تحریر : عقیل احمد خان لودھی 70برس کا پاکستان آج تک کیوں خود مختار ، محفوظ، مستحکم ملک نہیں بن سکا۔ یہ بات کسی اور کے سوچنے کی نہیں اگر عوام اس بارے میں فکر نہیں رکھتے تو یقین جانئے 1ہزار70برس بھی گزر جائیں وطن عزیز میں ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ پاکستانیوں کو آج تک انصاف ، روزگار کے علاوہ صاف پانی ،علاج معالجہ،صحت عامہ جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان کس وجہ سے ہے ؟ عام آدمی کی اپنی نالائقیوں کی وجہ سے’ کہ جنہیں اپنے حقوق کی پہچان نہیں جنہیں یہ تک پتہ نہیں کہ آئین اور قانون کس بلا کا نام ہے وہ اپنے آئینی حقوق کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں ، 22 کروڑ پاکستانیوں میں سے18 کروڑ سے زائد تو ایسے ہیں جو صرف دن اور راتیں گزار کر وقت کاٹنے کو ہی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں باقی عوام بھی اسی طرح ہیں مگر کچھ حد تک اتنا شعور رکھتے ہوں گے کہ وہ انسان ہیں اور کسی باقاعدہ ریاست کے باشندے ہیں ریاست کے فرائض اور اپنے حقوق کے بارے میں قدرے سمجھ بوجھ رکھنے والے اس حد تک سمجھنے والے کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں ، ناانصافیوں کی پہچان کرسکیں خواہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں یا نہ اٹھائیں مگر اتنا ضرور جانتے ہوں گے کہ کسی معاملہ میں ان کی حق تلفی ہوئی ہے تاہم مجموعی طوراگر دیکھا جائے تو کروڑوں پاکستانیوں نے خود کو چند خاندانوں کی رعیت سمجھ رکھا ہے اور ثواب سمجھ کر ان خاندانوں کی مدح سرائی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔ مذہب کے نام پر پیروں فقیروں کی غلامی میں اپنی عزتوں کے جنازے نکالے جاتے ہیں تو کہیں سیاسی پنڈتوں کی چوکھٹوں پر سر جھکائے انسانیت کی تذلیل کے مظاہرے عام ہیں۔
سات دہائیوں میں پاکستانی ایک قوم نہیں بن سکے بدقسمتی سے ہم اپنی نسلوں کی ذہن سازی اس انداز میں کررہے ہیں کہ وہ شعور کی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل ہی اپنے پرکھوں کی پیروی میں غلامی کی تسبیح میں پروئے جاتے ہیں ، اچھے بھلے پڑھے لکھے خواتین وحضرات وکلائ، ججز اور دانشور حضرات چند خاندانوں کی تسبیح وتعریف کو باعث تسکین سمجھتے ہوئے کرپٹ ترین، غلیظ شخصیات کو قوم وملت کیلئے مفید قیاس کرتے ہیں ۔ ایسے افراد کو جن کے ہاں خدا خوفی جیسے معاملات کچھ حیثیت نہیں رکھتے جو اپنے حسب نسب پر اس وجہ سے فخر کرتے ہیں کہ ان کے باپ دادا دوسروں پر حاکمیت کرتے رہے ماں جیسی ریاست سے کھلواڑکرکے اپنے لئے اثاثوں کے پہاڑ بنالئے ملکی خزانہ کو بظاہر ملکی ترقی کے استعمال کا دکھاوا مگر اندرون خانہ کمیشنوں اور مختلف منصوبہ جات میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال سے لوٹ مار کی اور کسی کی پکڑ میں بھی نہ آئے ، رشوت خوری ، نوکریاں فروخت کرنے کے علاوہ اپنے چہیتوں کو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز کرواکے خود کو اس معاشرے میں ناقابل گرفت بنا لیا۔ ماورائے آئین اقدامات کے باوجود ریاستی اداروں کی پکڑ سے دور رہنے والے۔ ایسے افراد کو ہم کروڑوں پاکستانی (جن میں بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کی بھی ہے) اس قابل سمجھتے ہیں کہ یہی اقتدار میں رہنے کے شایان شان ہیں کوئی ایسا شخص اقتدار کے لئے ہماری سوچ کے قریب بھی نہیں پھٹکتا جس کے پاس اربوں کھربوں کے اثاثہ جات نہ ہوں جس کی افیکٹریاں، جاگیریں، اندرون، بیرون ملک کے بینکوں میں بھاری بھر کم اکائونٹس نہ ہوں۔ ہمیں اس وطن عزیز کے نظم ونسق کو چلانے کیلئے قابل بددیانت افراد کی ضرورت ہے جو کمال مہارت سے خزانہ سرکار کو چونا لگائیں ہمیں ایسے افراد کی ضرورت نہیں جو حرام خوری ، حق تلفی کوباعث گناہ سمجھیں ایسے افراد کا اقتدار میں آنے کا جواز ہی کیا ہے کہ جس کے پاس جھوٹ، بددیانتی، بے ایمانی جیسی دولت ہی نہ ہو۔
