پاکستان میں کرپشن اور عدم برداشت

 Justice Anwar Zaheer Jamali

Justice Anwar Zaheer Jamali

تحریر: سید توقیر زیدی
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ قومی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے ملک میں ہر طرف افراتفری، تفرقہ بازی، اقرباپروری، بد انتظامی اور معاشی نا انصافی کا دور دورہ ہے، جس کی وجہ سے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصانات کا سامنا ہے نتیجتاً عوام میں بے حسی اور ناامیدی کا احساس پروان چڑھ رہا ہے، جو کسی بھی قوم کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے اکثر سرکاری ادارے بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں اور وہاں اقرباپروری اور بد عنوانی کا بازار گرم ہے، ملک میں آج ہر شخص اپنے حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اپنی ذمے داریوں کے ادراک اور فرائض کی ادائیگی سے بالکل بے بہرہ ہے، اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں سب سے زیادہ جدید، سہل، انسانیت کا علمبردار، محبت، اخوت اور امن کا مذہب ہے جس کو بد قسمتی سے ہم نے اپنے باہمی اختلافات ، تنگ نظری،فرقہ بندی اور عدم برداشت کی بنا پر پوری دنیا میں بدنام کردیا ہے۔

انہوں نے کہا ہم سب کو مل کر اپنی تمام تر توانائی، صلاحیتیں، کوششیں اور ملکی وسائل اس مقصد کے لئے صرف کرنے چاہئیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک بہتر پاکستان میں رہ سکیں اور ہم اقوامِ عالم میں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی سر اٹھا کے چل سکیں وہ اپنے اعزاز میں دئیے گئے فل کورٹ ریفرنس میں خطاب کررہے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پاکستان کے معاشرے میں مجموعی طور پر جن عوارض کی نشاندہی کی ہے اس کے شواہد ان کی عدالتی ذمے داریوں کے عرصے میں اور اس سے پہلے بطور قانون دان ان کے سامنے آتے رہے اور ان کی قانونی زندگی کے تمام تر تجربے کا نچوڑ ہیں وہ اٹھارہ سال سے بطور جج اعلیٰ عدالتوں میں ذمے داریاں ادا کررہے تھے اور اب پندرہ دن بعد سپریم کورٹ کے سب سے بڑے اور باوقار عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے زندگی بھر کے مشاہدات و تجربات کا افشردہ و عصارہ اپنے بعد آنے والوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے، عدالتی مناصب پر فائز رہتے ہوئے انہوں نے اپنے حصے کی شمع پوری قوت سے جلائے رکھی اور اس کی روشنی دور دور تک پھیلائی اب ان کے بعد آنے والوں کا فرض ہے کہ وہ بھی اپنے فرائض اسی جذبے سے ادا کرتے رہیں جس طرح جناب چیف جسٹس نے ادا کئے۔

جناب چیف جسٹس نے اگر یہ کہا ہے کہ قومی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے تو ایسا حقیقت کے اس لئے قریب ترین ہے کہ شب و روز ان کے سامنے ایسے واقعات آتے رہے جن میں قومی اداروں کی کرپشن کی کہا نیاں بیان کی گئیں انہوں نے ایسے بہت سے مقدمات کے فیصلے بھی کئے لیکن اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کا دائرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیلتا ہی چلا جارہا ہے اور اسے روکنے کی کوششیں تاحال ناکام ہیں یا ان میں بہت معمولی کامیابیاں ہوئی ہیں، جو ادارے کچھ عرصے تک کرپشن سے پاک تھے یا وہاں ایسے واقعات شاذونادر ہی ہوتے تھے وہ بھی اب اس پھیلتے سرطان کی لپیٹ میں آچکے ہیں، کرپشن معاشرے کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست نے جو ادارے کرپشن روکنے کے لئے قائم کئے ہیں وہ خود بھی اس سے نہیں بچ پائے اور ان میں کام کرنے والے افسران بھی معاشرے کے مجموعی رنگ میں رنگے گئے ہیں جب پورا معاشرہ ہی ایک ڈگر پر دوڑے چلا جارہا ہو تو چند لوگ یا چند ادارے اس سے بچ کر نہیں رہ سکتے۔ہمارے ہاں عملاً یہی صورتِ حال بن گئی ہے۔

Corruption

Corruption

عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت جناب چیف جسٹس قومی اداروں میں کرپشن کی بات کررہے تھے اسی روز سپریم کورٹ کے سانحہ کوئٹہ کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ بھی منظرعام پر آئی ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کو پیش کی ہے۔ اس میں بھی دوسری باتوں کے علاوہ کہا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت میں کرپشن کلچر عام ہے جس کی واضح مثال چیف سیکرٹری سمیت دیگر چار سیکرٹریوں کی تعیناتی ہے۔ سابق سیکرٹری صحت وفاقی وزیر کے بھائی تھے وزراء اور دیگر کی جانب سے کام میں مداخلت ہوتی ہے۔ کرپشن جس بْری طرح معاشرے کی نس نس میں رچ بس گئی ہے اس کے خاتمے کے لئے میجر آپریشن کی ضرورت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں جب اس مقصد کے لئے قائم ادارے بھی اس کے بْرے اثرات سے بچے ہوئے نہیں ہیں یہ کام کرے گا کون؟ کیونکہ مرض کی تشخیص تو کسی نہ کسی انداز میں پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ اب بھی ہو رہی ہے، اصل مسئلہ تشخیص نہیں، شافی علاج ہے۔ جناب چیف جسٹس نے بہت کھل کر اس کی نشاندہی کر دی ہے لیکن اس کے علاج کا مرحلہ بہت مشکل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مقصد کے لئے کوئی ایسی خصوصی ٹاسک فورس بنائی جائے جس میں روایتی افسر شاہی کے لوگ شامل نہ ہوں اور پورے ملک سے دیانتدار افسر چن کر اس ٹاسک فورس میں لگائے جائیں۔ یہ کام اگرچہ آسان اس لئے نہیں ہوگا کہ کرپٹ عناصر کسی دیانتدار افسر یا ادارے کو کام نہیں کرنے دیتے اور جس کسی کو وہ اپنی بدعنوانی کی راہ میں حائل سمجھتے ہیں اس کے خلاف سازشیں کرکے، بلیک میل کرکے، خوفزدہ کرکے یا پھر بزورِ قوت بھی راستے سے ہٹانے سے گریز نہیں کرتے۔یہ کام اگرچہ بہت ہی مشکل ہے لیکن کسی نہ کسی طرح اس کا آغاز تو کرنا ہوگا ورنہ کرپشن کا زہر ہمارے قومی وجود کو چاٹ کر ختم کر دے گا۔

چیف جسٹس نے کرپشن کے علاوہ جس دوسرے بڑے مرض کی نشاندہی کی ہے وہ معاشرے میں تنگ نظری، فرقہ بندی اور عدم برداشت کا کلچر ہے جو گزشتہ عشروں میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے اور مزید پھیلتا چلا جا رہا ہے عدم برداشت کی وجہ سے ہی دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے معاشرے میں ایسے خودسر اور برخودغلط افراد اورگروہ طاقت ور ہو گئے ہیں جو نہ صرف اپنی کہی ہوئی بات کو حرفِ آخر سمجھنے لگے ہیں بلکہ اسے بزور قوت نافذ کرنے کے لئے ہتھیار بھی اٹھا چکے ہیں۔

فہم اسلام کا تصور بھی ان کا اپنا ہے اور اس کے نفاذ کا طریقِ کار بھی انہوں نے خود ہی ایجاد کر لیا ہے جو کوئی بھی اس طریقے کی مخالفت کرتا ہے اسے طاقت کے ذریعے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے یوں دہشت گردی کی ایک ایسی قسم نے جنم لیا ہے جو صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں دوسرے بہت سے اسلامی ملکوں میں بھی پھیل چکی ہے اور کئی ملک اس کی پھیلائی ہوئی تباہی کی زد میں آکر اپنی تہذیب، اپنے ورثے اور شان و شوکت سے محروم ہو رہے ہیں،یہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کا امیج دنیا میں خراب کیا ہے اور دہشت گردی کا لیبل اسی وجہ سے امن کے اس دین پر چسپاں ہو کر رہ گیا ہے۔نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی ملکوں کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا پاکستان میں سکون غارت کرنے والے ان تمام عوامل کا پوری قوت اور ہمت سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر: سید توقیر زیدی