قراردادِ پاکستان 23 مارچ 1940ء اور قرارداد پاکستان کو منظور ہوئے 79 برس گزر چکے ہیں۔ اس قرارداد کے نتیجے میں ہمارا آزاد وطن قائم ہوا، جس میں ہم جی رہے ہیں۔ برصغیر میں دو قومیں آباد تھیں۔ ایک مسلمان اور دوسری ہندو۔ مسلمان یہاں پر چھ سو سال حکمران رہے۔ البیرونی پہلا شخص تھا جس نے محسوس کیا کہ مسلمان اور ہندوؤں میں کتنا فرق ہے اور یہ کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’’ہندو، مسلمان کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔ نہ اکٹھے بیٹھ کر کھا سکتے ہیں نہ پی سکتے ہیں۔ اگر اکٹھے بیٹھ کر کھا یا پی لیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پلید یا ناپاک ہو جائینگے۔ جب وہ اکٹھے بیٹھ کر کھا پی نہ سکیں تو وہ ایک قوم کیونکر بن سکتی ہے۔‘‘ دو قومی نظریہ ایک نیا تخیل اور نیا تصور تھا۔ پاکستان کے قیام کے کئی اغراض و مقاصد تھے۔ جن مین سے چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے۔
اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش
اسلامی معاشرے کا قیام
اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ
اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ
دو قومی نظریہ کا تحفظ
اردو زبان کا تحفظ و ترقی
مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی
مسلمانوں کی آزادی
مسلمانوں کی معاشی بہتری
مسلمانوں کی سیاسی و معاشی ترقی
ہندوؤں کے تعصب سے نجات
کانگرس سے نجات
رام راج سے نجات
انگریزوں سے نجات
تاریخی ضرورت
پر امن فضا کا قیام
اسلام کا قلعہ
ملی و قومی اتحاد
اتحاد عالم اسلام دو قومی نظریہ
اسلام اور ہندو دھرم دو مختلف معاشرتی نظام قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23، مارچ 1940ء کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہيں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا۔ ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہيں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہيں۔ ان کی رزمیہ نظمیں، ان کے ہیرو اور ان کے کارنامے مختلف ہيں۔ دونوں کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : “میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہيں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہيں ۔” متحدہ قومیت قابل عمل نہيں شروع شروع میں علامہ اقبال متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی آپ نے متحدہ قومیت کی تردید کردی اور علاحدہ قومیت کے تصور کی بھرپور حمایت شروع کر دی۔ مارچ، 1909ء میں ہندو رہنما منرو ا راج امرتسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موقع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ علامہ اقبال نے نہ صرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کر دیا بلکہ آپ نے مہمان خصوصی بننے سے بھی انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا: “میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیاز مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مفید ہے
قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد پشاور سے لے کر چاٹگام تک مسلم قوم آزادی حاصل کرنے کے لئے دشمن کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ شہر شہر گاؤں گاؤں ہر زبان پر یہ نعرے تھے ’’آزادی کا مطلب کیا۔ لا الٰہ الا اللہ۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔‘‘ دوسری جانب قراردادلاہور نے ہندو قیادت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ مثال کے طور پر گاندھی نے مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے اور تقسیم ہند کی تجویز کو ناقابل عمل قرار دیا … مگر قائد اعظم نے ہندو راہنماؤں کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا:۔ ’’قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے حصے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی موجود ہیں۔‘‘ بالآخر 14؍ اگست 1947ء کو قرارداد لاہور نے اپنا تاریخی رنگ دکھایا جب اسلامی ریاست پاکستان آزاد دنیا کے نقشہ پر ابھری۔‘‘
23 مارچ ایک تاریخ ساز دن ہے۔ آج سے 72 برس قبل 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ کنونشن ہوا تھا جس کی صدارت قائد اعظم نے کی تھی۔ اس وقت مسلمان ایک قوم تھے ان میں جذبہ تھا، سچی لگن تھی، عزم و ارادہ تھا، سب کی زبان پر تھا کہ لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ۔
اس وقت مسلمان پنجابی، سندھی، سرحدی، بلوچی، بنگالی یا پٹھان ہرگز نہ تھے اور نہ ہی کوئی شیعہ تھا اور نہ ہی سنی بلکہ صرف مسلمان تھے او ر سب ایک تھے اور قائد اعظم نے بھی مسلمانوں کو جمہوریت کے تین راہنما اصول ایمان (Faith)، اتحاد (Unity) اور نظم و ضبط (Discipline) سے روشناس کر دیا تھا اور پھر انہی راہنما اصولوں پر عمل کرتے ہوئے۔ مسلمانوں نے ایک منظم اور متحد قوم بن کر 1940ء سے 1947ء تک جدوجہد کرتے ہوئے سات سال کے مختصر عرصہ میں علیحدہ وطن حاصل کر لیا۔
اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان کے صرف سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم اور ان کے مخلص ساتھیوں کی انتھک اور بے لوث کوششوں اور کاوشوں کے نتیجہ میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو جانے والے مسلمانان ہند کی مدد فرمائی اور 14 ؍ اگست 1947ء کو بفضل اللہ تعالیٰ پیارا پاکستان دنیا کے نقشے پر سورج کی مانند طلوع ہوا۔ اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے اور وطن عزیز کوہمیشہ سلامت و سرفراز رکھے۔ آمین