جشن آزادی پر، پرندے آزاد کریں

14 August

14 August

جشن آزدی پاکستان کا دن قریب ہے،جبکہ میرے وطن کے حالات انتہائی پیچیدہ ہیں ۔اللہ پاک سے دُعا ہے کہ پیارے پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں حقیقی معنوں میںآزادی کی قدر کرنے کی توفیق عطا ہو اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو ہدایت فرما کر کامیابی و کامرانی نصیب ہو ۔تقاضاوقت تو تھا کہ14جشن آزدی کے موضوع پر لکھوں پر حالات اتنے درد ناک ہیں کہ راقم کیلئے بیان کرنا ممکن نہیں رہا۔سوچا پرندوں کی آزدی کے ساتھ اپنی آزدی کا ذکر کرتا چلوں۔

آزادی کی قدروقیمت تو وہی جانتے ہیں جنہوں نے اپنے گھر کھیت اور عزتوں کولٹتے دیکھا ،غلامی کاٹی ہویاکاٹ رہے ہیں۔ہمیں تو پیارا پاکستان بنا بنایا ملا ،ہم نے تو آنکھ آزاد وطن میں کھولی اس لئے ہمیں آزادی کی قدرو قیمت کا اندازہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔یہاں تو عجیب منظر نظر آرہا ہے ،کوئی انقلاب کے نام پر لوگوں کو تشدد پر اُکسا رہاہے ،کوئی ہوس اقتدارکی پیاس بجھانے کی جلدی میں ملک کو کھیل کا میدان سمجھ بیٹھا اور کوئی اپنا اقتدار بچانے کیلئے سری لنکن اور دیگر جادُو گروں سے مدد مانگ رہا ہے۔اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرماے۔ خیر میرا آج کا موضوع ہے پرندے آزاد کریں ہے ۔پرندے آزاد کریں شاید اللہ تعالیٰ خوش ہو کر ہمیں بھی حقیقی آزادی نصیب فرما دے۔یہ بتانا ضروری ہے کہ راقم اُن پرندوں کی بات کررہا ہے۔

جو ہم نے اپنے بچوں کی خوشی کیلئے گھروں میں قید کررکھے ہیں ،ویسے تو اللہ تعالیٰ نے کوئی چیزبھی بے کار اور بد صورت نہیں بنائی ۔قدرت کے حسین کارخانے میں ہر شے اپنا مقام رکھتی ہے اور کسی بھی مخلوق کی اہمیت کو کم کرنا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔قدرت کے اس خوبصورت کارخانے میں پرندے اللہ تعالیٰ کی بہت ہی خوبصورت اور معصوم مخلوق ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی یہ خوبصورت تخلیق دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔پرندے جنگلوں میں رہیں یا شہروں میں ان کی خوبصورتی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔پرندوں کے رہنے کا اصل مقام تو جنگل ہی ہے لیکن آج بہت سے پرندے شہروں میں بسیرا کرچکے ہیں جن میںجنگلی کبوتر سرفہرست ہیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو ان کو جنگل چھوڑ کر شہروں میں رہنے پر مجبور کرتیں ہیں ،ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاآج انسانوں کے لیے شہرچھوڑکر جنگلوں میں رہنا ممکن ہے؟

اگر جواب نہیں ہے تو پھر پرندوں نے جنگل چھوڑ کرشہروں کا رخ کیوں کیا؟ جنگلی پرندوں کا جنگل چھوڑ کرشہروں میں ڈیرے ڈالنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ شہری لوگ مہمان نواز ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ شہروں میں بسنے والوں نے کبھی اپنے ہمسائیوں کا حال نہیں پوچھا مگر آپ جانتے ہیں کہ شہر میں جگہ جگہ جنگلی پرندوں کے کھانے اور پینے کا اہتمام کیا جاتاہے ۔شہر میں کچھ لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پرپرندوں کے لیے پانی اور دانے کا اہتمام کرتے ہیں اور باقاعدگی سے شہر کے چوراہوں میں رکھے ہوئے برتنوں میںگندم،چاول،باجرہ اور مختلف قسم کے اناج ڈالنے جاتے ہیں ۔شہر کے ان چوراہوں میں نہ تو کوئی ان پرندوں کاشکار کرتا ہے اور نہ ہی پکڑ کرقید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ حکومت نے ان پرندوں کے شکار پرپابندی لگارکھی ہے۔

