اب تو مغرب کے تعلیمی نظام کی خرابیاں پر خو د مغرب کے دانشور اعتراض اُٹھاتے رہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں کے سیکولر ،لبرل و فیمنسٹ نام نہاد ماہرین وہی تجربات دہرا کر پاکستان کے تعلیمی نصاب میںداخل کر کے اپنی قوم کو عذاب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ہمارے مغرب زدہ ماہرین تعلیم صرف مغرب کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر ان حضرات کو یا د رکھنا چاہیے کہ ایک جیسے حالات کبھی بھی نہیں رہتے۔ ان کی ملک ،مذہب ،ملت، معاشرت دشمنی کو آنے والی نسلیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گی؟ہمارے یہ نام نہاد ماہرین کیوں نہیں سمجھتے یورپ اور امریکا کے دانشور خود اپنی تعلیم نظام سے نالاں ہے۔
ہمارے یہ حضرات یہ نہیں سمجھ رہے کہ مغربی استعماری طاقتوں نے مسلمانوں میں خوئے غلامی پیدا کرنے کے لیے ان کی تہذیب، ثقافت ، زبان اور نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل در آمندبھی کیا۔ صدیوں سے قائم مساجد،مدارس،اور خانقاہوںکی سرکاری امداد بند کر کے انھیں مفلوج کر دیا گیا۔ جن جائیدادوں سے ان مدارس کے معاونت ہوتی تھی انھیں بہ حق انگلش سرکار ضبط کر لیا گیا۔ کچھ سخت جان مدارس ہی بچ سکے۔ اب تو انگریز چلے گئے مگر پاکستان میں بگڑے ہوئے انگریز چھوڑ گئے ہیں۔ جو ان کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ نے اپنے سیکولر روایات کے مطابق تعلیم نصاب ترتیب دینے کے بجائے وہی لارڈ میکالے کا نظام تعلیم رائج رکھا ۔ جس میں مغرب کے غلام ہی بنتے ہیں۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسلامی کے شیدائی بننے کے بجائے سیکولرزم کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔ہمیں ایسا نصاب تعلیم چاہیے تھا جس میں سے نکل کر وہ محب وطن اسلامی ذہن کے لوگ بنتے۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکے جو لاڑڈ میکالے کے نظام تعلیم سے نکلے ہوئے تھے ، نے کہنا شروع کر دیا تھا چودہ سو سالہ نظام اس جدید دنیا میں نہیں چل سکتا۔ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے ساتھ مغربی تہذیب کو بھی اپنایا جائے۔ ایلیٹ کلاس کے بچوں کی تعلیم عیسائی مشنری اسکولوں سے ہوتی ہے اس لیے وہ مغربی نظام تعلیم اے لیول او لیول کے گرویدہ ہیں۔جیسے ہماری سابق مرحومہ وزیر اعظم بے نذیر بھٹو صاحبہ نے ایک دفعہ کہا تھا آذان بج رہا ہے۔ سیکو لر حکمرانوں نے مغربی ایجنڈے پر چلنے والی بے شمار این جی اوز کو پاکستان میں کھل کر کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ یہ عورتوں کے نام نہاد حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے نام پر ہمارے معاشرے میں بگاڑپیدا کر رہی ہیں۔ پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا نے امریکا ڈالر لے کر اسلامی معاشرے کو تباہ کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔اسکے ساتھ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں ایک این جی اورز ”ایس ڈی پی آئی” نے ٢٠٠٤ء میں ایک ریسرچ پیپر پیش کیا۔
ہمارے کند ذہن حکمرانوں نے اسے من و عن صحیح تسلیم کر لیا۔ اس ریسرچ پیپر میں کہا گیا کہ” پہلے سے موجودہ تعلیمی نصاب ایک ترقی پسند، اعتدال پسند اورجمہوری پاکستان کی ترقی کے لیے صحیح نہیں۔انتہا پسندی اور دہشت گردی کی معاونت میں صرف دینی مدارس ہی نہیں بلکہ یہ ٹیکسٹ بورڈ وزارت تعلیم کے نصابی ونگ بھی شامل ہیں۔ مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی کہنے پر بھی تنقید کی گئی۔مفروضہ یہ گھڑا کیا کہ اس سے غیر مسلم پاکستانی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔نصاب میں قرآن مجید کی آیات کیوں شامل ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ ملک کے دفاع کو شہری کا اولین فرض کیوں کہا جاتاہے۔ اسلامی ہیروز کے نام نصاب میں کیوں شامل ہیں۔ پاکستان کو جدید ہتھیار حاصل کرنے پر کیوں راغب کیا گیا ہے۔عورتوں کے نقاب اور معقول اسلامی لباس پہننے پر بھی تنقید کی گئی ہے۔
