تحریر : شاہ بانو میر “”آگے بڑھو آگے بڑھو پاکستان”” جیسا جملہ شعور میں کہیں پیوست ہو کر مسلسل آگے بڑھو پاکستان کی تکرار یوں کر رہا ہے جیسے کوئی ریمائنڈر وقت پر شور مچا کر بے خبر کو خبر دے رہا ہو کہ اٹھو اپنا کام مکمل کر لو٬ ٹی وی پر جشن آزادی کے ساتھ ہر تاریخ کے ساتھ آگے بڑہنے کی سوچ کے ساتھ ٹی آن کیا ٬ سامنے عوام کا ہجوم اللہ کی پناہ گننا محال اور جزبے وہی جو 1947 میں اس وقت تھے بالکل وہی منظر لگا ٬ مگر فرق یہ تھا تب قائد کے ساتھ عوام نیا ملک نئی قوم بن کر سامنے آ رہی تھی ٬ طاقت دکھا کر دشمن کو مرعوب کرنا برحق تھا٬ مگر اس وقت 70 سال بعد اس ملک کا وزیر اعظم نا اہلی کے بعد اپنا دکھ اپنی عوام کو باوقار انداز میں سنا رہا تھا ٬ عوام نے حسب عادت بھرپور پزیرائی دی اور ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا٬ ذاتی حملے کسی سیاستدان پر نہیں کئے ٬ یہ سیکھنا ہوگا اُن لوگوں کو جو عوامی عوامی پیڑھے پر کھڑے ہو کر سطحی زبان کا استعمال کر کے اپنا سیاسی قد چھوٹا کرتے ہیں٬ نواز شریف کا یہ انداز واقعی آگے بڑھنا ہی ہے کہ ایک نامور سیاسی طاقت کو بے دخل کر دیا جائے اور ملک میں پتا تک نہ ٹوٹے ٬ سمجھداری سے وہ گھر جاتے ہوئے عوام کا شکریہ ٬ اپنا گِلہ ٬ اور ساتھ ہی ساتھ ضمنی الیکشن کیلیۓ اپنے ووٹر کو بھی ووٹ کیلیۓ مستحکم کر گئے ٬ ماننا ہو گا۔
عوامی طاقت ابھر کر سامنے آئی اور عرصہ دراز کے بعد سیاسی طاقتور عوامی شو دیکھنے کو ملا٬ مگر یہ کیا؟ ہر چینل مبالغہ آرائی پر آمادہ لوگ باہر نہیں نکلے؟ لگتا ہے کہمخالف سیاسی جلوس ہو تو ہم عدسہ آنکھوں کے سامنے رکھ لیتے ہیں جو حجم کو پھیلا کر بڑھا دیتا ہے اور اس میں بڑا لشکر نہیں صرف ایک شخص دکھائی دیتا ہے ٬جب یہ سیاستدان اپنا جلوس نکالتے ہیں تو عدسہ ہٹا دیتے ہیں اور دوربین لگا لیتے ہیں جس سے ہجوم سکُڑ جاتا ہے کہ تمام لوگ بمعہ چھوٹی بڑی چیزوں کے سب جلسہ گاہ کا حصہ دکھائی دیتے ہیں ٬ تو یہ کھیل ہے عدسہ اور دوربین کا جو ہماری سیاسی روایت ہے۔
چینل بدلا تو پتہ چلا کہ اسی وقت پی پی پی کا سیاسی جلسہ بھی ہو رہا ہے جس میں بلاول بھٹو جو مستقبل کے حوالے سے نوجوان سیاسی قیادت کی صورت ابھر کرسامنے آ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ رہی ہے کہ انہیں مکمل طور پے حالات یا مخالف گرا دیتے ہیں یا بظاہر مٹ جاتی ہے مگر تارخ گواہ ہے کہ یہ پارٹی پھر سے الیکشن کے وقت ایسے ابھرتی ہے کہ اپنی باری لینا نہیں بھولتی٬ عظیم الشان جلسہ جو پیپلز پارٹی سے فی الحال متوقع نہیں تھا٬ مگر یہ کارنامہ بلاول نے سر انجام دےدیا ٬ پارٹی میں بیک وقت دو نظریات دکھائی دے رہے ہیں۔
ماں کی طرح بے لاگ سیاست کرنے کی خواہش رکھنے والا بلاول٬ دوسری جانب منجھے ہوئے سیاستدان زرداری کی حکمت عملی پر مبنی کامیاب سیاست کرتے ہوئے بزرگ سیاسی رہنما ٬ یہ وہ ہیں جو سیاست سے بالاتر ہو کر اداروں میں حکومتی اراکین کے ساتھ مل کر نئی قانونی اصلاحات لانے کا عندیہ دے چکے ہیں ٬ نیا دور رقم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ سیاستدان٬ یہ بھی آگے بڑھو کامیاب پاکستان کا نیا رُخ ہے ٬ کہ جس سے جو ہو چکا ہو چکا مگر آئیندہ کیلیۓ ایسے چور راستے بند ہو جائیں گے جہاں کوئی ادارہ کسی صورت عوامی مینڈیٹ کو حقیر نہیں جانے گا۔
