و انصاف کا ترازو صرف کمزوروں اور عوام کے لیے ہے کہ سرکاری واجبات ادا نہ کرنے پر آناً فاناً سروسز منقطع کر دی جاتی ہیں مگر اہل اقتدارپر کبھی کوئی گرفت نہیں ہوتی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جن ملکوں پر مفاد پرست اور لاپرواہ حکمران مسلط ہوں وہاں دشمن فصیلوں میں گھس جاتے ہیں اوروقت پڑنے پر و ہاں کے نہ دفاعی ہتھیار کام آتے ہیں اور نہ دفاع کرنے والے کامیابی پاتے ہیں جیت ہمیشہ حق اورعدل و انصاف پر جینے والوں کی ہوتی ہے کہتے ہیں کہ جنگ عظیم کے دوران چرچل کو ایک وفد نے بتایا کہ جرمن جہازوں کی بمباری سے لندن کھنڈر بن چکا ہے اور برطانیہ کو سخت خطرہ ہے تو چرچل نے کہا! مجھے بتائو ،کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں اور لوگوں کو سستا ،فوری اور ٹھیک انصاف میسر آرہا ہے کہیں لوگ نظام عدل سے مایوس تو نہیں ہیں تو وفد نے جواب دیا کہ جناب عدالتیں بہتر کام کر رہی ہیں اور کسی کو بھی کوئی شکایت نہیں ہے ،تو چرچل نے کہا کہ پھر فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،یقینا ہم سرخرو ہونگے۔

Control Line Aggression

Control Line Aggression

ایسے ہی حضرت عمر فاروق کے دور میں ایک بار مدینہ میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو حضرت عمر نے اپنا دُرّا(کوڑا) زمین پر مار کر کہا کہ اے مدینے کی زمین ! کیا تجھ پر انصاف نہیں ہو رہا جو تو ہل رہی ہے وہاں تھر تھرا جہاں تجھ پر عدل نہیں ہوتا !تو اللہ کی مہربانی اور رحمت سے زلزلہ تھم گیا ۔ثابت ہوا کہ کسی معاشرے کی مضبوطی اور استحکام کے لیے عدل و انصاف ضروری ہے جبکہ دونوں ریاستوں میں انصاف کی صورتحال تشویش ناک ہے بھارتی اکثریت حبس بیجا میں ہے سکھ،بھارتی مسلمان،چھوٹی ذات کے ہندومکارہندوئوں سے نجات چاہتے ہیں بلاشبہ پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہے مگر عدل و انصاف کے ہر طرح کے معاملات بارے سب با خبر ہیں کہ ماں عدالت میں کھڑے ہو کر کہتی ہے کہ چیف جسٹس صاحب! میری جوان بیٹیاں ہیں کہ میں کیس نہیں لڑ سکتی میں بیٹے کے خون کو بھول جائونگی ، آمنہ جیسی لڑکیاں جو کہیں خود سوزی کرتی ہیں اور کہیں خود کو تھانے کے سامنے آگ لگا لیتی ہیں کہ عزتوں کے لٹیروں کو بالآخر پناہ حاصل ہے اوربعض جگہوں پر افسر شاہی اور وڈیرہ شاہی سر عام من مانیاں اور زیادتیاں کرتے پھرتے ہیں اور انھیں کوئی پکڑنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ جیلوں میں قید لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں یعنی پاکستان کا عدالتی نظام کے معاملات الیکشن کے ہوں یا روزمرہ زندگی کے وہ سب ہی” نظریہ ضرورت” کو آئین سمجھنے پر مجبور ہیں ویسے اس سے بھی” بد ترین” صورتحال بھارت میں ہے اس لیے کوئی جیتے یا نہ جیتے اتنا ضرور ہوگا کہ بیرونی طاقتیں ضرور فائدہ اٹھا لیں گی اس لیے آج صرف جہادی نعروں کی نہیں بلکہ بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ”ہوشمندی ”سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

ایسے میں اول تو جنگ ممکن نہیں ہے کیونکہ بھارت اتنا بیوقوف نہیں ہے کہ ایسے وقت میں جنگ کا الارم دے جبکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے اپنے ملک میں خانہ جنگی کا سا ماحول ہے اور اس کی مذموم کاروائیوں سے اس کے اپنے لوگ اس سے نفرت کے شدید جذبات رکھتے ہیں اور بالفرض وہ ایسی کوئی حماقت کرتا بھی ہے تو یہ تیسری جنگ عظیم کا الارم ہوگا اور یہ جنگ پہلی دو جنگوں سے زیادہ خطرناک ہو گی جس کے نتائج بہت مہلک ہونگے اس لیے بہتر ہے تمام ایشوز کو ٹیبل ٹاک سے حل کیا جائے۔

جیسا کہ حصول پاکستان کے وقت ہمارے قائد ۔قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا اور یہی بہتر حل ہے ورنہ روس کا فوجی دستہ پا کستان مشترکہ جنگی مشقوں کے لیے پہنچ چکا ہے اور ترکی اور چین پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان واشگاف الفاظ میں کر چکے ہیں اس کے علاوہ بھی ہمارے جری اور بہادر فوجی جوان پرعزم ہیں اور عوام بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے کم نہیں ہیں کیونکہ ہمارے دلوں میں قرآن ہے اور لبوں پر لاالہ الاللہ محمدرالرسول اللہ ہے یہ ٹکرائو کسی کے لیے بھی کسی بھی صورت سود مند ثابت نہیں ہوگا! ارباب اختیار سے استدعا ہے کہ اپنی کوتاہیوں اور کوتاہ نظریوں کی اللہ کے حضور معافی تلافی کر کے عدل و انصاف کی فراہمی کو فوری اور آسان بنائیں اور مابین فریقین اندرون ملک افہام و تفہیم ہو اور معاملات میں میرٹ کو یقینی بنایا جائے ۔پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا بلکہ اس ملک کا ہر باسی خواہ وہ کسی مذہب یا عقیدہ یا خاندان سے ہو بالآخر کٹ مرے گا شہید ہو جائے گا مگر ارض پاک کے چپے چپے کی حفاظت کرے گا اور ہر دشمن کا منہ کالا کرے گا ،اس خطئہ پاک کو کسی طوفان کا ڈر نہیں کیونکہ اللہ خود اس کا محافظ ہے ۔پاکستان زندہ باد ! پائندہ باد!

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر : رقیہ غزل