آج ہم پاکستان کی تعمیر وطن میں شاعروں اور ادیبوں ے کردار پر بات کرتے ہوئےادب کو کاکل وعارض سے نکال کر قومی یکجہتی کے مقصد کی طرف اس کارخ موڑنے اور عہد کی سچائیوں کی تلاش اور ان مسائل کی نشاندہی اور حل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مسائل آج ہمارے ملک کی بنیادیں ہلا رہے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
قلم سے نکلے حروف اپنے عہد کی سچائی کا مظہر ہوتے ہیں جو ادیبوں کے پاس امانت ہوتے ہیں جو آواز ِعصر بن کر اجتماعی شعور کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں نہ صرف وطن کی مٹی کی خوشبو رَچی ہوتی ہے بلکہ وطن کے بیٹوں کا دُکھ درد بھی سمویا ہوتا ہے۔ ادیب جب جمود اور موجود کے خلاف لب کھولتے ہوئے چیلنج کرتے ہیں توسماجی ارتقاء کا سفر شروع ہوتا ہے اور تمام تر سماجی، معاشرتی ، سیاسی اور سائنسی ترقی کا راز حاضر و موجود سے بیزاری اور سوال کرنے سے ہی شروع ہوا ہے۔ اگر ہم نے بھی ترقی اور قومی یکجہتی کا سفر شروع کرنا ہے تو معاشرے اور ادیبوں کا سوال اور مکالمہ کرنے کا حق تسلیم کرنا پڑے گا ۔ برصغیر کا ادب اور بالخصوص شاعری میں ہمیشہ اس دھرتی کے بالا دست طبقات اور وہ طبقہ جو مذہب کی اصلی تعلیمات کو مسخ کر کے استحصالی طبقات کے معاون بنے اور ان کے خلاف آواز اٹھائی ۔ برصغیر کے ان عظیم سپوتوں میں بُلھے شاہ، سلطان باہو، شاہ حسین، سچل سرمست،خوشحال خان خٹک، رحمان بابا اور کشمیر کے غنی کاشمیری، للہ عارفہ، میاں محمد،غلام احمد مہجور اور عرب و عجم کے سانجے اقبال کی آوازیں آج بھی ہر سو گونج رہی ہیں جن میں اِنسان دوستی، احترامِ انسانیت اور وحدۃِ انسانی کا پیغام ہے۔
ان روایات کو آگے لے کراقبال کی آوازیں آج بھی ہر سو گونج رہی ہیں جن میں انسان دوستی،احترام ـ ِ انسانیت واحدت النسانی کا پیغام ہے۔اِن روایات کو آگے لیکرچلنے والوں میں جوش ؔملیح آبادی، فیض احمد فیضؔ ، احمد فرازؔ، استاد دامنؔ ، احمد ندیم قاسمی ؔ، حبیب جالب ؔاور ساغر صدیقی جیسی سینکڑوں آوازوں نے روحِ عصر کو زندہ رکھا ، تو آزادکشمیر میں ان صدائوں کے ساتھ آواز ملانے والوں میں احمد شمیم، ڈاکٹر صابر آفاقی اور نذیر تبسم جیسے بے شمار لوگ بھی موجود رہے جو اس امر کا ثبوت دیتے رہے کہ قلمکار ہی معاشرے میں زندگی کی علامت اور قوم کی دھڑکنوں کے ترجمان ہوتے ہیں ۔ انہوں نے ظلمتِ شب کا صرف شکوہ ہی نہیں کیا۔ بلکہ یہ لوگ اپنے حصے کی شمعیں بھی جلاتے رہے ہیں اور کہتے رہے کہ ؎
کچھ اور نہیں وعدہء تعبیر کے بدلے ہم خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدے !
قومی ہم آہنگی کیلئے کسی بھی ملک کے شہریوں کے نفع و نقصان کا ایک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اگر ملک کی 80فیصد زرعی زمینوں کے مالک انگریزوں کے وفادار ،10فیصد جاگیردار ہوں اور ملک کی 60فیصد آبادی کسانوں اور ہاریوں پر مشتمل ہو تو جاگیرداروں اور ہاریوں میں قومی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ دارمزدور کا خون و پسینہ نچوڑ کر اپنا منافع بڑھائے تو سرمایہ دار اور مزدور ایک قوم نہیں بن سکتے ۔ اس لئے کہ استحصال کرنے والوں اور استحصال زدہ لوگوں کا کبھی اتحاد نہیں ہو سکتا ۔ ظالم و مظلوم دو الگ قومیں ہیں انہیں ایک کرنا ہے تو ملک کے تمام شہریوں کا نفع اور نقصان سانجا کرنا ہو گا ۔ اسلام کا عالمگیر پیغام اخوتّ ، اشرف انسانیت، معاشی مساوات اور سماجی انصاف پر مبنی ہے اور قائد اعظم اور علامہ اقبال نے جن بنیادوں پر ایک الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا تھا ان بنیادوں کو سامنے لانا ہو گا ۔ قائد اعظم ؒ نے 1943میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں کہا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد اگر جاگیرداری اور سرمایہ داری جیسے ظالمانہ نظام ختم نہ ہوئے تو ایسے پاکستان کی انہیں ضرورت نہیں ہے۔تو مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے شریعت محمدﷺ کو بیان کرتے ہوئے اسلامی نظام کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ
چیست قرآن خواجہ را پیغام مرگ دستگیرِ بندہ و بے ساز و برگ کس دریں جا سائل و محروم نیست عبد و مولا حاکم و محکوم نیست کس نبا شد در جہاں محتاج کس نقطہء شرعِ مبیں اِس است و بس
اقبالؔ کے نظریۂ اسلام کے مطابق پاکستان میں نظام سرمایہ داری نہیں ہو گا اور لوگ مجبور و محکوم نہیں ہونگے ۔ اس میں روٹی کیلئے ہاتھ پھیلانے والے نہیں ہونگے اس میں حاکم و محکوم کی تقسیم نہیں ہو گی جس میں خلقِ خدا معاشی طور پر محتاج نہیں ہو گی ۔ اقبال کے نزدیک شریعتِ محمدی کی یہی اوربس یہی بنیادی اَساس ہے ۔ حبیب جالب نے اِسی نظریہء پاکستان کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ
ملیں لٹیروں سے لے لو کھیت وڈیروں سے لے لو رہے نہ کوئی عالی جاہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ اِلا اللہ
ملکی یکجہتی قائم کرنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک یہ کہ ملک کے ہر شہری کو آئین پاکستان میں درج بنیادی حقوق روٹی ، کپڑا ، مکان ، تعلیم ، صحت اور عزتّ سے زندہ رہنے کا بنیادی حق مہیاّ کرنے کے علاوہ اِستحصال کی تمام قِسموں کو ختم کر کے ایک خوبصورت اور باوقار معاشرے کا قیام جو معاشرہ اس نظام کی بقاء کیلئے ایک قوم بن جائے یا یکجہتی قائم کرنے کا دوسرا طریقہ وہ ہے کہ جو ملک کے 80فیصد محروم طبقات ، اڑھائی کروڑ وہ بچیّ جو سکول کا منہ نہیں دیکھ سکتے ۔ 40فیصد وہ لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اگر وہ اِس ملک کے وسائل پر اپنا حق جتائیں اور اپنے بنیادی حقوق کیلئے آواز اٹھائیں تو انہیں ملک دشمن اور غداّر قرار دے کر ان کی آواز خاموش کرا دی جائے ۔
ہم کو آزادی ملی بھی تو اتنی ناصرؔ جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے
مذہب و ملتّ کے نام پر استحصالی طبقات کے ہاتھون لٹنے والوں کیلئے احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے کبھی بہ حیلہء مذہب ، کبھی بنامِ وطن!
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان غریب ملک ہے اس لئے ہم لوگوں کی معاشی حالت بہتر نہیں کر سکتے لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ پاکستان قدرت کی طرف سے عطا کی گئی معدنیات کی نعمتوں جن میں تیل ، گیس، سونا چاندی اور دیگر قیمتی معدنیات اور آبی وسائل میں پہلے پانچ دنیا کے ممالک میں شامل ہے لیکن قوانین اور بیوروکریسی ، آج بھی سامراجی آقائوں کی خدمت پر مامور ہے اور ان قدرتی وسائل اور آبی وسائل کے فوائد سے پاکستان کے لوگ محروم ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ان وسائل کو لوٹنے میں مکمّل طور پر آزاد ہیں بلکہ اگر حکومتِ پاکستان ذرا بھی اِس ڈکیتی میں رکاوٹ ڈالے گی تو کروڑوں ڈالر جرمانہ بھرنا پڑے گا۔ چند ہفتے قبل ریکوڈک کے معاملے میں ورلڈ بینک کے ٹربیونل کا فیصلہ اس کی زندہ مثال ہے ۔ بلوچستان کے سونے اور چاندی کی ریکوڈک اور سینڈک کی کانوں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں لوٹ مار جوبن پر ہے تو آزاد کشمیر میں بھی معدنیات اور ہائیڈل جنریشن کی مقامی اور بین اقوامی سامراجی کمپنیوں کے ہاتھوں لوٹ مار بھی ہوش ربا داستان رکھتی ہے۔
ناز مظفرآبادی نے اس پر کہا ہے کہ یہاں اک مافیا ہے قوم کی تقدیر کا مالک کہ دریائوں پہ ساحل پہ انہی لوگوں کا قبضہ ہے تناسب میں جو آبادی کے دو فیصد سے بھی کم ہیں میرے ملکی وسائل پر انہی لوگوں کا قبضہ ہے
قومی یکجہتی کیلئے یہ صدا آپ ساتھ لیکر جائیں کہ مقامی اور بین الاقوامی استحصالی قوتوں سے آزادملک اور اس کا آزاد نظامِ معیشت ہی ملکی یکجہتی اور قومی تعمیر و ترقی کا روڈ میپ بن سکتا ہے اگر آج بھی پالیسی ساز ادارے اِس قومی لوٹ مار پر بیدار نہ ہوئے تو بقول انور مقصود’اس قوم کو جب تک دھوکے اکا پتہ چلتا ہے اس وقت تک یہ انہیں کھا چکے ہوتے ہیں‘‘
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی
آپ بلوچستان کے قدرتی وسائل پر بلوچستان کے باسیوں اور پاکستان کے غریبوں کا حق تسلیم کریں کوئی کُلبھوشن یادیو پاکستان کی حدود میں گھسنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا ۔ ملکی قدرتی وسائل کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار سے بچا کر ان پر پاکستان اور آزادکشمیر کے لوگوں کا حق ملکیت و حق استفادہ تسلیم کیجئے ۔ مذہب ، ملک ، نظریہء پاکستان اور حُبّ الوطنی پر مقتدر اشرافیہ اور مذہبی ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے ان کے حقوقِ ملکیت پاکستان کے عوام پاکستان کے مزدوروں ، کسانوں ، ہاریوں ، مزارعین کے نام منتقل کیجئے ۔تھر میں بھوک سے مرتے بچوں کو بھی نظریہء پاکستان میں شامل کیجئے لوگوں کے دِلوں کا حال جاننے اور جنت و دوزخ میں بھیجنے کا خُدائی اختیار سے واپس لینے کا اہتمام کیجئے
قائد اعظم کی 11اگست1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کی گئی تقریر جو نبی پاکﷺ کے ہاتھوں تحریر کردہ میثاقِ مدینہ اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی روشنی میں کی گئی تھی اور جسے پاکستان کے قبضہ گروپ نے سنسر کر دیا تھا ۔ اِس تقریر کو واگزار کرنے کیلئے اقدامات عمل میں لائیے تا کہ اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں رواداری ، برداشت ، سماجی انصاف ، معاشی مساوات اور تکریم انسانیت کی بنیاد پر ملک امن و ترقی کا گہوارہ بن سکے اور پاکستان کے لوگ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ کے خوابوں کی تعبیر حاصل کر سکیں اور 1980 کی دہائی میں افغانستان میں روس اور امریکہ کی جنگ میں ضرورت کے تحت مذہب کے نام پر ایجاد کردہ بیانیے جو اَب ایسے نتائج پیدا کر رہے ہیں کہ ہزار ہاء پاکستانی بم دھماکوں میں اس عفریت کا شکار ہو چکے ہیں اِ ن بیانیوں اور ان کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مخلوق کو کنٹرول کرنے کا حقیقی بندوبست کیا جائے تا کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں قتل و غارت گری بند ہو سکے۔ یہ ا سلئیے بھی ضروری ہے کہ اقبال ؒ اور قائد اعظم ؒ کا جمہوری پاکستان، عوامی پاکستان، مضبوط و خوشحال پاکستان اور پر اَمن پاکستان ہی کشمیریوں کی آزادی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
قومی آہنگی کے موضوع پر بلند ہونے والی آوازوں کو یکجا کر کے ایک ایسی دستاویز تیار کر تے ہیں جو پاکستان کے تمام شہریوں ، پاکستان کے تمام صوبوں ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر یکجہتی اور ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے ایک نئے معائدہ ء عمرانی ، کی بنیاد بن سکے۔
اور احمد ندیم قاسمی ؔکی اس دعا کے ساتھ بات ختم کرونگا خدا کرے میرے اک بھی ہم وطن کیلئے حیات جُرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو یہاں جو پھول کھِلے وہ کھلا رہے برسوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو خُدا کرے کہ میری ارضِ پاک پہ اترے وہ فصلِ گل جِسے اندیشہء زوال نہ ہو