دنیا عمران خان کو ایک کرکٹر کے طور پر جانتی ہے پاکستان کی تاریخ میں عمران خان ایک ایسا کھلاڑی ہے جو کبھی ہار نہیں مانتا تھا جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ان کی یہ صفت ان کے مخالفین بھی خوب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں عمران خان نے جب نیا، نیا ولڈکپ جیتا تو وہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ وہ سیاست کبھی نہیں آئیں گے اس وقت وہ شہرت کی بلندیوں پر تھے بعد ازاں اپنے ملک کے غریب عوام کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یہاں آکر محکوم طبقات کو دیکھا تو عمران خان نے اپنی نظریاتی جنگ کا آغاز روزنامہ جنگ میں کالم لکھ کر شروع کیا انہوں نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو کوئی بھی ان کے ساتھ شامل نہیں ہو رہا تھا اس جماعت کو شروع میں کئی محاذوں پر کئی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 2002 کے الیکشن میں تو صرف ایک سیٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں پہنچے بعد ازاں 2008 اور 2013 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو کافی اچھی کامیابی ملی اس دوران عمران خان کے لیے ایسے حالات بن گئے کہ وہ نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کر سکیں بلاشبہ انہوں نے نوجوان نسل کی نبض پر ایسا ہاتھ رکھا اور ان کی محکومیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں گے۔
نوجوان تحریک انصاف کی طرف کھنچے چلے آئے جس کے بعد 25 جولائی کو منعقدہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں اکثریت ملی اور 26جولائی کو عمران خان نے بطور فاتح قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کے قیام کا پیغام دیاان کی اس تقریر کو ناصرف ملکی طور پر بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا گیا دنیاکے بڑی میڈیا گروپس نے ان کو لائیو دیکھایا قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچیس جولائی 1974 کو ہی شروع ہونے والے انگلینڈ کے خلاف لیڈز ٹیسٹ کے دوسرے روز 26جولائی کو عمران خان نے اپنی پہلی بین الاقوامی وکٹ حاصل کی تھی ان دونوں واقعات میں مماثلت کیا ثابت کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا عمران خان اگر وزیراعظم پاکستان بنتے ہیں تو پاکستان کیا پوری دنیا کی تاریخ میں وہ پہلے شخص ہوں گا جو ایک کرکٹ سے وزیر اعظم تک گئے بلاشبہ عمران خان نے نوجوان نسل میں وہ شعور بیدار کیا جو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بدقسمتی سے کوئی بھی حکمران نہ کر سکا ان کی جیت کے بعد بھارت میں میڈیا پر ایک ایسا واویلا مچا دیا گیا کہ جس کو دیکھنے سے لگا کی شاید بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ عمران خان پاکستان کا وزیر اعظم بنے لیکن بعد ازاں بھارتی مشہور شخصیات نے عمران خان کی حق میں بیانات دے کر بھارتی رائے عامہ کو ہموار کر دیا اس دوران بھارتی میڈیا کو بھی چپ لگ گئی 25 مارچ 1992 کو میلبرن آسٹریلیا میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دے کر عالمی کرکٹ کپ اپنے نام کیا تھا 20 جولائی سن 95 کو لندن میں عمران خان اور جمانہ گولڈ سمتھ کی شادی ہوئی تھی پاکستان میں جب عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو بہت سے لوگوں کو لگ رہا تھا کہ عمران خان پاکستانی سیاست کے لئے ان فٹ ہیں۔
اس کی بڑی وجہ ان کا تیز لہجہ اور فورا فیصلہ لینا بھی سمجھا جاتا تھا لیکن انہوں نے جس طرح اپنے کارکنوں کو منظم کیا وہ ناقابل فہم ہے یہ عمران خان کی شخصیت کا جادو تھا یا ان کی سیاسی بصیرت یا کچھ اور اس بات کو عمران خان کے ناقدین میں مانتے ہیں کہ عمران خان کی شخصیت میں وہ جادو ہے کہ لوگ کھچے چلے آتے ہیں گزشتہ الیکشن میں بھی انھوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں ان کو اکثریت ملے گی لیکن بدقسمتی سے ان کو اکثریت نہ مل سکی جس کی وجہ سے وہ صرف خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اتنی ڈٹ کر اپوزیشن کی کہ حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیئے اس دوران پاناما کا ہنگامہ برپا ہوا اور عمران خان نے اس پوائنٹ کو اس حد تک اٹھایا کے حکمران طبقہ خصوصی طور پر مسلم لیگ نون کے قلعے کی دیوار ہل گئی اور ان کے کئی بڑے لیڈر آج جیل میں ہیں ان کی اس جیت کو بڑی جیت کہا جا سکتا ہے اس دوران قومی اسمبلی میں خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ جناب لوگ دو چار دن مین بھول جائیں گے لیکن یہ عمران خان ہی تھا جس نے لوگوں کو یہ بات بھولنے نہیں دی اس دوران خان نے اپنا نشانہ ٹھیک ٹھیک اور خاص موقع پر لگایا جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اس بڑے نقصان کی بدولت آج مسلم لیگ ن بیٹھ جا چکی اور عبرتناک شکست سے دوچار ہے۔
