نئے در نیا پاکستان

Pakistan

Pakistan

تحریر : انجینئر افتخار چودھری

جو کتھا چھیڑ رہا ہوں اور جس کہانی کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں

قارئین یہ کہانی روز کی ہے آپ نے عدالتوں کچہریوں کی رونق دیکھی ہو گی۔وکیل کیس ہار گیا تھا ۔عدالت سے باہر نکلتے ہی اس نے مایوس موکل سے کہا میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ابھی انصاف کی کھڑکی کھلی ہے میرے سامنے ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ اور پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو ریویو پٹیشن میں جائوں گا۔میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔موکل کی ڈھارس بندھی چالاک وکیل نے موقع پاتے ہی ہاف سیٹ چائے بھی منگوا لی اٹھتے وقت کہا بس بیس ہزار روپے دیتے جائیے کاغذات تیار کرنے ہیں تا کہ اگلی عدالت جائیں ۔بابے نے زمین بیچ کر زمین کا کیس ہارا۔مجھے رازش نے فون کر کے بتایا کہ روز ہزاروں لوگ ہمارے شہر کی عدالتوں میں گاڑیاں کرائے پر لے کر آتے ہیں۔ان کے ساتھ دو چار لوگ ہوتے ہیں وکیلوں کے پاس ان کے بنچوں پر بیٹھ کر ہزاروں لٹا کر شام کو واپس چلے جاتے ہیں۔ڈیزل پٹرول دوپہر کی روٹی کے نام پر ہزاروں خرچ ہوتے ہیں۔یہی نہیں دیوانی مقدمات کچھ اس قدر طویل ہو جاتے ہیں کہ انہی میں سے بعض اوقات فوجداری جنم لیتے ہیں۔مدت دراز سے لوگ سمجھتے ہیں کہ انصاف صرف عدالت سے ملتا ہے۔یقینا عدالتیں بنی ہی انصاف دینے کے لئے ہیں۔لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ محتسب عدالتیں صرف درخواستوں پر فیصلے کرتی ہیں۔آپ کے مسئلے مسائل اگر کوئی ہیں تو وہ صارفین کی عدالتیں موجود ہیں جہاں آپ روز مرہ خرید و فروخت کے تنازعات بغیر کسی خرچ کے حل کروا سکتے ہیں۔موجودہ حکومت نے ایک کمال کر دیا ہے کہ وزیر اعظم سٹیزن پورٹل پر عوام کی شکایات کو سننے کا عمل شروع کیا ہے۔ایسی شکایات جو روز مرہ مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔خالد منہاس ایک کہنہ مشق صحافی ہیں ان کی سیاسی سوچ نون لیگ کی چرف جھکائو رکھتی ہے۔کہنے لگے میں نے گیس کی عدم فرامی کی شکائت اس پورٹل پر کی تو ہفتے بھر کے اندر گیس والے پہنچ گے اور میرا مسئلہ حل کر دیا۔

میرے اس دوست نے آج فون کر کے بتایا کہ حکومت کو آ گہی مہم کا آ غاز کرنا چاہئے۔پاکستان کے لوگوں کو علم ہی نہیں کہ سستے انصاف کی کئی کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں۔یہ محکمے بھی چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔انہیں چاہئیں کہ کھل کر بات کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ صرف عدالتیں کچہریاں ہی نہیں جو انصاف دلاتی ہیں۔

