تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم اِس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن کا ناسور ہر زمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے کے چند نام نہاد اخلاقی اور تہذیبی لحاظ سے تباہ حال کمزورترین اِنسانوں کو ترقی اور خوشحالی کا جھا نسہ دے کرسارے معاشرے کو دیمک سے کہیں زیادہ تیزرفتاری سے تباہ وہ برباد کردیتا ہے۔ آہ ..!! آج بدقسمتی سے اِن دِنوں سرزمینِ پاکستان میں کرپٹ مشتاقوں کی کرپشن میں مشتاقیاں عروج پر ہیں یعنی یہ کہ آج کل مشتاق رئیسانی کے بعد میدانِ کرپشن میں مشتاق شیخ کے چرچے زبانِ زدہ عا م ہیں،چونکہ کالم محدود ہے یہاں مجھے اِس بحث میں جا نے کی ضرورت نہیں کہ کوئٹہ کے مشتاق رئیسانی کا نام زمانہ حال میں کرپشن کے حوالے سے کس بامِ عروج پر ہے مگر افسوس ہے کہ پاکستان میں لگ بھگ بیس کروڑ اِنسانوں میں سے کسی نے کسی اور کے کسی اور اچھے معاملے میں کسی اور کا کوئی ریکارڈ توڑنے کی سعی تو نہ کی مگر حیرت انگیز طور پر سندھ کا مشتاق شیخ کرپشن میں ایک ایسا مشتاق ثابت ہوا ہے جو اپناسینہ چوڑا کرکے میدانِ کرپشن میں مشتاق رئیسا نی کا ریکارڈ توڑنے کی کو شش میں تمام حدودِ کرپشن کو سپوتاژ کرتے ہوئے آسمانِ کرپشن کے چمکتے دمکتے کرپٹ ترین ستارے کا درجہ پا نے کے لئے کرپشن کی دوڑ میں شامل تھا۔
قوی خیال یہ تھاکہ جس دیس میں کرپشن کا پاو ¿ہ سب پہ بھا ری ہو اِس پاو ¿ے کی گُھٹی میں ڈوب جا و ¿ اور جا ئز و نا جا ئز دولت کا انبار لگاو ¿ اور ہر خاص و عام کو خرید کر دنیا کو جنت بناتے جاو ¿ اور اپنی زندگی عیش وطرب سے گزارکر چلتے بنو۔مگر وہ تو اللہ بھلا کرے کہ بہت سوں کی کرپشن پر کبوتر کی طرح آنکھ بند کئے بیٹھے رہنے والے اداروں کا جنہوں نے مشتاق رئیسائی کی طرح مشتاق شیخ کی کرپٹ ترین زندگی کا کھوج لگا یا اور اچا نک چابکدستی کا مظاہرہ کیا اور مشتاق شیخ کو اِس کے ارادوں کی تکمیل سے پہلے ہی رنگے ہاتھوں دھرلیا اور اَب کم بخت مشتاق شیخ اپنے کرپٹ پیش رو مشتاق رئیسا نی کی طرح ہاتھوں اور پیروں میں لوہے کی زنجیروں میں جکڑاجیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑاہوا ہے جس پہ ندامت کے بجائے اُلٹا یہ کم بخت اور اپنے تمام اگلے پچھلے کرپٹ گناہوں کو گن گن کر ایسے فخریہ انداز سے بیان کررہاہے کہ جیسے اِن نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا ہے اور اِس اُمیدخاص میں سا نسیں لے رہاہے کہ کوئی اِس کا کچھ نہیں بگاڑسکتا ہے کیو نکہ کرپشن کا پاو ¿ہ سب پہ بھاری ہے اِسے یقین ہے کہ ابھی کہیں سے کوئی دبنگ اورتونگر کرپٹ آئے گا اور اِسے ضمانت پر رِہا کرواکرلے جا ئے گا۔
بہرحال، آج میرے مُلک کے جن اداروں کے سربراہانِ خا ص و عام نے مُلک سے کرپٹ عناصر اور کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے وہ یہ جان کر اپنے فرا ئض منصبی کواچھی طرح سے ادا کریں کے اِنہیں بھی ایک نہ ایک دن اپنے پیدا کرنے والے ربِ کائنات کے حضو ر پیش ہوکر اپنے کئے ہوئے بُرے اچھے اعمالوں کا ضرور سا منا کرنا پڑے گااِس موقع پر بس اِنہیں اِتنا ضرو رسوچناچاہئے کہ وہ اگر واقعی مُلک سے کرپشن اور کرپٹ عناصرکے خاتمے اور اِن کا قلع قمع کرنے کے لئے مخلص ہیں تو پھر یہ بلا تفریق اپنا فریضہ ادا کریں اور بغیر ہچرمچِر اور چون وچراکئے پانامالیکس سے لے کر مُلک کے حکمرانو، سیاستدانو،اعلیٰ و ادنی سول و عسکری سربراہان اور سرکاری و نجی اداروں کے اُوپر سے نیچے تک تمام کرتادھرتاو ¿ں اور اِسی طرح ہرقسم کے امیرو غریب اور عزیزواقارب کی تمیز کئے بغیر بس صرف کرپٹ عناصر کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز تر کردیں اور اُس وقت تک یہ متحرک رہیں جب تک سرزمینِ پاکستان سے ہرسطح پر پا ئے جا نے والے ظاہر و باطن کرپٹ مشتاق اور کرپشن میں مشتاقیاں کرنے والے سارے کے سارے کرپٹ نیست ونابود نہ ہوجا ئیں۔
Life
آج اگر یہ کہا جائے کہ میرے دیس میں آباد ہر مذہب اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے اِنسا نوں کے جسموں میں کرپشن کا خُلیہ رگوں میں دوڑتے خون میں شامل ہوکرزندہ رہنے کا لازمی جزسا بن گیا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا الغرض یہ کہ زندگی کے جس شعبے میں بھی جھانکا جا ئے تو کوئی ایک شعبہ بھی کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک نہیں ملے گا جس پر یہ کہا جا سکے کہ چلو یہ شعبہ تو کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک ہے ایوانوں سے لے کر قبرستانوں تک تو کرپٹ عناصر کا ڈیرا ہے جدھر جاو ¿جِدھر دیکھو،کرپشن اور کرپٹ عناصر سینہ تا نے ہر ادارے کی دہلیز سے لے کر آنگن تک ایسے دندناتے پھرتے ہیں کہ جیسے آج اگر یہ نہ ہوتے تو اچھے اچھوں کا ستیاناس ہوچکاہوتااور بھلا کرپشن کے بغیر بھی خوشحا ل زندگی کا تصور ممکن ہے کیا؟حلال کما ئی تو بس منہ میںموجود 32/30دانتوں ہی میں پھنس کر رہ جا تی ہے حلال کمائی سے بھی کیا پیٹ بھراکرتا ہے..؟ ارے ، پیٹ بھرنے اور معاشرے میں لگژری لائف گزانے کے لئے حرام حلال ، جا ئز وناجائز طریقوںاور شاٹ کٹ راستوں یعنی کہ کرپشن کا سہارالیناپڑتاہے اور جو بے حس بن گیااور جو کسی کے کہنے یا اشارے پر فرنٹ مین کے طور پر چل پڑا بس وہی کا میاب ہوا ہے جیسے کہ کوئٹہ کے مشتاق رئیسا ئی اور سندھ کے مشتاق شیخ جیسے بدنام ِ زمانہ کرپٹ ہیں، آج جو خود تو قا نون کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔
مگر افسوس ہے کہ یہ ابھی اُن لوگوں کو بچا نے کی کوششوں میں ہیں جنہوں نے اِن کے کا ندھے تھپتپائے اور اِنہیں اپنا فرنٹ مین بنایامزے سب نے کئے مگر پکڑے یہ گئے ہیں، بات مشتاق رئیسا نی اور مشتاق شیخ پر ہی ختم نہ سمجھی جا ئے بلکہ مُلک میں اُن کرپٹ عناصر جو وفاقی اور صوبائی قومی اداروں میں اعلی اور ادنی ٰ عہدوں پر فا ئز ہیں اور اِن اداروں میں ٹینڈروں اور جاب ورکس کی صورت میں منظور ہونے والے منصوبوں اور کاموں کو ٹھیکہ داروں اور کرپٹ مافیاسے مل کر جاب ورکس کو اپنی جیب ورکس کا حصہ بنا رہے ہیں۔
میرے مُلک کی آسینوں میں دودھ پیتے اِن سانپوں کا بھی سرکچلاجائے جو قومی اداروں کو ایک پا ئی سے لے کر ہزاروں ، لاکھوں ، اربوں اور کھربوں کی کرپشن سے تباہ و برباد کررہے ہیں مُلک سے کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خاتمے کا علم بلندکرنے والے اداروں کے سربراہان اور اہلکاروں کو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے تمام کرپٹ عناصر کا بھی کڑامحاسبہ کرناچا ہئے کہ مُلک کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک ہوکر صحیح معنوں میں ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کرتا ہوا اُس اُوجِ ثُریاسے بھی بلندتر ہوجا ئے جس کی برسوں سے ہر پاکستانی کی خواہش ابھی تک محض خواہش ہے۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com