اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں سائبر کرائم کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ، فیس بک اور میل اکاؤنٹ ہیک کرنے کے واقعات تو عام ہیں جبکہ معاملہ اب اے ٹی ایم مشینوں سے پیسے چرانے ، بلیک میلنگ اور کال سینٹروں سے جعلی ڈگریوں کی پیشکشوں تک آن پہنچا ہے۔
لیکن ان جرائم کی روک تھام کیلئے کوئی مؤثر قانون موجود نہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا جتنا بے لگام ہے شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہو گا۔ ہتک آمیز ریمارکس سے لے کر گالم گلوچ تو عام سی بات ہے۔ فیس بک اور گوگل پر کئی ایک ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں سر کسی کا ہے۔
تو دھڑ کسی کا ، کوئی کسی کی پگڑی اچھال دے یا لنگوٹ اتار دے ، کسی کی طلاق کروا دیں یا خودکشی کا سبب بن جائیں مکمل آزادی ہے ، قانون کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ بھارت نے بھی انٹرنیٹ سیکیورٹی کیلئے اپنے روٹ سرور لگا رکھے ہیں۔
جبکہ ہم اس معاملے میں بھی ابھی تک امریکہ کے مرہون منت ہیں جسکے سبب یہاں انٹرنیٹ استعمال کرنیوالے عام آدمی تو کیا حکومتی اداروں کی حساس معلومات بھی محفوظ نہیں ۔ سائبر کرائم سے متعلق ہزاروں ایف آئی آر موجود ہیں۔
لیکن ملک میں ان جرائم کی تحقیقات کیلئے مؤثر نظام نہ قانون ، مجوزہ سائبر ایکٹ کو بھارتی قانون کا چربہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا مگر یہ مسودہ بھی ابھی فائلوں میں پڑا ہے۔ یہ بھی خوب ملک ہے جہاں ادارے پہلے وجود آتے ہیں اور ان سے متعلقہ قانون بعد میں بنتا ہے۔