پاکستان کی کرنسی کی صورت حال

Pakistani Currency

Pakistani Currency

تحریر : محمد صدیق پرہار

اکیس جون سال دو ہزار اٹھارہ کے اخبارات میں کرنسی کی بے توقیری کا افسوس کرتی ہوئی ایک خبریوں شائع ہوئی ہے کہ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق پاکستانی روپے کے مقابلے امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ کار جحان گزشتہ روز بھی برقرار رہا۔تاہم انٹربینک میں امریکی ڈالر ایک سوبائیس اشاریہ تیس روپے سے کم ہوکرایک سوا کیس اشاریہ تہتر روپے ہوگیا ۔لیکن اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلہ میں امریکی ڈالرکی اونچی پروازجاری رہی اورغیریقینی صورت حال اورسٹے بازی کے نتیجہ میںامریکی ڈالرمزیدنوے پیسے اضافے سے ایک سوتئیس اشاریہ ساٹھ روپے سے بڑھ کرایک سوچوبیس اشاریہ پچاس روپے کی بلند سطح پرپہنچ گیاجب کہ دن کے اوقات میں اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر ایک سوپچیس روپے تک بھی پہنچ گیا دوسری جانب امریکی ڈالرکے ساتھ دیگرمضبوط کرنسیوں کی خریداری کادبائوبھی بڑھ گیاجس سے یوروکی قدرمیںبھی ایک اشاریہ پچھہترروپے کانمایاں اضافہ ہوااورقیمت خریدایک سوچالیس روپے سے بڑھ کرایک سواکتالیس اشاریہ پچھہترروپے اورقیمت فروخت ایک سوبیالیس روپے سے بڑھ کرایک سوتینتالیس اشاریہ پچھہترروپے ہوگئی۔جب کہ برطانوی پائونڈ کی قدرمیں بھی ایک اشاریہ نوے روپے کااضافہ ہواجس سے قیمت خریدایک سوانسٹھ اشاریہ ساٹھ روپے سے بڑھ کرایک سواکسٹھ اشاریہ پچاس روپے اور قیمت فروخت ایک سواکسٹھ اشاریہ ساٹھ روپے سے بڑھ کرایک سوتریسٹھ روپے ہو گئی۔اسی طرح سعودی ریال کی قدرمیں دس پیسے اوریواے ای درہم کی قدرمیں بیس پیسے کااضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

سعودی ریال کی قیمت خریدبتیس اشاریہ تیس روپے سے بڑھ کربتیس اشاریہ چالیس روپے اورقیمت فروخت بتیس اشاریہ اسی روپے برقراررہی جبکہ یواے ای درہم کی قیمت خریدبھی ٣٣اشاریہ بیس روپے سے بڑھ کر٣٣ اشاریہ چالیس روپے اورقیمت فروخت ٣٣اشاریہ سترروپے سے بڑھ کر٣٣اشاریہ اسی روپے ہوگئی۔البتہ چینی یوآن کی قیمت خریداٹھارہ اشاریہ پچاس روپے اورقیمت فروخت انیس اشاریہ پچاس روپے پرمستحکم رہی۔رواں سال کے سترہ جولائی کے ایک قومی اخبارمیں پاکستان کی کرنسی کی صورت حال کے بارے میں ایک خبریوں شائع ہوئی کہ انٹربینک فارن ایکسچینج مارکیٹ میں کاروبارکے دوران امریکی ڈالرکی قیمت میں چھ روپے پچھہترپیسے کااضافہ دیکھاگیا۔جس کے بعدایک ڈالرایک سواٹھائیس روپے چھبیس پیسے کاہوگیاکاروبارکے دوران ایک موقع پرڈالرایک سوچھبیس روپے کی سطح پرپہنچاجس کے بعداس میںکمی دیکھی گئی اورایک ڈالرایک سوپچیس روپے پچاس پیسے پرٹریڈہوتارہا۔ٹریڈنگ کے دوران امریکی ڈالرکی قدرمیں مجموعی طورپرساڑھے پانچ فیصداضافہ ریکارڈ کیاگیاجس کے بعدڈالرایک سواٹھائیس روپے چھبیس پیسے کی بلندترین سطح پرپہنچ گیا۔اسٹیٹ بینک کے مطابق ڈالرمہنگاہونے سے حکومت کے بیرونی قرضوں میں آٹھ سوارب روپے کااضافہ ہواجوبڑھ کرآٹھ ہزارایک سوبیس ارب روپے ہوچکا ہے ۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق مئی کے اختتام پرحکومت کابیرونی قرض سات ہزارتین سوچوبیس ارب روپے تھااورمئی میں بیرونی قرضوںکی مالیت روپے میں ایک سوپندرہ روپے اکسٹھ پیسے کی شرح تبادلہ سے نکالی گئی۔ معاشی ماہرین کاکہناہے کہ زرمبادلہ کے ذخائرمیںکمی اورادائیگیوںکی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدرمیںکمی دیکھنے میں آرہی ہے اورڈالرمہنگاہونے سے مہنگائی کانیاطوفان آئے گا۔خبرمیں لکھاہے کہ یادرہے کہ رواں سال کی ابتدامیںکاروبارکے دوران (اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی) ڈالرایک سودس روپے پچاس پیسے پرٹریڈکررہاتھا۔مختلف اوقات میں اس میںمسلسل اضافہ دیکھاجارہا ہے۔انٹربینک میںپیسے کی قدر میں کمی اورملکی تاریخ میں ڈالرکی بلندترین سطح کے بعدسرمایہ کاربھی بے یقینی کی کیفیت میںنظرآئے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی شدیدمندی کاشکاررہی۔کاروباری ہفتے کے پہلے روزڈالرکی بلندترین سطح کے باعث سوانڈیکس میں آٹھ سوپوائنٹ کی کمی دیکھی گئی ۔انٹربینک ڈالرریٹ نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ملک کوبھاری قرضوں، مایوس کن برآمدات اوربڑھتے تجارتی خسارے جیسے مسائل کاسامنا،صنعتی پیداوارمیںکمی، قرضوںمیں ازخوداضافہ،برآمدات میںمزیدمشکلات کا شکار اورافراط زرکی شرح بڑھنے لگی۔جس سے عوام کی قوت خریدکم ہوجائے گی۔ڈالرتین سال کی بلندترین سطح پرآنے کی وجہ سے معاشی چیلنجزمزیدشدت اختیار کر گئے۔

ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافے کے منفی اثرات سے صنعت وتجارت اورزراعت سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں۔تیل کے علاوہ کھادیں اشیائے خوردونوش، مشینری اورصنعتی خام مال جیسی تمام اشیاء مہنگی جس سے تمام طبقات متاثر،بیرون ممالک سے زرمبادلہ کی شرح میںکمی ،وصولیوں کا پاکستان میں نہ آنااورپاکستان کومختلف سیکٹرمیں حاصل ہونے والے قرضوںکے باعث ڈالرایک سواٹھائیس روپے چھبیس پیسے کی بلندترین سطح پرپہنچ گیا۔رواں سال کے رواںماہ کی دس تاریخ کے اخبارات میں کرنسی کی صورت حال پرایک خبریوں شائع ہوئی ہے کہ ڈالرکی اڑان جاری ہے روپے کی قدرغیرمستحکم ہونے سے اوپن مارکیٹ میں ایک ہی روز میں نوروپے پچاس پیسے اضافے کے ساتھ ڈالرایک سواڑتیس روپے کاہوگیادوسری جانب انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر٩ روپے پچھہترپیسے مہنگاہوکرایک سوچونتیس روپے میں فروخت ہورہاہے۔جب کہ روپے کی قیمت ایک ہی دن میں ٩ روپے پچاس پیسے کم ہونے کی وجہ سے قرضوںمیں نوسودوارب روپے کاضافہ ہوگیا ہے ۔ ڈالرکے ریکارڈ اضافے سے مہنگائی کاطوفان بھی امڈآیاجب کہ زرمبادلہ کے ذخائرمیں ریکارڈکمی واقع ہوئی ہے۔مارکیٹ میں غیریقینی صورت حال عروج پرپہنچ گئی۔حکومت روپے کی قدربچانے کے لیے کوئی حکمت عملی وضع نہ کرسکی۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوںمیںانٹربینک میںڈالرایک سوچوبیس روپے پچیس پیسے کا تھا ۔ ڈالرکی قیمت میں اضافے سے مارکیٹ میں کافی غیریقینی کی صورت حال اوراتارچڑھائودیکھاجارہاہے۔معاشی تجزیہ کارمحمدسہیل کے مطابق ڈالرکی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ حکومت کاآئی ایم ایف سے قرض لینے کافیصلہ بھی ہے۔ان کامزیدکہناتھا کہ حکومت کی جانب سے انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ اوردیگراقدامات ہی ایسی چیزیں ہیںجوآئی ایم ایف میںجانے کی ہی شرائط ہوتی ہیں۔کرنسی ڈیلرکے مطابق روپے کی قدرمیں حالیہ کمی آئی ایم ایف کے دبائوکانتیجہ لگتی ہے۔کیونکہ آئی ایم ایف پہلے ہی روپے کی قدرمیں پندرہ فیصدکمی کامطالبہ کر چکا ہے۔ڈالرکی قیمت میں اچانک اضافے سے غیریقینی صورت حال کاسامناہے اورڈالرکی ڈیمانڈبڑھنے کاامکان ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روزوفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج لینے کافیصلہ کیااوراس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے فوری مذاکرات کی منظوری بھی دے دی۔صرافہ بازارملتان میں سوناکی فی تولہ قیمت میں ایک دن میں اٹھارہ سوپچاس روپے کے اضافے کے بعدسوناتاریخ کی بلندترین سطح پرپہنچ گیامارکیٹ ذرائع کے مطابق فی تولہ سوناساٹھ ہزارپچاس روپے کی سطح سے بڑھ کراکسٹھ ہزارنوسوروپے کی سطح پرآگیاہے۔جب کہ دوسری جانب چاندی کی قیمت آٹھ سو٣٥ روپے سے بڑھ کرآٹھ سو٤٥ روپے فی تولہ کی سطح پرآگئی ہے۔ سولہ اکتوبر کے ایک قومی اخبارمیں ایک خبریوں شائع ہوئی ہے کہ انٹربینک میں ڈالرکی قدرمیں ایک بارپھراضافہ دیکھاجارہاہے۔کاروباری ہفتے کے پہلے روزہی ایک بارپھرانٹربینک میں روپے کی قدرمیںکمی دیکھی جارہی ہے۔ڈالرکی قیمت میں ایک روپے ٤٣ پیسے کااضافہ ہواہے کاروبارکے دوران ڈالرکی قدرایک سو٣٣ روپے چالیس پیسے ہوگئی جب کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر ایک سوبتیس روپے پربرقرارہے۔ کبھی کبھی روپے کی قدرمیں اضافے کی خبریں بھی شائع ہوجاتی ہیں ۔رواں سال کے اکتیس جولائی کے ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی اخبارکی سرخی اورذیلی سرخیوں کے الفاظ یوں ہیں۔ڈالرپانچ روپے چھتیس پیسے مزیدسستا ایک سوبائیس روپے پچاس پیسے کاہوگیا۔تاریخ میںپہلی بار انٹربینک میں ڈالرکی پستی ، ایک دن میںپاکستانی قرضے چارسوپچاس ارب روپے کم ہوگئے ،تین روزمیں٩ روپے کمی ہوئی۔روپے کی قدربڑھ گئی۔ ڈالرکی قیمت میںمزیدکمی کاامکان ۔تیرہ اکتوبرکے ایک قومی اخبارکی خبریوں ہے کہ روپیہ مستحکم ہونے لگا،انٹر بینک میں ڈالرمزیددوروپے سستا۔