عمران خان کی یہ سوچ عوام میں بہت مقبول ہوئی کہ وہ پاکستان کو بدلیں گے اوردو نہیں ایک پاکستان بنائیں گے انہوں نے خصوصی طور پر نوجوانوں پر توجہ دی اور تبدیلی کا نعرہ لگایا ان کے اس نعرے کی بدولت پاکستان تحریک انصاف میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے ان کے بہت سے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں ان لوگوں کو شامل کیا جو کرپٹ ہیں اور جن پر کرپشن کے الزامات ہیں پاکستان کی وہ جماعتیں جو ماضی میں پاکستان کی حکومت میں کچھ نہ کچھ حصہ لے جاتی تھی وہ اتنی بری طرح پٹ گئی کہ اسمبلی سے بالکل آوٹ ہوگی جس کے بعد سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں حالیہ انتخابات کو مسترد کردیا لیکن انتخابات کو نہ صرف مقامی مبصرین بلکہ عالمی طور پر بھی تسلیم کیا گیا یہ صاف شفاف اور غیر جانبدار تھے عمران خان بلاشبہ پاکستان میں ایک تبدیلی کی نئی سوچ نیا ویژن لے کر حاضر ہوئے اور ان کے اس ویژن کو اتنی پزیرائی ملی ہے کہ بڑے بڑے برج الٹ چکے ہیں عالمی برادری بھی عمران خان کو مانتی ہے کہ عمران خان کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اب وہ نہ صرف وفاق بلکہ صوبوں میں بھی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ان کے پاس ایک ایسی اچھی ٹیم ہے جو کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی عمران خان کی پہلی تقریر میں جس طرح کا رویہ سامنے رکھا ہے اس کی تعریف ان کے مخالفین بھی کرتے نظر آرہے ہیں الیکشن سے پہلے انتخابی مہم میں عمران خان جس طرح کی زبان استعمال کرتے تھے بہت سے لوگوں کو ان پر اعتراض بھی تھا مگر اب ان کی زبان میں ایک مٹھاس اور گفتگو میں اعتدال آگیا ہے بلاشبہ ان کی وکٹری speech ہر پاکستانی کی دل کی آواز ہے اگر عمران خان نے اپنی پالیسیوں پر عمل کرلیا اور اپنے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرلیا تو بلاشبہ وہ پاکستان کے طیب اردگان بن جائیں گے اور آنے والے دس بیس سالوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار کو صرف ترس جائیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ یہ ساری جماعتیں عمران خان کے خلاف ایک جان ہو چکی ہیںان انتخابات میں ایک حقیقت سامنے آئی ہے عمران خان کے چاہنے والے پورے پاکستان میں ہر صوبے میں ہار شہر میں اور ہر گلی محلے میں موجود ہیں خیبر پختونخوا سندھ پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ وفاق میں بھی پاکستان تحریک انصاف ایک مضبوط اور منظم جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے پاکستان تحریک انصاف اگر آپ نے سو دن کے منشور پر عمل کر دیتی ہے تو اسے پاکستان میں ایک انقلاب برپا ہو جائے گا اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے دوسری سیاسی جماعتیں سخت پریشانی میں مبتلا سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن پراسسز پر انگلی اٹھانے کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں کسی بھی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو پاور میں نہیں دیکھنا چاہتے کیوں کھ ان کو پتا ہے کہ اگر عمران خان پاور میں آگئے تو احتساب شروع کردیں گے اور ایسا احتساب ہوگا کہ ان کی چیخیں نکل جائیں گی ضرورت اس امر کی ہے تمام سیاسی جماعتیں اس وقت تدبر اعتدال اور سمجھ سے کام لیتے ہوئے اپنی ہار کو تسلیم کریں اور جس جماعت کو مینڈیٹ ملا ہے اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر عمران خان کو موقع ملا تو وہ پاکستان کو بدلنے کا اپنا خواب ضرور پورا کریں گے۔
تبدیلی کے اشارے میں وہ پورا اترنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے جس کے لیے انھیں عوام کے تعاون کے ضرورت ہے پچھلے ستر سالوں سے مسلط نام نہاد جماعتیں صرف اپنے پیٹ اور اپنی جیبوں کو ہی بھرتی رہی ہے لیکن عمران خان کی آنے کے بعد یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ اب پاکستان ضرور بدلے گا اس لیے آج ہر پاکستانی کے زبان پر ایک نیا پاکستان بنانے کا عزم ہے آج یہ عزم اتنا پختہ ہے اب کسی کو اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ہماری دعا ہے کہ عمران خان پاکستان کی 70 سالہ محرومیوں کا خاتمہ کرکے پاکستان کی عوام کو ایک مضبوط منظم اور خوشحال پاکستان دیگر جائے جس میں غریب کو روزگار ملے انصاف، امن و امان صحت تعلیم ہو ہمارے بچوں کا مستقبل ہؤمحفوظ ہو اس لیے خدارا پاکستان کے بارے میں سوچیں اور ان لوگوں کا ساتھ دیں جو ایک مضبوط منظم اور خوشحال پاکستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