یہی ہماری سوچ ہے جس کے پیرائے میں چل کر ہم نے پاکستان کو ذلت، رسوائی،بدنامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہمارے لیڈروں کی نیک نامی اور کامیابی کیلئے امریکہ برطانیہ کا سرٹیفائیڈ ہونا لازمی بنا دیا گیا ہے جس شخصیت پر ہمارے یہ نام نہاد دوست ممالک سرمایہ کاری کردیں اسے لیڈر تسلیم کرلینا ہمارے اپنے اوپر لازم کرنا پڑتا ہے۔ کون معصوم ہے کس کی قربانیاں تسلیم کی گئی ہیں اور کس کو قربان کیا جاناہے اس کے فیصلے ہم خود نہیں کرسکتے اس کیلئے بھی ہم اپنے لیڈروں اور ان کے گروئوں کے احکامات کو ماننے کے پابند ہیں۔ ہم کیا ہیں اور کیوں ہیں ؟ یہ جاننے کا حق ہمیں نہیں دیا گیا کہ ہم نے خود کو اپنے طور پر بھی انسان تک تسلیم نہیں کیا ہوا کیونکہ جس سطح پر عقل ودانش اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہمارے سیاسی لیڈروں کو عطا کی گئی ہے وہ ہم میں کہاں ؟ ہم نے عدالتوں کے فیصلوں پر پھانسی لگائے گئے مردوںکو زندہ رکھنا ہے اور ہر صورت رکھنا ہے۔ اگر ہم انہیں زندہ نہیں رکھیں گے تو ہم شاید عذاب الٰہی سے دوچار ہوجائیں گے یا کسی وبا کے ہاتھوں مارے جائیں گے ، ہم نے بے ایمانوں، جاہلیت کے علمبرداروں ، ملکی خزانے کھوکھلے کردینے والے ، ریاستی اداروں کو تباہ وبرباد کردینے والوں مگر اپنے ذاتی ناقابل تسخیرمحلات کھڑے کرنے والوں ، وسیع وعریض منافع بخش کاروباروں کو فروغ دینے والے لٹیروں ، بدمعاشوں کو شرافت کے پیکر ماننا ہے ورنہ ہم شاید زمین میں زندہ گاڑھ دیئے جائیں گے۔ یہ ہماری سوچ کے پہرے ہیں عقلوں پر حصار ہے۔
اپنی اپنی سوچ کے دائرے ہیںجن سے ہم باہر نکل کرسوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمیں اس ریاست سے علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہیں آسکیں ہم اپنے وطن کے ہسپتالوں میں اس لئے اپنے پیاروں کو لیکر جاتے ہیں کہ وہاں سے ان کے مرنے کے تصدیقی سرٹیفکیٹس لاسکیں، ہمارے تعلیمی ادارے ہمارے مستبقل کے زوال پرمہر تصدیق لگانے کیلئے ہیں ، ہمارے سرکاری ادارے ہماری نسلوں کو غلامی کا سبق سکھانے اور چند آقائوں کی پیروی کا پابند بنانے کیلئے ہیں۔ کیا ہیں ہم ؟ کیوں ہیں؟ یہ ہم نے کبھی نہیں سوچنا اور جب تک ہم نے اس بات کو نہیں سوچنا ہم نے ذلیل وخوار ہوتے رہنا ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کی ذلالت ، چند خاندانوں کی غلامی کاٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ ہم نام نہاد جمہوری سسٹم کو کبھی چند خاندانوں کیلئے بدمعاشی کا لائسنس نہیں سمجھیں گے ۔اس اشرافیائی جمہوریت کو کہ جس نے ہمارے تھر کے لوگوں کو تو صاف پانی کی فراہمی کا کبھی بندوبست نہیں کیا الٹا اسی اشرافیائی مخلوق کے ذاتی بزنس ، فیکٹریوں سے نکلنے والی کثافت نے ہمارے ماحول کو تباہ کردیا ہے۔سیوریج کا مناسب بندوبست نہ ہونے اور نکاسی کے سسٹم کو کنویں بنا کر نیچے سما دینے سے زیر زمین پانی آلودہ ہو کر ہماری رگوں میں اترنے سے جواب دے رہا ہے مگر کہیں کسی بھی جگہ کوئی ادارہ بااثر افراد کیخلاف کاروائی نہیں کرسکتا۔ کیسے کرے ؟ کہ ان اداروں میں بیٹھے ہمارے لیڈروں کے چہیتے ہیں یا ان کے مرہون منت ہیں ۔ اگر ہم نے اپنی حیثیت کو منوانا ہے بحثیت انسان اس معاشرے میں کوئی پہچان بنانی ہے تو خدارا ہمیں سوچنا ہوگا۔ ہمیںاپنے بچوں کے مستقبل کیلئے سوچنا ہوگا ہمیں اپنی نسلوں کو چند خاندانوں کی غلامی سے نجات دلانا ہوگی۔ اپنے یرغمالی اداروں کو حقیقت میں عوام دوست اداروں میں تبدیل کرنا ہوگا،سوچیں ۔۔! کیا ہمیں اپنے ملکی اداروں سے وہ سہولیات میسر ہیں جن کی فراہمی مہذب ریاستیں یقینی بناتی ہیں؟ ہرگز نہیں!۔ ہمارے ہسپتالوں سے ہمیں علاج معالجہ ،سکون کی بجائے مزید بیماریاں ،اذیتیں ملتی ہیں مریضوں اور لواحقین کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔
ملکی اداروں سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہمارے اپنے ہی ادارے تسلیم نہیں کرتے جبکہ فارن ڈگریوں کی حامل حکمرانوں اور دیگر چند فیصد خاندانوں کی اولادوں کو بیرون ممالک کی یونیورسٹیوں سے جاری کردہ ڈگریوں پر بغیر کسی عذر اعتراض کے قبول کیا جاتا ہے اور انہیں لاء اینڈ آرڈرکیلئے مختص اداروں میں بطور آفیسر بھرتی کرکے ہر طرح کے انتظامی معاملات اور ملکی وسائل پر براجمان کردیا جاتا ہے۔ جمہوریت جمہوریت کے راگ الاپنے والے ہر طرح سے اقتدار پر قابض ہیں ۔مگر ہمارے لوگ اس قدر سادے ہیں کہ انہیں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا بھی نہیں آتی ان کے سامنے حکمران اور ان کے خاندان ملکی اداروں سے علاج کروانا بھی گوارہ نہیں کرتے۔سوچو! اپنے لئے خود ہی مل بیٹھ کر طے کر لی جانے والی مراعات پر سرکاری خزانہ سے لاکھوں کروڑوں خرچ کرکے بیرون ممالک سے علاج کروانے والے اپنے عوام کے خیر خواہ کس طرح ہوں گے ؟انہیں کیا کوئی ان کی بلا سے مرے یا جئے ۔ مگر یہ عوام سوچ لیں ایکا کرلیں اپنے حقوق کیلئے ، یکجان ہوں ایک آواز ہوں ان حکمرانوں کی عیاشیوں، اللے تللوں کے خلاف ۔ہر سطح پر ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اس بات کا مطالبہ ہو کہ حکمرانوں اور ان کے خاندان کے کسی فرد کو بیرون ملک علاج معالجہ کی اجازت ہر گز نہیں ہوگی جس طرح عام افراد اپنے ملک کے ہسپتالوں میں لائنوں میں ،ایک ایک بستر پر دو دو چار چار مریض ذلیل وخوار ہوتے ہیں۔
اسی طرح ان کیساتھ یکساں سلوک ہو۔بیرون ممالک علاج کیلئے گئے ہوئوں کو وطن عزیز میں لاکر یہاں کے ہسپتالوں میں داخل کروایا جائے ۔بیرون ممالک تعلیم پر پابندی لگا دی جائے سبھی افراد ملکی اداروں سے ایک جیسی تعلیم حاصل کریں فوری طور پر بیرون ممالک سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ملکی سیاست اور انتظامی محکموں میں تعیناتی پرپابندی لگائی جائے کہ اشرافیہ کی اولادوں کے پیش نظر مشن حاکمیت کے رحجان کو پروان نہ چڑھایا جاسکے ۔وزیروں، مشیروں کو محکمہ کے اندرونی امور میں دخل اندازی کی اجازت نہ دی جائے کہاں محکموں کے سربراہان کیلئے پی ایچ ڈی، ایم فل ، ماسٹر ڈگری حامل ہونا تو لازمی ہوتا ہے مگر عوامی ہجوم کے ووٹوں سے منتخب ہو کر بعد میں وزارتیں بانٹنے والے میٹرک پاس بھی نہ ہوں اور ملکی اداروں پر اپنی نالائقی کے ڈھونگ رچاتے رہیں۔بیرون ممالک سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو خدمت خلق کے شعبوں،تعلیم ، صحت ،ڈاکخانہ جات اور دیگر ایسے محکموں میں تعیناتی کیلئے مختص کیا جائے۔ قوانین کے نفاذ کیلئے ہر طرح کے استثنٰی کو ختم کرکے سبھی قانون شکن افراد کیساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔غیر ممالک میں کاروبار رکھنے والوں کیلئے ملکی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی جائے کسی ایک خاندان کے ایک سے زائد فرد کو ملکی سیاست میں حصہ نہ لینے دیا جائے۔ نااہل سیاستدانوں سے کنارہ کشی اختیار کی جائے عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے کہ انہی عدالتوں کے فیصلوں کو عام لوگ من وعن تسلیم کرتے ہیں ۔اپنی افواج کا احترام کیا جائے۔ایسا ہوگا تو یقینا اس سے ملک کے حالات بہتری کی جانب آئیں گے۔ ورنہ یہ بات یاد رکھیں۔۔۔ بقول بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ” خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔۔۔۔