پندرہ فروری کو کورونا کی پاکستان آمد کے بعد سے ہی بہت سے خدشات و تحفظات موضوع بحث بنے رہے۔ کورونا ہے کہ کورونا نہیں ہے یہ کوئی عالمی سازش ہے یا کوئی بائیولیجیکل ہتھیار استعمال ہوا ہے، اس کا آغاز چین سے ہوا یا امریکہ سے۔ اب اس وبا کو پاکستان آئے تین ماہ ہوئے کچھ باتیں افواہیں ثابت ہوئیں اور وقت گذرنے کے ساتھ دم توڑ گئیں کچھ باتیں آج بھی موجود ہیں کئی حکومتیں اب بھی ڈھلمل کی کیفیت میں ہیں اور فیصلہ نہیں کر پارہی ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔
ان تمام باتوں میں ایک بات تو سو فیصد درست ہے کہ کورونا کا وجود دنیا میں ہے اور اس کی وجہ سے دنیا کو کافی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے بلکہ اب تک اٹھا نا پڑ رہا ہے۔ یورپ میں اس جرثومے نے زیادہ تباہی مچای ہے اور اس کا اس قدر خوف ہے کہ تین ماہ گذرنے کے باوجود لوگ بہت زیادہ احتیاط کر رہے ہیں۔امریکہ، اسپین اور اٹلی کی تباہ کن صوتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وطن عزیز میں اس وبا کی موجودگی کی تصدیق ہونے کے بعد ہی ماہرین کی بہت سی رائے سامنے آئیں جن میں زیادہ تر کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ جرثومہ پوری دنیا میں ایک سا نہیں ہے بلکہ مختلف ممالک میں اس کے الگ ہی ڈھب ہیں کہیں اس کی شدت انتہائی خطرنا ک ہے تو کہیں اس کی شدت درمیانی درجے کی ہے اور کئی ممالک میں یہ بالکل بے ضرر بھی محسوس کیا گیا ہے ، الحمدا للہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں اس نے بہت کم نقصانات پہنچائے ہیں مگر اس کے خوف سے اور سخت احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہم اپنا مالی نقصان بہت زیادہ کرچکے ہیں جس کو پورا کرنے میں ہمیں برسوں لگ جائیں گے ان تمام نقصانات میں سب سے خطرناک نقصان ہم سے تعلیم کے حوالے سے ہوا ہے جس کی بڑی وجہ بغیر منصوبہ بندی کے اور دیہی اور شہری طلبہ کے دسترس میں حاصل سہولیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو طویل عرصہ کے لیے بند کر دینا ہے۔ افسوس اس امر پر اب بھی یہ ہے کہ اس کے بارے میں سنجیدگی سے نہ ہی حکومتیں سوچ رہی ہیں نہ ہی عدالتیں تمام کی توجہ ہی کاروبار اور معیشت پر مرکوز ہے۔
پوری دنیا میں کورونا سے نمٹنے کے لیے سخت لاک ڈاؤن کیا گیا اور اس کے نتیجے میں کئی ممالک اب اس وبا کے شکنجے سے باہر آرہے ہیں۔ اس کے برعکس ہم اب تک یہی سوچ رہے ہیں کورونا ہے کہ نہیں ہے۔ حکومتیں اور ادارے بھی ایک صفحہ پر تین ماہ گذرنے کے باوجود بھی نہیں ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس وہ جدید ٹیکنالوجی اور ٹیسٹنگ کٹس موجود نہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے پاس ہیں اس ضمن