Birds

Birds

لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ ان پرندوں پر ظلم بھی وہی لوگ کرتے ہیں جوان کے لیے کھانے پینے کا اہتمام بڑے شوق سے کرتے ہیں ۔شہروں کے اندر جنگلی پرندوں پر ظلم کرنے والے لوگ فطری ظالم نہیں ہیں لیکن بے خبری میں ان سے اکثر ظلم ہوتا رہتا ہے ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب وہ لوگ ظالم نہیں تو پھر ظلم کیوں کرتے ہیں اور اگر ظلم کرتے ہیں تو پھر وہ لوگ ظالم کیوں نہیں ہیں ؟بات کچھ یوں ہے کہ جب پرندوں کوپنجروں میں قید دیکھتے ہیں توان کی قیمت ادا کرکے ان کو قید سے رہائی دلاتے وقت لوگ اپنی طرف سے ان پرندوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں لیکن میری نظر میں وہ لوگ جوایسا کرتے ہیں دراصل انجانے میں ظلم کررہے ہوتے ہیں کیونکہ جو لوگ پرندوں کو قید کرتے ہیں وہ اس بات سے باخوبی واقف ہیں کے لوگ پرندوں کی قیمت ادا کریں گے اگر ہم لوگ پرندوں کو خریدنا بند کردیں تو کوئی اُن کوپکڑ کرقید نہیں کرے گا۔اس طرح پرندوں کو قید کرنے والا اور خرید کر آزاد کروانے والا دونوں ہی ظالم بن جاتے ہیں۔

پرندوں کورہائی دلانے والوں کومیں معصوم ظالم کہتا ہوں ۔لیکن ظالموں کی اور نسل بھی انہی شہروں میں پائی جاتی ہے۔جس نے ان جنگلی پرندوں کو اپنا ماحول چھوڑ کرشہروں میں بسنے پرمجبور کیا۔اس ظالم نسل میں وہ لوگ شامل ہیں جو شہروں سے آئے پرندوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں لیکن جنگلوں میںبندوقیں لیے شکار کاشوق پورا کرتے ہیں ان لوگوں کو شکار کھانے میں کم اور مارنے میں زیادہ مزہ آتا ہے ۔شائد یہی وجہ ہے جس نے پرندوں کو جنگل چھوڑ کرشہروں میں بسیرا کرنے پرمجبور کردیاہے۔کیا اچھا ہو اگر ہم لوگ ان جنگلی پرندوں کی خریدوفروخت کے ساتھ ساتھ ان کا شکار کرنا بھی ترک کردیں ۔جب میں انسان کو جنگل میں پرندوں کاشکار کرتے اور شہروں میں مہمان نوازی کرتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ کیسی مہمان نوازی ہے ؟جوکسی کو اس کے گھر سے بے دخل کرنے کے بعد کی جاتی ہے؟یہ کیسی محبت ہے جو محبوب کو گولی کی نوک پہ رکھتی ہے؟

کیا اچھا ہواگر ہم جنگل میں خولی بند کرکے معصوم پرندوں کو ان کے قدرتی ماحول میں جینے دیں ۔کیا ہی اچھاہو اگر ہم جنگلوں کو برباد کرنے کی بجائے آباد کریں، درخت بلاوجہ نہ کاٹیں اور اگر بوقت ضرورت ایسا کرنا پڑے تو کٹنے والے درخت کی جگہ ایک نیا درخت لگاکر پرندوں کو آشیانے بنانے میں مدد کریں۔ اور پھر یہ کیسی انسانیت ہے کہ انسان تو کمزوری اوربے بسی کی حالت میں فٹ پاتھ پر پڑے رہتے ہیں لیکن ہم ان کی طرف مڑکربھی نہیں دیکھتے اور پرندوں کوزبردستی مہمان بناکر ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں ؟اگر ہم پرندوں کی خدمت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے کرتے ہیں تو ہمیں اس پہلوپر بھی غوروفکر کرلینا چاہیے کہ کہیں یہ کاوش رائیگاں تونہیں چلی جائے گی ۔ آخر میں راقم اُن تمام دوستوں سے درخواست کرنا چاہتا ہے جنہوں پرندوں کو اپنے گھروں میںپنجروں کے اندر یا پر کاٹ کر قید کررکھا ہے۔

وہ جشن آزادی پاکستان 14 اگست 2014 کی خوشی میں آزادی کی قدروقیمت کا ادراک کرتے ہوئے پرندوں کو آزاد کردیں تاکہ وہ بھی اپنی فیملی میں جاکر آزادی کا جشن منا سکیں ۔خاص طور پر اپنے استاد محترم مشتاق احمد سلطانی صاحب سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے گھر میں قید طوطے کو آزاد کردیں ،تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اگر اُن کے گھر میں کوئی پرندہ قید ہے تو اُسے اپنی آزادی کا صدقہ آزاد کردیں اور 03214927260پر ایک چھوٹی سے کال کرکے مشتاق صاحب کو بھی طوطہ آزاد کرنے کی درخواست کریں۔اللہ تعالیٰ ہمارے وطن کو اپنی پناہ میں رکھے( آمین)

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر:امتیازعلی شاکر :(1)فرید کوٹ روڈلاہور
email: imtiazali470@gmail.com, 0315-4174470