تحریر : شیخ خالد زاہد محترم و معزز قارئین ہا ر جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے اور ہارنے والے اپنی ہار کو بہترین تیاری کیلئے اپنی کوتائیوں پر کام کرتے ہیں اور بھرپور انداز سے پلٹ کر آتے ہیں۔ ہارتا اور جیتتا وہی ہے جو کھیل کا حصہ ہوتا ہے اس بات کو مرزا عظیم بیگ عظیم صاحب نے یوں کہا تھا کہ
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
پاکستان کرکٹ ٹیم نے گزشتہ بر س چیمپینز ٹرافی جیتی اور فائنل مقابلے میں بھارتی سوماؤں کو خوب دھول چٹائی جس کی باعث ہم پاکستانیوں کے مزاج ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ جسکی وجہ سے شائد ہمارے گمان میں کہیں یہ بات بیٹھ گئی کہ اب تو ہمیں کوئی ہرا ہی نہیں سکتا۔اس بڑی فتح کے حصول میں یوں تو ایک کھلاڑی نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا مگر فائنل میں ایک قدرے گمنام بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز فخر زمان نے اس عصاب شکن روائیتی حریف سے مقابلے میں سیکڑا جڑ دیااور اسطرح سے انکا پہلا قدم ہی شہرت کی بلندیوں پر پڑگیا، دوسری طرف ٹیم کے پروفیسر حفیظ نے بروقت اور برق رفتار کیا خوب بھارتی گیند بازوں کی درگت بنائی یعنی جوش اور ہوش نے مل کر پاکستان کی کرکٹ کو ساتویں آسمان پہنچادیا۔ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم اس جیت کا سہرا مکی ارتھر کے سرپر سجائیں ، سرفراز کی قیادت کی معترف ہوجائیں یا پھر اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر بس شکر ادا کریں۔ جی نہیں بلکل بھی ایسا نہیں ہے قدرت ہمیشہ بہادروں کی مدد کرتی ہے ، راستے ہمیشہ بہادروں کو ملتے ہیں جو سفر کی تھکان کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔
گوکہ اب پاکستانی قوم سیاست کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو بھی کافی حد تک سمجھنے لگی ہے ۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ موجودہ نیوزی لینڈ کے دورے پر گئی ہوئی ہمارے قومی ٹیم مسلسل شکست سے دوچار ہونے کے باوجود ہر میچ میں نئے جوش اور جذبے سے لبریز دیکھائی دے رہی ہے۔ میرا ایسا ماننا ہے کہ مقابلے کیلئے جو کوئی بھی اترتا ہے چاہے وہ میدا ن ہو یا کمرہ امتحان اس کا اصل مقصد کامیابی کا حصول ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ اسکی تیاری کیسی ہے ۔ جب یہ مضمون لکھا جا رہا ہے ، تب تک پانچ ایک روزہ مقابلے اور ایک ٹی ٹوئینٹی مقابلہ ہوچکا ہے اور لرزتے ہوئے قدموں کی وجہ سے ان تمام مقابلوں میں پاکستان کی ٹیم کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
سوائے ایک میچ کے جس میں پاکستان تھوڑی بہت مزاحمت کی باقی سارے مقابلے یک طرفہ ثابت ہوئے۔ پوری طرح صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کوئی خاطر خواہ کارگردگی سامنے نہیں آئی سوائے شاداب خان کی بلے بازی کے کیونکہ وہ کہیں کہیں مزاحمت کرتے دیکھائی دیئے۔ عوامی رد عمل سے محفوظ رہنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سب سے اول یہ کہ جب تک صبح ہوش آتا ہے تو میچ ختم ہوچکا ہوتا ہے تو دوسری طرف ملک میں کوئی نا کوئی ایسا حادثہ ہوتا جا رہا ہے جو عوامی غم و غصے کا باعث بنا ہوا ہے اور ملک کے سیاسی حالات کی گرما گرمی بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
اگر پاکستان کی موجودہ کرکٹ ٹیم پر نظر ڈالی جائے تو انتہائی متوازن ٹیم ہے اور ہوش اور جوش کا بھرپور مجموعہ مرتب دیا گیا ہے اور جن کھلاڑیوں کو عمر کی وجہ سے جوش کے زمرے میں رکھا جارہا ہے وہ بھی باکمال متوازن مزاج کے حامل ہیں۔ انتخابی (سیلیکشن) کمیٹی نے بہترین امتزاج انتخاب کر کے ٹیم مینیجر اور کپتان کے حوالے کیا ہے ۔ ایک روزہ مقابلوں میں کپتان سرفراز مسلسل بلے بازوں کے کھیلنے کے نمبر تبدیل کرتے دیکھائی دیئے جسکی وجہ سے بلے باز اپنے آپ کو منظم نہیں کرپائے دوسری صورت میں سرفراز موقع کی مناسبت سے اپنے بلے بازصحیح استعمال نہیں کرسکے۔ اسی طرح سے اگر گیندبازی کے شعبے کا تذکرہ کریں تو بہت ہی بہترین گیند بازوں کا مجموعہ لے کر کھیلے مگر پھر وہی بات کہ کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں دیکھا جاسکا ۔ عامر اپنی بھرپور صحت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت اچھی گیندبازی کرتے رہے مگر وکٹ لینے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوسکی جسکی ان سے بہت امیدیں تھیں اسی طرح حسن علی بھی اپنا جادو جگانے سے محروم رہے۔
ٹیم اس وقت اپنے بہترین مرکب میں ہے ، کچھ چیزیں ہیں جن پر دھیان دینے کی ضرورت ہے جن میں سب سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ ممکنہ ایک محدود کھلاڑیوں کو مخصوص وقت کیلئے موقع فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائے تاکہ کھلاڑی میں اعتماد پیدا اور وہ زیادہ سے زیادہ اپنے اندر موجود خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے اور بہتر سے بہتر کارگردگی دیکھائے۔ اسی طرح جو کھلاڑی اپنے آپ کو بہتر کرلے یا کرتا ہوا دیکھائی دے اسے آگے لے چلیں اور دوسرے جو کارگردگی دیکھانے اور بہتری لانے میں ناکام رہیں انکی جگہ نئی کھیپ لائی جائے جس سے آپکا کھاتا بھی بڑھتا رہے گا اور کارگردگی میں تسلسل آنے کے بھی قوی امکانات ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کو ہر طرح کی خرافات سے بھی دور رہنے کی تاکید کرے میڈیا سے کم سے کم سامنا ہو یعنی کھلاڑی کھلاڑی نہیں ملک کا ایک سپاہی بن کر ملک کا نام روشن کرنے کا عزم دل میں لئے آگے کی جانب پیش قدمی کرتا چلا جائے۔
پاکستان کی ٹیم کو ایک بہترین قسم کا حوصلہ افزائی (موٹیویٹر) کرنے والا ماہر نفسیات کی اشد ضرورت ہے جو صرف اور صرف ٹیم کے ذہن کو اس بات پر باور کروائے کے آپ چیمپینز ہو آپ میں چھپا دنیا کا بہترین قدرتی فطری استعداء (ٹیلینٹ) ہے اور آپ دنیا کے کسی بھی ماحول میں کسی بھی حریف کو شکست دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ کام تواتر سے کرتے رہنے کی ضرورت ہے ۔ ہارجیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے لیکن آپ عصابی طور پر مضبوط ہو تو جیت کے امکانات زیادہ روشن ہوجاتے ہیں کیوں کے پھر آپ بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں آپ کے دل سے شکست کا خوف نکل چکا ہوتا ہے یعنی فتح کا پہلا قدم تو اٹھا ہی چکے ہوتے ہو۔
پاکستانی کپتان نے بلے بازی کی شروعات کیلئے بہت ہی بے تکے تجربے کئے جو کے بلکل بھی ضروری نہیں تھے ۔ ایسے تجربات سے گریز کیا جائے۔ بلے بازوں کی جگہوں کا تعین بہت ضروری ہے خصوصی طور پرپہلے چار بلے باز بغیر کسی تبدیلی کے کھلائے جائیں میدان سے باہر تکنیک ، مہارت ہر اس چیز کو پرکھ لیجئے جو کسی ماہر بلے باز میں ہونی چاہئیں پھر فیصلہ کرلیجئے اور انہیں بھی انکی ذمہ داری سے ناصرف آگاہ کیجئے بلکہ انہیں بتائیں کے انکے اندر کیا کیا خصوصیات ہیں جنہیں وہ بروئے کار نہیں لا پا رہے اور اپنی سوفیصد قابلیت اپنی باری میں نہیں دے پارہے۔چار نمبر کے بعد کے بلے بازوں میں کپتان موقع کی مناسبت سے ردوبدل کرسکتا ہے ۔سرفراز بطور کپتان بہت انہماک سے کھیل کھیلتے ہیں اور کھلاتے بھی ہیں ، ہر کپتان کی طرح انکی خواہش ہوتی ہے کہ باقی تمام کھلاڑی بھی ان ہی کی طرح کھیل میں دھیان دیں۔
اس دھیان دینے کا تعلق بھی ایک دوسرے کو شاباش کہتے رہنا ہوتا ہے ۔اچھے وقت میں تو سب ہی واہ واہ کرتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں اصل مزا تو جب آتا ہے کہ برے وقت میں کھڑے ہونے کی ہمت دلائی جائے ابھی پاکستانی کھلاڑیوں کو ہمت دلانے کی ضرورت ہے اور انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ آپ سے بہتر اس کھیل کو کوئی نہیں سمجھتا۔ بینالاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے پاکستان کے ابھرتے ہوئے بہت فطری استداء سے بھرپور حسن علی اور دلکش انداز سے بلے بازی کے جوہر دیکھانے والے بابر اعظم کو بہترین امرجنگ کھلاڑی قرار دیا ہے ۔ یہ ایوارڈ ان کھلاڑیوں کی بھرپور کارگردگی کی بنیاد پر دئیے گئے ہیں ان کھلاڑیوں میں اعتماد بھی اور کچھ کر دیکھانے کا عزم بھی بس انہیں ایسے ماحول سے بچانا کرکٹ بورڈ اور خصوصی طور سے کپتان سرفراز کی ذمہ داری ہے۔
میں اپنے اس مضمون کے توسط سے جس میں ہم نے کسی ارباب اختیار پر کسی قسم کی کوئی نقطہ چینی نہیں کی ہے کیونکہ اس کام کیلئے بہت لوگ اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں، موجودہ ٹیم میں قطعی کوئی ردوبدل کی ضرورت نہیں ہے آپ اسے آنے والے ورلڈ کپ تک کیلئے رکھ لیجئے اور مذکورہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو یقینی بنوا دیجئے پھر دیکھئے پاکستان نا صرف عالمی کپ آپکی گود میں لاکر رکھ دیگا بلکہ پہلے نمبر کی ٹیم ایک بار پھر بن کے دیکھا دے گا۔