ہمارے ملک ِ پاکستان کا سر سبز جھنڈا پرُ امن اور پرُ سکون ہونے کی علامت کی طرف ایک اعشارہ ہے اور ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ ہم اس جھنڈے میں موجود سبز رنگ کی مانند اس ملک کو بھی سر سبز بنائیں تاکہ آنے والے وقتوں میں ہماری نسلوں کے لیے یہ ملک شاداب، منور ، چمک دھمک سے بھر پور اور خوشگوار رہ سکے ۔۔۔۔ گو کہ ہمارے ملک کو رب العزت نے ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہو ا ہے مگر یہ اب ہماری نااہلی ہے کہ ہم ان اسباب سے کس قدر فائدہ لے سکتے ہیں۔ درخت لگانے کے لیے جن عوامل کی ضرورت ہے وہ باکثرت ہمارے ملک میں موجود ہیں، موافق موسم، آب و ہوا اور درختوں کے لیے موافق زمین سب کچھ تو موجود ہے ۔ایک طرف تو جدھر مگر ہمارے ملکِ پاکستان کو رب تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے با خوبی نوازا ہو ا ہے ، مگر ہم ہیں کہ غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں یا مفت کا کھا کھا کر ہٹ دھرم ہو کر بیٹھے ہیں۔ اور یہ امید و آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے گا اور سب کسی کو ہمارے لیے بہتر کر کے چلا جائے گا۔۔۔
بس نہ کر نا پڑے تو ہمیں کوئی کام نہ کرنا پڑے ۔۔۔۔ ہر چند حکومتیں ، سول سوسائٹی اور این جی اوز عوام الناس میں شعور اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے علاقے ، اپنے شہر اور اپنے ملک کو سرسبز بنائیں مگر ہم ہیں کہ ہم تس سے مست نہیں ہوتے ۔۔۔اور اوپر سے رہی سہی کسر یہ ہائوسنگ سوسائٹیز والے اور توسیع ِ سٹرک والے یہ تو بس ایک ہی بات سمجھتے اور جانتے ہیں کہ درخت کاٹوں اور شہر آباد کرو۔۔۔ وآپس لگانا تو شاید ان کی کسی بھی کتاب میں نہیں ہے ۔ ۔۔ اور نہ ہی یہ اس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں کیونکہ درخت لگانا یا نہ لگانا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ، ان کو فائدہ دیتا ہے تو ان کا کام ۔۔۔ درخت کیا فائدہ دے سکتے ہیں ان صاحبان کو اس لیے یہ بلکل انجان بن جاتے ہیں ۔۔۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک ِ پاکستان کی آباد ی 20 کروڑ سے زائد ہے اگر ہم ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ہر شخص ایک سال میں ایک ہی درخت اپنے صحن میں ، اپنے آنگن میں ، اپنے کھیتوں میں لگائے (جس کے پاس نہیں وہ کسی دوسرے کے کھیت میں لگا دے ، لازم نہیں کہ وہ اس کو منع کرے گا کہ میری زمین میں آپ درخت نہ لگائو) تو سال میں 20 کروڑ درخت لگ سکتے ہیں ، اور یہ وہ اندازہ ہے کہ 5 سال کے اندر اند ر ہمارا ملک سر سبز اور بے پناہ پھل آور ملک بن جائے گا ۔۔ ۔ مگر کیا کہ ہمارے اند ر انقلابی سوچ صرف اتنے تک ہے کہ ہم کو کیا فائدہ ہونا ہے ۔۔۔ ارے بھائی صاحب درخت لگانا صدقہ ِ جاریہ میں آتا ہے ۔۔۔
اسلامی روح کے حوالے سے ارشاد ہو تا ہے جس کا مفہوم ہے کہ قبر پر سبز ٹہنی لگائو کیونکہ سبزہ حمد و تسبیح بیان کر تا ہے ہر وقت اور اس کے اجر و ثواب مردہ کو باہم ملتا رہتا ہے اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو ہم جتنے درخت لگائیں گئے وہ جس کدھر تن آور ہونگے ، جتنے سبز پتے ان کے ساتھ ہوں گئے وہ درخت اتنی ہی رب تعالیٰ کی عباد ت کرے گا اور اس عبادت کا ظاہری بات ہے ثواب کس کو ملے گا۔۔۔۔؟؟؟ جس نے یہ درخت لگا یا ہو گا۔ ۔۔ اس کے علاوہ بے شمار فوائد ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں وقتی فوائد کو ۔۔۔کیونکہ ہم وقتی فوائد کے عادی بن چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کس طرح سر سبز پاکستان کے خواب کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔
ایک عام سا سوال اگر درخت لگانا حکومت ِ وقت کا کام ہے تو ہمارا کیا کام ہے ۔۔۔؟ کہ ان درختوں کو کاٹنا ۔۔۔ ؟ ان درختوں پر جانور چھوڑ دینا۔۔۔؟ ان درختوں کی پرواہ اس لیے نہ کرنا کہ وہ ہمارے پیسوں کے نہیں آئے ۔۔۔؟ یا اس لیے ان سے منہ موڑ لینا کہ وہ درخت اس سیاسی پارٹی یا بندے نے لگوائے ہیں جس کے ساتھ آپ کے سیاسی اختلافتا ت ہیں۔۔۔ اگر ہم ان درختوں کی بھی حفاظت کریں جو ہر سال حکومتیں لگاتی ہیں یا منظور کرتی ہیں ۔۔۔ تو بھی سر سبز پاکستان کا خواب پایہ تکمیل ہو سکتا ہے ۔۔۔ ہمارے حکومتی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ فری درخت مہیا کرنے میں آسانیاں پیدا کریں تاکہ تھوڑی زمین والے اشخاص بھی اس سکیم سے فائدہ حاصل کر سکیں اور وہ بھی درخت لگائیں۔۔۔ اکثریت ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو پھلدار درخت لگانا چاہتے ہیں اور ان کے پاس زمین بھی کم ہوتی ہے مگر حکومت ان کو درخت مہیا نہیں کرتی۔ جبکہ چاہیے تو یہ کہ حکومت پھلدار ہو ں یا بغیر پھلدار ہر قسم کے درخت چھوٹے بڑے سب کسانوں اور مالکان کے لیے آسان شرائط پر مہیا کر ے تاکہ زیادہ سے زیادہ درخت اُگاکر ملک ِ پاکستان کو سر سبز کیا جا سکے ۔۔۔