تیسری جانب 13 اگست کو عوامی مسلم لیگ کے جلسہ عام میں پانامہ میں ساتھ دینے پر تحریک انصاف شکریہ یوں ادا کر رہی ہے کہ ان کے جلسے میں شرکت کرنے جا رہی ہے٬شیخ رشید کا اس سارے عمل میں کیا کردار ہے وہ عوام کا بچہ بچہ جانتا ہے٬عمران خان کو مستقل کہرام مچانے پر آمادہ کرنے والا ٬ ملک کے امن کو سکون کو سبو تاژ کرنے والا یہی ایک نام ہے۔
ایک سال کا انتظار کر کے نظام کو معتدل نہ رہنے دینا اسی انسان کا کارنامہ ہے۔جسے بہرحال کسی بھی سطح پر کسی بھی طرح سے آگے بڑہنے والے پاکستان کیلیۓ مفید نہیں قرار دیا جا سکتا٬ عوام کا جوش جزبہ جشن آزادی کے حوالے سے آگے بڑہتے ہوئے روشن پاکستان کیلیۓ نمایاں طور پے دیکھا جا سکتا ہے٬ 2013 کا پاکستان تاریکیوں کی داستان سنا رہا تھا ٬ جبکہ دن رات کی محنت اور انتھک توجہ سے بھاری بھرکم منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔
نئے وزیر اعظم کا سرکاری رہائشگاہ میں قیام نہ کرنا اپنے قائد اور جماعت کے ساتھ وفاداری کا بین ثبوت ہے٬ پارٹی میں قیادت کا بحران پیدا کیا گیا مگر جماعت اور ساتھی وفادار رہے٬ یہ بھی آگے بڑھتے پاکستان کی نئی نشانی ہے۔
آگے بڑھو پاکستان میں 2 اہم نقاط سمجھ میں آئے سیاسی قیادت چاہے تو ملک کو انتشار میں دھکیل دے ٬ اور اگر وہ سمجھدار حب الوطن ہو تو خود خون کے گھونٹ بھر کر ملک کا سکون برقرار رکھے٬ یہ کریڈٹ نواز لیگ نے حاصل کر لیا ہے٬ ہم عادی ہیں کسی محسن کو کبھی انعام نہیں دیتے ٬ بلکہ ہمیشہ اس کی اعلیٰ کارکردگی پر طعن و تشنیع ہی برساتے ہیں ٬ اس بار سمجھدار فیصلہ کیا گیا نواز شریف کی نا اہلی کے بعد شور شرابے سے احتراز برتا گیا اور عوامی ردعمل کا مظاہرہ دکھایا گیا٬ عوام نے اپنے رہنما کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں اچھے انداز میں خُدا حافظ کہا٬ یہی ہونا چاہیے تھا وہ اس کے مستحق تھے۔
سال صرف ایک ہے اور ملک کی سیاست کی گرہیں ہیں کہ الجھتی جا رہی ہیں کسی کو اپنا مقصد نہیں معلوم ٬ ہنگامہ آرائی ابہامی سیاست ہے پہلے نا اہلی کا شور تھا اب حکومت گرانے کی افواہ سرگرداں ہے یہ کیا چاہتے ہیں؟ سیاستدانوں کو شعور ہونا چاہیے کہ سیاست میں کہاں تک مخالفت کا فائدہ ہے ٬ جب آپ ہر حد پھلانگ جاتے ہیں تو عوام کے ساتھ ساتھ ادارے بھی ہکا بکا مناظر دیکھتے ہیں وہ ملک کو گرتا دیکھتے ہیں۔
ملک نہ رہا تو کہاں کی سیاست کہاں کا اقتدار؟ پھر تو کشمیریوں کی طرح روزانہ ذلت آمیز رویّے اور لاشیں کیا یہی منزل ہے اس ملک کو آگے بڑہانے کی؟ کہ ایک طرف وطن کو خودکش بمبار اڑا کر آپ کے 14 اگست کو آگے بڑہنے کا روک رہے ہیں٬ دوسری جانب آپ کے سیاستدان فتح کا شادیانہ بجا کر مٹھائیاں بانٹ کر کھا رہے ہیں تا کہ مخالفین اشتعال میں آکر ملک میں ہنگامہ آرائی کریں۔
اس ملک کا سیاسی ٹولوں سے بڑا دشمن کوئی نہیں ہے جو اس ملک کی آزادی سالمیت خود مختاری سے قطعی طور ہے عاری ہے ٬صرف اورصرف ان کے لئے پاکستان آگے تب بڑھے گا جب وہ خود اقتدار پر براجمان ہوں گے ٬اقتدار کی رسہ کشی اس ملک کو کہاں لے جائے گی جبکہ “”را”” آپ کے گلی کوچوں میں کسی نہ کسی روپ میں موجود پیچ و تاب کھا رہی ہے کہ کیسے اس ملک کو 14 اگست کے جشن سے محروم کرے۔
آزادی کتنا بڑا انعام ہے اس کا شعور عوام کو طویل شب ستم گزار کر احساس ہو گیا مگر ان بے حس سفاک سیاستدانوں کو اس کا احساس نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا٬ مخالفین کو گرانا اس طرح کہ وہ تباہ ہو جائیں ناکام سیاست آج بھی وہیں پستی میں ہے جہاں پہلے تھی٬ سیاستدانوں سے سوال ہے کہ کیا یہی ہے آگے بڑھو پاکستان؟