بدقسمتی سے اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہمارے ہاں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی اکثریت قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر جذباتی فیصلے کرتی ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ کرونا وائرس کی وباء کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں بھرپور سیاست کی بْو آ رہی ہے جو کسی طرح بھی ملکی مفاد میں درست نہیں ہے۔ہمارے ہمسایہ ملک چائینہ میں کرونا وائرس کی وباء نازل ہوئی (یا مسلط کی گئی) تو وہاں کی حکومت اور عوام نے اس کے تدارک کے لیے بروقت اقدامات اُٹھائے اور اس وباء کو مزید بڑھنے سے روک دیا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ انہوں نے تمام ممالک پر یہ احسان عظیم کیا کہ انہوںنے اپنے ملک میں غیر ملکیوں کو اس وقت تک مہمان رکھا جب تک وہ اس وباء کے خاتمہ سے سرخرو نہیںہو گئے جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو دیگر ممالک خاص طور پرایران نے اپنے ملک میں آئے ہوئے ہزاروں مہمان افراد کو زبردستی انہی کے ممالک کی طرف دھکیل دیا جہاں یہ وباء پہلے موجود نہ تھی۔ خاص طور پر پاکستان کے ہزاروں زائرین کو ایران نے پاسپورٹ پر”خروج”لگا کر بارڈر پر بے یارو مد دگار چھوڑ دیا جوکہ ان پاکستانی زائرین کے ساتھ بہت بڑی زیادتی تھی۔
گو کہ ایران سے مسلک کی بنیاد پر دِلی ہمدردی میں ان زائرین نے ایران کی طرف سے ہونے والے ناروا سلوک پر لب کشائی کرنے کے بجائے پاکستانی حکومت کے ناقص انتظامات پر مختلف سوشل میڈیا کی وساطت سے ایک شور بَرپا کر دیا جس کے لیے پاکستانی حکومت ذہنی طور پر بالکل تیار نہ تھی اور اچانک اتنی بڑی تعداد میں زائرین کی واپسی اور انتظامات حکومت کے لیے کسی مشکل صورت حال سے کم نہ تھے۔ اسی حوالے سے بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہنوائی کا موقف سامنے آیا کہ” بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ان زائرین کو تفتان بارڈر پر ہی روک لیا جائے تاکہ کروناء وائرس جیسی وباء سے پاکستان کو محفوظ رکھا جا سکے لیکن ہماری کوئی بات نہ سنی گئی”۔ دوسری طرف بارڈر پر مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے احتجاج کی خبریں سامنے آنا شروع گئیں۔ باخبر زرائع کے مطابق کچھ زائرین نے اپنی مشکلات کو دیکھتے ہوئے بیک ڈور چینل سے زلفی بخاری سے داد رسی کی اپیل کی جس پر کہا جاتا ہے کہ ان کی سفارش رنگ لے آئی اور تفتان بارڈر کھول دیا گیا۔ پاکستان میں آنے والے ان زائرین کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
زلفی بخاری جوکہ مسلک کی بنیاد پرزائرین سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے,نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان زائرین کو بغیر اسکرینگ کیے یا قرنطینہ میں رکھے ملک میں آنے کی اجازت دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس دوران جب کروناء وائرس کی وباء کے کچھ کیس سامنے آئے تو زلفی بخاری کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک شور برپا ہو گیا جس میں سیاسی و مذہبی حلقوںنے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوںنے بلا سوچے سمجھے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ۔ سوشل میڈیا پر زلفی بخاری کے ہم مسلک بھی ان کی حمایت میں باہر نکل آئے ۔ اُن کا موقف تھا کہ باقی ممالک سے بھی پاکستانی اندرون ملک واپس آئے تھے خاص طور پر سعودی عرب اور یواے ای کی مثال دی جانے لگی ۔ اس موقف کے مخالفین کا کہنا تھا کہ وہ تمام پاکستانی بذریعہ ہوائی جہاز مختلف پروازوں سے آئے اورپاکستانی ائیرپورٹ حکام نے ان کواسکرینگ کے ایک مربوط نظام سے گزار کر آنے دیا۔ یہ بحث سوشل میڈیا سے بڑھتے بڑھتے گلی کوچوں تک پھیل گئی جوکہ کسی بھی طرح ملکی مفاد میں درست نہیں ۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ اگر حکومت بَروقت اقدامات اُٹھاتی اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتی ، غفلت کے مرتکب ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے ان سے باز پُرس کرتی تو یہ مسئلہ یہاں پر ہی رُک سکتا تھا مگر ایسا نہ ہواجس سے براہ راست عمران خان کی ذات پر بھی اُنگلیاںاُٹھائی جانے لگ لگیںکہ وہ ملکی مفاد کے بجائے اپنے قریبی ساتھیوں کو ملکی معاملات میں کھلی چھوٹ دیئے ہوئے ہیں اور دوست پروری کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ کافی عرصے سے زلفی بخاری کے خلاف ایک تنقید ہو رہی تھی کہ ملکی اداروں پر انکے احکامات چل رہے ہیں اور پاکستان میں کلیدی عہدوں پر ایک ہی مسلک کے افرادکو سفارشی بنیادوں پر تعینات کرکے نوازا جا رہا ہے یہ بات کسی نہ کسی طرح حقائق کی روشنی میں دیکھی جائے تو اس کے کافی شواہد موجود ہیں۔ اب بھی وقت ہے عمران خان کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ان الزامات کا نوٹس لیں ورنہ انکی حکومت کے خلاف ایک ہی مسلک کو نوازنے کے سنگین الزامات مزید فرقہ واریت کو ہوا دینگے۔
کہا جاتا ہے کہ رائے عامہ وہ راکھ ہے جس کو ہر شخص اپنے طور پر بے سُرے طریقے سے الاپتا ہے اور اس طرح ہزاروں سُروں پر مشتمل ایک بے ہنگم راگ بن جاتا ہے۔ یہ بے ہنگم راگ موجودہ حکومت کے لیے کسی زہر قاتل سے کم نہ ہو گا۔ بدقستمی سے موجودہ حکومت کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ کوئی قدم بروقت نہیں اُٹھاتی اور اس کے نقصانات تنقید کی صورت برداشت اُٹھا رہی ہے۔اب تو پی ٹی آئی کے ورکرز کی طرف سے بھی حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ عوام کی طرف سے یہ شدید ردعمل بھی سامنے آرہا ہے کہ اس ایمان دار حکومت سے چور حکومت لاکھ درجے بہتر تھی۔ رائے عامہ کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کو اگر حکومت نے سنجیدگی سے نہ لیا تو حکومت کے لیے مزید مسائل بڑھ سکتے ہیں اور اگر کرونا وائرس کے حوالے سے مزید ہلاکتیں سامنے آتی ہیں تو ڈر ہے کہ یہ کروناء وائرس اس حکومت کو بھی اپنے ساتھ نہ لے جائے۔