ہوم اکنامک پر اعتراض کیا گیا ہے”۔اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب یو نیورسٹی کے سابق چانسلر منیرالدین چغتائی نے کیا تھا۔ کہ یہ نظریہ پاکستان اور پاکستان کے وجود کے خلاف کھلی جنگ ہے۔ ہمارے نام نہاد مفکرین حضرات ہمارے نصاب تعلیم سے ہر وہ چیز نکالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو ہمارے وجود کو جوڑ کر رکھ سکتیں ہیں۔مقامی این جی اوز بین الاقوامی اداروں، جیسے ورلڈ بنک اور یو ایس ایڈ کی پاکستان کے تعلیمی نصاب کو ان کی منشاکے مطابق بنانے میں ہروقت تیار رہتی ہیں۔اس کمیشن کی ٢٠١٦ء کی رپورٹ جب مرکز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی حکومتیں تھیں سفارشات میں کہا گیا کہ” پاکستان کے تعلیمی نصاب میںجنگوں اور جنگی ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم سندھ، سلطان محمود غوری کا حملہ فخریہ انداز میں نصابی کتب میں کیوں شامل ہے؟
تہذیب و ثقافت کے اظہار کے لیے تو ناچ گانا اور شادی بیاہ کی رسومات کو دکھانے کے بجائے جنگوں کو کیوں پیش کیا جا رہا ہے”؟ اس رپورٹ کے لیے ایک مقامی این جی او” پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن ” نے تحقیق کر کے سفارشات تیار کیں۔ اس این جی او نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی طرف سے پیش کی گئیں سفارشات کی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے سرکاری اسکولوں کی نصابی کتب میں تبدیلیاں لائی جا چکی ہیں۔اس رپورٹ میں پاکستان کے اسلامی عقیدے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔اسلام درست مذہب ہے، پر اصرار نہ کیا جائے؟اس فائونڈیشن نے حکومتی وزیروں سے مل کر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ڈکٹیٹرمشرف نے تعلیمی نصاب سے قرآنی آیات کو نکا لا۔اب تحریک انصاف کی حکومت میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف حکومت کی کابینہ سے یکساں نصاب تعلیم کی منظور دی۔٢٠٢١ء میں تحریک انصاف کی حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کو ملک میں نفاذ کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب میں تمام بورڈ میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے نصاب میں مطالعہ پاکستان کی جو کتب پڑھائی جا رہی ہیں وہ فیمنسٹ ماہرین کی تیار کردہ ہیں۔قومی و پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ وومن پروٹیکشن ایکٹ ٢٠١٠ء جنسی ہراسمنٹ ایکٹ ٢٠١٠ء کم عمری کی شادی پر پابندی ایکٹ ٢٠١٥ء اور خواتین تحفظ ایکٹ ٢٠١٦ء کی تمام تفصیلات کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔یہ قوانیں مغرب کی مالی معاونت سے مقامی این جی او نے بنائے ہیں۔جبکہ عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور تمام جراہم کا آغاز مغرب میں ہوا۔آج بھی امریکا کے تازے سروے کے مطابق امریکا کی ہر عورت کے ساتھ زندگی میں ایک دفعہ زنا یا قدام زنا کا واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔یہ سارے عورتوں کے حقوق مغرب یورپ اور شمالی امریکا و کینیڈا جہاں کے تمام تعلیمی ادارے فیمنسٹ تحریک کے کنٹرول میں ہیں۔وہاں بھی یہ نظریات یونیورسٹی لیول سے نیچے کا حصہ نہیں۔ وہاں یہ نظریات سوشل سائنسز وومن سٹیڈیز جینڈر اسٹیڈیز کے گریجویٹ و انڈر گریجویٹ لیول کے مضامین میں شامل ہیں۔ وہاں کے ماہرین کا اعتراض ہے کہ انڈر گریجویٹ لیول کے سوشل سائنسز کے طالب علموں کو یہ تھیوریزبتا کر ان کا ذہن کیوں خراب کیا جارہا ہے؟
صاحبو! جس کو مغرب اور امریکا کے ماہر تعلیم اپنے بچوں کے لیے عذاب قرار دے رہے وہ ہمارے تعلیمی نصاب میں ڈالے گئے ہیں۔ ہم عمران خان صاحب جوعلامہ اقبال کے خواب، قائد اعظم کے اسلامی وژن کے مطابق مدینہ کی اسلامی ریاست قائم کرنے اور پاکستان کو کرپشن فری بنانے کے منشور پر اقتدار میں آئے ہیں سے گزارش کرتے ہیں کہ مغرب کی اس چال کو پاکستان میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ ایسا کوئی بھی بین الاقوامی معاہدہ نہ کریںجو اسلام اور قیام پاکستان کے مقاصد کے خلاف ہو۔ ورنہ اللہ آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا اورنہ ہی پاکستان کا اسلامی معاشرہ آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا۔