آئی ایم ایف مشن کاکہناتھا کہ پاکستان کومانیٹری ریٹ روپے کی قدرمیں کمی کے فوری فیصلے کرناہوں گے۔ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے نے روپے کی قدر میں تاریخی کمی کانوٹس لے لیا۔نوازشریف کاکہناتھا کہ یہ ریکارڈ کی بات ہے دیکھ لیں چارسال میں ڈالرایک سوچارروپے سے نہیں بڑھا۔اب پچاس دنوںمیں ڈالرکاحال دیکھ لیا۔وفاقی وزیرخزانہ اسدعمرکہتے ہیں کہ جہاں تک روپے کی قدرمیںکمی کاتعلق ہے تویہ کمی سال دوہزارسترہ میں اس وقت آناشروع ہوئی جب ن لیگ کی حکومت تھی اورمفتاح اسماعیل وزیرخزانہ تھے۔جب ہماری حکومت آئی توڈالرکے مقابلے میںپاکستانی روپیہ ایک سوپانچ روپے سے ایک سواٹھائیس روپے پرآچکاتھا۔اب ایک سوبتیس روپے پرپہنچ گیاہے۔ہمارے دورمیں صرف چاررورپے کمی آئی ہے۔نوازشریف اپنے دورحکومت کے آخری دنوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ کاذکرکرناگول کرگئے اورموجودہ وزیرخزانہ ا سدعمرروپے کی قدرمیں کمی کومعمولی قراردے رہے ہیں۔ ہمارے دورمیں صرف چارروپے کمی آئی ہے کہہ کراسدعمرنے روپے کی بے قدری کوغیرمعمولی قراردیاہے۔وزیرخزانہ نے کہاتوایسے ہے جیسے یہ اضافہ دس سال میںہواہو۔ابھی توموجودہ حکومت کودوماہ بھی نہیںہوئے کہ یہ کرنسی کایہ حال ہے ۔ روپے کی اس بے قدری کودیکھ کرآئندہ کاتصورکرنامشکل ہورہا ہے۔حکومت کوروپے کی قدرمیں اضافے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگرشدیدمعاشی مشکلات اوربیرونی قرضوںمیں بہت زیادہ اضافے کاسامناکرناپڑسکتاہے۔ جس کے اثرات مثبت نہیں ہو سکتے ۔ وزیر پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی نے توقوم کوڈرادیاہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سناہے ڈالرایک سوچالیس تک جائے گا۔ اچھاوقت بھی آئے گا۔

Muhammad Siddique Prihar

Muhammad Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار

siddiqueprihar@gmail.com