خبریں نے ایک مدت سے یہ کام اپنے ذمے لیا ہوا ہے جہاں ظلم وہاں خبریں کے نام پر لوگوں کی مشکلات کو قومی پریس میں نمایاں کیا جس کا لوگوں کو خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا۔معاشرے میں پھیلی ظلم و ستم کی ان داستانوں کو لوگوں کے سامنے لانے میں خبریں کا کردار نمایاں رہا ہے۔
جس سٹیزن پورٹل کی میں بات کر رہا ہوں حکومتی اعلان کے مطابق گزشتہ ماہ اس پر ایک لاکھ شکایات موصول ہوئیں جن میں سولہ ہزار کا ازالہ ہو گیا۔یہ عمران خان کے ان نوجوان ساتھیوں کی سوچ ہے جو ٹیکنالوجی کو عوامی خدمت کے لئے استعامل کی گئی ہے۔سیدھا سا عمل ہے اس پورٹل پر جائیں۔فارم ڈائون لو کریں یا اسی پر شکائت لکھیں۔یہ ایک ٹیم کے پاس پہنچے گی وہاں سے اس کی چھان بین ہو گی اس کے بعد متعلقہ محکمے کو بھیج دی جائے گی۔جنہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ طے شدہ وقت میں حل کرے اور واپس رپورٹ کرے۔

اس طرح لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ حکومت کے بہت سارے محکمے ایسے ہیں جو عوام کی بے لوث خدمت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔پاکستان بیتالمال ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو نادار طلبہ،غریب لوگوں کی معاونت،بیوائوں کے لئے سلائی مشینیں ،نادار مریضوں کا علاج کراتا ہے۔سابقہ حکومتوں کے ہر کام کو برا نہیں قرار دیا جا سکتا۔زمرد خان ،بیرسٹ عابد وحید شیخ نے اپنے دور میں ان گنت لوگوں کی مدد کی اسی طرح نئے ایم ڈی بیت المال بھی نئے جذبے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔زکوة اور عشر کی کمیٹیاں بھی اچھے کاموں میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ایک بات البتہ درستگی کی محتاج ہے کہ سیاسی لیڈران لوگوں کی مدد تو کرتے تھے وہ سلائی مشینیں نقد رقوم اور علاج معالجے کی سہولیات کو اپنی سیاسی مہم کا حصہ بنا لیتے تھے۔پی ٹی آئی سے لوگوں کی توقعات مختلف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح کے پی کے میں ایک نظام بنایا گیا اسی طرح کا نظام یہاں بھی متعارف ہونا چاہئے۔اس حد تک نظام کی تبدیلی کی طلب ہے کہ پنجاب کے ینگ ڈاکٹروں نے تو سڑکوں پر آ کر اس بات کا مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی کے پی کے کی طرز پر مراعات دی جائیں۔میڈیکل ایکسپو میں مجھے افان نے ایک نوجوان ڈاکٹر سے ملوایا جسے ہولی فیملی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔یہ سب کچھ ایک بے ترتیب غیر منظم معاشرے کی جھلک ہے جہاں ایک بستر پر تین مریض دیکھ کر نوجوان ڈاکٹر کی پٹائی کر دی جاتی ہے۔جہاں دوائیوں کی عدم دستیابی پر سفید کوٹ والے کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میں موضوع سے ہٹا نہیں ہوں اس قسم کی مفاد عامہ کی شکایات بھی وزیر اعظم کے نوٹس میں لائی جائیں۔