میں ہمارے پاس ماسوائے سخت احتیاطی تدابیر کے اختیار کرنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، لیکن اس باوجود ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے، دکانیں، مارکیٹیں، شاپنگ مال سب ہی کسی نہ کسی طریقہ سے کسی نے کسی وقت کھلے رہے، کئی اسٹور کو کوتاہی برتنے پر سیل کیا گیا پھر کھول دیا گیا دکانیں بند کی گئیں پھر کھول دی گئیں معاملات اس نہج پر آپہنچے کہ صبح آٹھ بجے سے شام 5 بجے اور بعض دکانوں کو رات آٹھ بجے تک کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک نئی منطق متعارف کرادی گئی کے جمعہ کے دن سخت لاک ڈاؤن ہوگا بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اب یہ فیصلہ ہوا کہ ہفتہ میں تین دن مکمل لاک ڈاؤن ہوگا اور چار دن کاروبار صبح سے شام تک کھلا رہے گا۔ ہے کوئی یہ سمجھ میں آنے والی بات! اگرجدید سائنس پیشگی آگاہ کردے کے فلاں علاقے میں فلاں وقت طوفان کا امکان ہے یا کسی علاقے میں آدم خور شیر ایک مخصوص وقت میں آتا ہے اور لوگوں کو ہلاک کرتا ہے تو ٹھیک ہے اس وقت لوگوں کو گھروں تک محدود کردیا جائے تو بات سمجھ آتی ہے۔ یہاں تو صورتحال یکسر تبدیل ہے سائنس خود ناکام ہوچکی ہے تمام سپرطاقتیں بے بس ہوچکیں۔
ماہرین کہتے ہیں کسی بھی مریض میں اس کے اثرات 14 دن سے 21 دن میں ظاہر ہوجاتے ہیں اب ذرا غور کریں پچھلے تین ماہ میں ہم نے کیسا لاک ڈاؤن دیکھا چیدہ چیدہ یہ کہ کئی ٹرک پکڑے گئے جو سواریوں کو ایک شہر سے دوسے شہر منتقل کر رہے تھے، کئی تبلیغی جماعتیں بھی دورے پر نظر آئیں، زیارتوں پر گئے کئی قافلے بھی واپس لوٹے، گھروں میں شادی بیاہ کی تقریبات کی بھی خبریں آئیں، کئی بڑے اسٹور اور مارکیٹوں میں عوام کا جمِ غفیربھی نظر آیا، دوسرے ممالک سے لوگ بھی آتے رہے، کئی مساجد میں پنج وقتہ نمازیں اور جمعہ کے اجتماعات بھی ہوئے، کئی شہروں میں جلوس بھی برآمد ہوئے، ان میں سے کئی واقعات کو نہ صرف 14 دن بلکہ 70 دن بھی گذرگئے اس کے باوجود صورتحال تشویش ناک نہیں ہوئی ہمیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ کیوں کہ اگر آپ پوری میں دنیا میں اس وبا سے ہلاکتوں کو دیکھیں تو کئی ممالک ایسے نظر آئیں گے جہاں نہ صرف سخت لاک ڈاؤن رہا بلکہ کئی جگہوںپر کرفیو کا نفاذ بھی کیا گیا اس کے باوجود ہلاکتیں بڑھتی چلی گئیں اس کے برعکس اگر وطن عزیز میں لاگو لاک ڈاؤن کو دیکھا جائے جہاں تمام دن لوگوں کو آمد ورفت اور خرید و فروخت کی اجازت ہوتی ہے اور پھر نقصانات کو دیکھاجائے تو زبان سے یہی نکلتا ہے یا اللہ تیرا شکر۔
اگر شہرِ کراچی کی بات کی جائے تو یہاں بھی اس حوالے سے عوام کی رائے مختلف ہیکئی اسے سازش قرار دیتے ہیں تو کئی اس کو اب بھی خطرناک وبا سمجھتے ہیں جبکہ کئی کہتے ہیں شہر میں کئی بزرگ ہستیاں مدفن ہیں ان کے مزارات ہیں یہاں بڑے سے بڑا طوفان بھی پہنچنے سے پہلے دم توڑ دیتا ہے تو یہ تو ایک وبا ہے جو یہاں پہنچتے پہنچتے بے اثر ہوگئی ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو میرے وطن کا ایک ایک فرد اس وبا سے محفوظ رہے اور زندگی پھر سے رواں دواں ہوجائے۔ لیکن ایک بات زہن میں ضرور رکھیں احتیاط لازم ہے اور احتیاط ہر صورت کریں۔