تحریر: حبیب اللہ سلفی دختران ملت مقبوضہ کشمیر کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی پر یوم پاکستان کے موقع پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے جرم میں بغاوت کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 23 مارچ کو انہوںنے مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میںایک تقریب کا انعقاد کیاجس میں سینکڑوں خواتین نے شرکت کی۔پاکستان کی محبت میں سجائی گئی اس تقریب میں نہ صرف وطن عزیز کے حق میں تقاریر کی گئیں بلکہ سب خواتین نے مل کر پاکستان کا قومی ترانہ بھی پڑھا۔ اس موقع پر پاکستانی پرچم خصوصی طور پر آویزاں کیا گیا تھا۔یوم پاکستان کے حوالہ سے ہونے والی اس ایمان افروز تقریب کے اختتام پر اس کی ویڈیو جب انٹرنیٹ پر سامنے آئی تو بھارتی میڈیا اور انتہا پسند جماعتوں نے حسب سابق آسمان سر پر اٹھا لیاا ور حریت پسند جماعتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
بھارت سرکار کی جانب سے کشمیری حریت پسند قیاد ت کے خلا ف اس طرح کے مقدمات اور گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کبھی بھارت میں زیر تعلیم کشمیری طلباء پر پاکستان کے میچ جیتنے کی خوشی منانے کے جرم میں بدترین تشدد کا نشانہ بناناجاتا ہے’ غداری کے مقدمات درج کئے جاتے ہیں تو کبھی پاکستان کا پرچم لہرانے کے الزامات لگا کر یونیورسٹیوں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ کشمیر سے بھارت جانے والے تاجر محفوظ ہیں نہ طلباء آزادی سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے ۔ اس مسئلہ کو خود بھارت یو این لیکر گیا اور کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا تاہم آج تک اس نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیری ہیںاور آٹھ لاکھ بھارتی فوج کو گلی کوچوں میں تعینات کر کے بدترین مظالم کی ایک شرمناک تاریخ رقم کی جارہی ہے۔
ڈیڑھ لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ہزاروں کشمیری مائوں’ بہنوں و بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی اور دس ہزار سے زائد افراداس وقت بھی ایسے ہیں جنہیں گھروں اور تعلیمی اداروں سے زبردستی اٹھا لیا گیاجس کے بعد آج تک ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ مختلف شہروں و علاقوں میں کشمیریوں کی اجتماعی قبریں برآمد ہو رہی ہیں۔کشمیر جنت نظیر کا کوئی گھر ایسا دکھائی نہیں دیتا جس کا کوئی نہ کوئی فرد کسی نہ کسی حوالہ سے بھارتی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنا ہو۔ کشمیریوں کی نسل کشی کا یہ عالم ہے کہ احتجاجی مظاہروں پر کھلے عام ممنوعہ ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی بینائی ضائع ہو چکی اور وہ زندگی بھر کیلئے معذور اور خطرناک بیماروںکا شکار ہو رہے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بھارت میں اگر کسی کو عمر قید کی سزا ہوجائے تو وہ چودہ پندرہ برسوں بعد رہا ہو کر باہر آجاتا ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ہندوستان نے ایسے ظالمانہ قوانین نافذ کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے پوری کشمیری قوم کی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں۔فرضی جھڑپوں میں ملوث بھارتی فوجیوں کو تمغوں سے نوازا جارہا ہے اور اپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو تاحیات عمر قید کی سزائیں سنا کر ہمیشہ کیلئے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔
Kashmir
سیدہ آسیہ اندرابی کے خاوند ڈاکٹر محمد قاسم نے اپنی نصف زندگی جیلوںمیں گزار دی ہے لیکن ان کی سزا پوری ہونے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیاگیا اور کہاجارہا ہے کہ عمر قید کی سزا کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرتے دم تک جیل میں ہی رہیں گے لیکن آفرین ہے مظلوم کشمیری حریت پسند قیادت اور کارکنان پر کہ انہوں نے یہ سب مظالم خندہ پیشانی سے برداشت کئے ہیں مگر تحریک آزادی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ دختران ملت کی سربراہ اور ان کا خاندان خاص طور پر صبرو استقامت کا پہاڑ ثابت ہوا ہے۔ آسیہ اندرابی کی اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوںمیں اذیتیں برداشت کرتے گزرا ہے۔تحریک آزادی کشمیر سے ان کی لازوال کمٹمنٹ کی طرح پاکستان سے اس قدر بے لوث محبت ہے کہ یہاں ہونے والی کسی قسم کی تخریب کاری و دہشت گردی پر وہ فورا بے چین ہو جاتی ہیں اور پاکستان میں گولی چلانے کو وہ واضح طور پر حرام قرار دے چکی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی ایجنسیوںنے سازش کے تحت اپنے ایک ایجنٹ کوصحافی بنا کر ان کے پاس بھیجاجس نے ملاقات کے دوران ان سے کہاکہ وہ مبینہ طور پر طالبان کے رکن ہیں اورپاکستان میں نفاذ شریعت کی خاطر جہاد کیلئے ان کی مددوتعاون چاہتے ہیں جس پر سیدہ آسیہ اندرابی نے صاف طور پر انہیں کہاکہ آپ کا کسی صورت طالبان سے تعلق نہیں ہو سکتا اور جہاں تک پاکستان میں جہاد کی بات ہے تو وہ اپنے مسلمان بھائیوں پر گولی چلانے اور خون خرابہ کو شرعی طور پر جائز نہیں سمجھتیں اور لاالہ الااللہ کے نام پر حاصل کئے ملک کو کمزور کرنے کی کسی بیرونی سازش کا حصہ نہیں بن سکتیں اس لئے آپ یہاں سے تشریف لے جائیںاور یہ بات یاد رکھیں کہ میری طرح کوئی اور کشمیری بھی ان شاء اللہ ایسی ناپاک سازش کا شکار نہیں ہوگا۔
بہرحال مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں جہاں کشمیری مردوںنے بے پناہ قربانیاں پیش کی ہیں وہیں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔کشمیری مائیں، بہنیں و بیٹیاں جرأت و بہادری کی ایسی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہیں کہ جو قیامت تک کیلئے تاریخ کا ایک سنہرا باب بن چکی ہیں۔1962ء میں پیدا ہونے والی سیدہ آسیہ اندرابی اور ان کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم کی طرح ان کا پورا خاندان ہی بھارتی ظلم و استبداد کے خلاف قربانیوں کی عظیم مثالیں پیش کر رہا ہے۔ یہ کشمیری قوم پر بھارتی فورسز کے مظالم ہی تھے کہ انہوںنے کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد مزید تعلیم کے سلسلہ کو خیرباد کہہ دیا اور خواتین میں تحریکی حوالہ سے کردار ادا کرنے کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دختران ملت نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔آہستہ آہستہ کشمیری خواتین کی یہ تنظیم مضبوط ہو تی گئی اور پھر بھارت سرکار کی جانب سے کشمیری حریت پسندوں کی مدد کا الزام لگا کر 1990ء میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔
Syeda Asiya Andrabi
اسی دوران ان کی شادی تحریک آزادی کشمیر کے عظیم مجاہد ڈ اکٹر محمد قاسم سے کر دی گئی جس کے بعد ان دونوں میاں بیوی نے ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ مظلوم کشمیریوں کی مدد شروع کر دی ۔ابھی ان کی نئی نئی شادی اورسات ماہ کا ایک بچہ تھا کہ بھارتی فوج نے ان دونوں میاں بیوی اور بچے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ اس دوران انہیں ذہنی اذیت دینے کیلئے دودھ پیتے بچے کولاک اپ سے باہر رکھا جاتا ‘ وہ بھوک سے بلک بلک کر روتا رہتا مگر ماں کو اسے دودھ پلانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود ان کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جیلوں میں ملنے والی ناقص غذائوں اور ذہنی وجسمانی تشدد کے باعث جہاں ان کے خاوند مختلف امراض میں مبتلا ہیں وہیں سیدہ آسیہ اندرابی کی صحت بھی کمزور ہو چکی ہے لیکن ان کی پاکستان سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ہر آنے والے دن اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی انتہا پسند حکومت کے برسراقتدار آنے اور کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے مظالم کے باوجودوہ 23مارچ کو یوم پاکستان کی تقریب کے انعقاد سے پیچھے نہیں رہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دنوں جب پاکستان اور بھارت کے مابین ایک بار پھر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور سیکرٹری خارجہ سطح پر مذاکرات کئے جارہے ہیں ۔ حکومت پاکستان کوبھارت سے واضح طور پریہ بات کرنی چاہیے کہ وہ سیدہ آسیہ اندرابی اور دیگر حریت پسندقیادت پر بے بنیاد مقدمات ختم کر کے انہیں فی الفور رہا کرے وگرنہ یہی سمجھا جائے گا کہ وہ جان بوجھ کر ماحول خراب کر رہا ہے اور پاکستان سے مذاکرات کو صرف مقبوضہ کشمیر پر اپنا فوجی قبضہ مستحکم کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔اسی طرح پاکستانی ہائی کمشنر کی حریت پسندوں سے ملاقاتوں پر حکمرانوں کو بھارتی شورشرابہ پر کسی دبائو کا شکار ہونے کی بجائے اپنے اصولی موقف پر کاربند رہنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس مسئلہ کشمیر کا کوئی اور حل قبول نہیں کیاجائے گا اور یہ کہ مظلوم کشمیری اس مسئلہ کے اصل فریق ہیںاس لئے محض بھارت کی خوشنودی کیلئے پاکستان انہیں نظر انداز نہیں کر سکتااور ان کی مشاورت سے ہی آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