پاکستانیوں کے لئے ایک بڑی اچھی خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم شکایات سیل کا بھی قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے انچارج ہر دل عزیز وزیر علی محمد خان ہیں۔اس ادارے کو بہتر طور پر چلانے کے لئے علی محمد کے پاس نوجوانون کی بڑی ٹیم ہے ۔انہیں کہنہ مشق بزرگوں کی شفقت بھی حاصل ہے۔میں گزشتہ ہفتے ان سے ملنے گیا تو وہ ان گنت لوگوں کے مسائل سن رہے تھے۔یہی چیز شہر یار آ فریدی کے دفتر میں دیکھنے میں آئی۔کچھ اور وزراء کے پاس بھی جانا ہوا کچھ تو ایسے تھے جو مردم بیزار تھے۔ان میں سے ایک کو تو گائے نے سینگ مارا اور وہ گھر چلے گئے۔شہر یار آفریدی،علی محمد خان،عامر کیانی،سرور خان،شیخ رشید ،علی محمد خان۔شفقت محمود اور دیگر سب وزیر و مشیر ذاتی طور پر جتنی مرضی محنت کریں جب تک ایک سسٹم اور ٹیم ساتھ نہیں ہو گی تو کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔مجھے پی ٹی آئی سیکرٹیٹ میں منشور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت بعد جب نیچے آنا پڑا تو چند جوانوں سے ملاقات ہوئی جن کا گلہ یہ تھا کہ وہ سنے نہیں جاتے۔یہ بھی بڑی آسانی سے حل ہو سکتے ہیں کہ سٹیزن پورٹل کے ساتھ ساتھ ورکرز پورٹل بھی ہو جو ان کی جائز شکایات سن سکے۔کارکنوں سے ملنا بڑی اچھی بات ہے علی اعوان سیکرٹریٹ میں تواتر سے مل رہے ہیں۔یہ سارا کچھ ضروری ہے لیکن جیسے عرض کیا ہے اس کے لئے ایک نظام بنایا جائے۔خوش آئیند بات یہ ہے کہ چند ہفتوں سے ابولاحسن بخاری کی قیادت میں قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ۔سیف اللہ نیازی،اعزاز آصف،میجر احمد نواز،ساجد خان،سردار طارق،مصدق گھمن ،عنبرین ترک ،اعجاز رفیع بٹ بشمول میرے اور چند دوست پاکستان تحریک انصاف کا منشور ترتیب دے رہے ہیں۔اس میں کارکنوں کی شکایات کے ازالے کے لئے ایک کمیٹی کا قیام بھی میرے مطالبے پر ڈال دیا گیا ہے۔

آج کا یہ کالم صرف اور صرف اس بات کے لئے لکھا گیا ہے کہ ہمارے دیہاتی بھائی اپنی دولت کا خوامخوا ضیاع نہ کریں۔وفاقی محتسب کا ادارہ جو ہمارے پرانے محلے دار اور دوست سید طاہر شہباز کی نگرانی میں کام کر رہا ہے اس پر بھی اعتماد کر کے دیکھا جائے اس ادارے کی برانچیں پنجاب اور دیگر صوبوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔میں شاہ جی کو بچپن سے جانتا ہوں ایک ایسے گھرانے کا چشم و چراغ جس نے غربت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اس میں غریب کے لئے ہمدردی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے ان کی ٹیم کے لوگ بھی کمال کے محنتی افسران ہیں۔بیت المال سے سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں عون عباس بپی یوتھ ونگ کے ذمہ دار رہے ہیں۔نادار لوگوں کو اس ادارے سے بڑا کچھ ملتا رہا ہے۔زمرد خان کے چھوڑے ہوئے نقوش جنہیں عابد وحید شیخ نے مٹنے نہیں دیا امید ہے عون بھی انہیں قائم رکھیں گے۔میں ان لوگوں میں سے ہوں جو سابقہ حکومت کے اچھے کاموں کی توصیف کروں گا جس طرح مفتاح اسمعیل کی تعریف ہوئی ان کی بھی ہونی چاہئے۔

میرے لیاقت پوری دوست کی خواہش تھی کہ انصاف کی ان کھڑکیوں کا بھی ذکر کیا جائے جن کا ذکر کیا نہیں جاتا ہمارے لنگوٹئے شاہ جی کارکردگی کا ڈھول ہیں مجھے بتاتے رہتے ہیں۔دل خوش ہوتا ہے کہ باغبانپورے کے یار پاکستان کے بھی یار ہیں۔وکیلوں کو اللہ اور کمائی دے لیکن یہ ضروری ہے کہ اب عوام کو وہ راستے بھی بتائے جائیں جس پر چل کر انہیں مفت انصاف مل جائے۔سستا انصاف مل جائے۔انصاف کی یہ کھڑکیاں مدت سے کھلی ہوئی ہیں کمی صرف یہ ہے کہ لوگ جانتے نہیں۔یہ نئے در ہیں اور یہ ہے نیا پاکستان۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری